مجھے یہ دیکھ کر ازحد خوشی ہوئی کہ میرے آبائی شہر حضرو کے ایک صاحب قلم نے، قلمی نام ”نوید بن اشرف” کے تحت ایک ناول” امر سادھنا” لکھا ہے۔ حضرو کے اہل علم نے بتایا کہ علاقہ چھچھ کا پہلا ناول ہے جو نوید بن اشرف نے لکھا ہے۔ یہ بھی پتہ چلا کہ ناول نگار علم و ادب کا شیدائی ہے۔اس کی سرپرستی میں ابھی حال ہی میں ادبی تنظیم” بہار نو” حضرو بھی وجود میں آچکی ہے۔ ناول نگار نے اردو ادب میں ایم اے بھی کیاہوا ہے۔ صاحب ثروت ہونے کے باوجود، علم و ادب سے محبت کی بنا پر وہ اپنا ایک تعلیمی نیٹ ورک بھی چلا رہے ہیں اور اپنے علم و ادب کا تجربہ نئی نسل میں منتقل کر رہے ہیں۔ علم وادب سے محبت اور پرانی نمک خواری ،مجھ کو اس سے ملاقات کرنے کے لیے ان کے آشیانے حضرو کھینچ لائی۔ ہوا یہ کہ میں حضرو کے ایک علم دوست کی دعوت پر ان کے ناول” امر سادھنا” کی رونمائی کی تقریب میں شریک ہونے کے لیے اسلام آباد سے حضرو گیا۔
میں نے زندگی کے بچپن(٥٥) کراچی میں گزارے ہیں۔ابھی حال ہی میں کراچی سے اسلام آباد شفت ہو کر مستقل سکونت اختیار کر لی ہے۔ یہ تقریب کتاب رونمائی اُن ہی کے کمپلس، تربیلا روڈ حضرو میں منعقد ہوئی۔ نقریب رونمائی کے بعدناول نگار کے گھر رات کاکھانا کھایا۔ اسی دروران مجھے ناول ” امرسادھنا” پڑھنے کے لیے عنایت کیا گیا۔ جب میں نے ملاقات کے دوران عرض کیا کہ میں کتابوں پر تبصرہ کرتا رہتا ہوں۔ تو انہوں نے مجھے اپنے ناول ”امر سادھنا” پر بھی تبصرہ کرنے کا کہا۔ بحر حال جب میں نے یہ ناول پڑھا تو مجھے صاحب ناول کی قابلیت پر کچھ لکھنے پر مجبور کیا۔ناول میں بیان کیے گئے کرداروں، رویوں،معاشرتی ماحول ،اخلاقی قدروں، دوستیوںاور ایک دوسرے کے لیے ایثار اوراس دور کی تہذیب و تمدن کا جب مطالعہ کیا تو میںبے ساختہ مسلمانوں کے ایک ہزار سال دور حکومت کے اندر اپنے آپ کو محسو س کرنے لگا۔کیونکہ ناول نگار نے ایک ترتیب سے اس دور کی واقع نگاری کی ہے۔خیر جہاں تک میں جانتا ہوں نہ میں نے اور نہ ہی صاحب تحریر نے اُس وقت کی تہذیب تمدن ، معاشرت اور معاشرتی رویوں کو خود مشائدہ کیاہے۔ کیونکہ کہ ان کی اور میری کم عمری میں ہی یہ تہذیبیں تاریخ کے دارے میں بہتے ہوئے ایک دوسرے سے جدا ہو گئیں تھیں۔
پھر اِس کا مطلب خو بخود یہ نکلتا ہے کہ صاحب تحریر کا مطالعہ وسیع ہے کہ جس انداز سے انہوں نے اُس دور کے کرداروں اور مکالموں کو ضبط ِتحریر میںلایا ہے۔انہوں نے اِس ناول میں ہندی کے الفاظ کو خوب بھی خوبصورتی سے استعمال کیا ہے۔جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہندی زبان کو سمجھتے ہیں اور اُسے استعمال کرنے کاسلیقہ بھی جانتے ہیں۔ اسی لیے ناول نے نگار نے تین مذہبوں کے ماننے والے کے رہن سہن اور گنگا جمنا تہذیب کے اثرات کو جچے تلے انداز میں بیان کیا ہے۔ہم سب کو معلوم ہے کہ بہادر جرنیل، محمد قاسم سقفی جو عرب کے شہر طائف سے تعلق رکھتے تھے، سے لے کر وسط ایشیا کے علاقے فرحانہ کے مغل بادشاہ ظہیرلدین بابر سلطنتِ مغلیہ کے بانی کی اولاد، بہادر شاہ ظفر تک کے مسلمان حکمرانوں نے ایک ہزار تک برصغیر پر حکومت کی تھی۔دنیا جانتی ہے کہ خواص اعزاز سمجھ کر حکمرانوں کے رہن سہن اورتہذیب تمدن کی نقل کرتے ہیں۔
آریائیوں کی برصغیر میں آمند کے بعد، ہندو ئوںکی پرانی تہذہب ،جو انہوں نے داراو ڑوںسے سیکھی، جو برصغیر کے اصل اور قدیم ترین باشنددوںکی تہذیب ہے، سے غلط ملط تھی۔ ساری پرانی تہذیبیںاوہام پرستی اور اپنے ہی ہاتھوں سے بنائے ہوئے اصنام کے کرداروں کے ارد گرد گھومتی ہیں اور اب بھی کسی حد تک گھوم رہی ہیں۔ یہ اسلام ہی تھا جس نے ان سارے (اوہام )اور( اصنام) پرستی کو یکسر تبدیل کر کے ایک نئی الہام پرستی کی تذیب و تمدن اور چلن سکھایا۔ جب یہ تہذیب برصغیر میں پہنچی تو ان پرانی تہذیب پر حاوی ہو گئی۔ اس کا مظہر یہ ہے کہ ہندو گنگا کے پانی میں اشنان کر کے گنائوں سے پاک صاف ہو جاتے ہیں۔
مسلمان اسی گنگا کے پانی سے وضو کر پاک صاف ہو کر انسانوں اور جہانوں کے رب کے سامنے سجدا بجا لاتے ہیں۔ برصغیر میںانسانوں کا ایک بڑا حصہ اپنے ہاتھوں سے تراشے ہوئے پتھرکے بتوںکی پوچا سے آزاد ہوا۔ عورت جو مندروں میں دیوداسی بن کر پجاریوں کی ہوس کا نشانہ بنتی تھی وہ اسلام کی بابرکت تہذیب آنے سے مقدس ہستی بنی۔ کبھی ماں کے روپ میں جنت اس کے قدموں میں ملی۔ کبھی بہن کے روپ میں مقدم رشتہ بنی اورکبھی بیوی کے روپ میں اپنے خاوند کے حصار میں گھر کی ملکہ بنی۔ پھر اُسے خاوند کی موت کے ساتھ ستی نہیں ہونا پڑتا تھا۔ اسی تہذیب و تمدن کی جلکیوں اور رویوں کو ناول نگار نے اپنے ناول میں خوبی اور عرق ریزی سے استعمال کیا ہے۔”امر سادھنا ”ناول اُسی تہذیب کی عکاسی کرتا ہے۔ اس ناول میں کہیںمسلمان کردار کی بہادری اور کہیںہندو کردار کی وفا شعاری اور کہیں سکھ کرادر کی دوستی نظر آتی ہے۔
اسلام میں اہل کتاب کے علاوہ دوسرے مذاہب کی خواتین کے ساتھ شادی کی ممانت کی ہے۔برصغیر میں مسلمانوں کی بہتر تہذیب اور دور حکمرانی کے دوران مغل شہنشاہ جلاالدین اکبر نے، ہندو عورتوں سے شادی کر کے ایک نئی بنا ڈالی تھی۔ ناول ”امر سادھنا” کی کہانی ایک مسلمان نوجوان امر، جس نے اپنی ایمانداری ،وفا شعاری اور محنت سے معاشرے میں غربت سے نکل کراونچا مقام حاصل کیا تھا اور ایک ہندو ساہوکار سیٹھ گوپال کی بیٹی سادھنا، جب وہ اپنے مادر وطن دہلی میں سیاحتی دورے پر آئی تو محبت ہو گئی۔ ایک طرف ایک با اصول محنت اور مشقت کرنے والے مسلمان نوجوان ”امر” اور دوسری طرف ایک نوجوان ہندو ساہوکار کی ہندو بیٹی” سادھنا” جو مغرب کے مادر پدر آزاداور سیکسی معاشرے میں اپنی عفت کوپچائے رکھتی ہے کے ارد گرد گھومتی ہے۔
جب سیٹھ گوپال کومسلمان نوجوان” امر” کی ایمانداری،وفاشعاری اور محنت سے معاشرے میں مقام بنانے اور اپنی بیٹی سے محبت کا معلوم ہوا توسیٹھ گوپال اپنی اقلوتی بیٹی کے ارمانوں کے سامنے ڈھیر ہو گئے۔ لندن کے مشہور ومعرف ہوٹل میں معاشرے کے سارے لوگوں کو بلا کر اپنی اکیلی نویلی پیاری بیٹی کی رسم منگنی ادا کی۔اُس دور میں برصغیر کی سارے تہذیبیں اور مذہب کے ماننے والے ایک دوسرے کا احترام کرتے تھے۔اس کی وجہ مسلمان حکمرانی کا دور تھا جن کا مذہب روا دار ی اور امن پسند ہونا ہے۔اب بھارت میںہندو حکمران ہیں۔خاص کر دہشت گردمودی اتنا متعصب ہے کہ آئے دن مسلمانوں کے خون سے حولی کھیلتا رہتا ہے۔
سادھنا اپنی فیملی کے ساتھ اپنے وطن برصغیر کے ایک گائوں میں شادی کی تقریبا ب منانے آئی۔ جہاں ہندو، سکھ اور مسلمان امن و شانتی سے رہتے تھے۔ان کے آپس میں بھائی چارہ اوردوستیاں تھیں۔ ناول نگار نے شادی کی تقریب میں اس بھائی چارے کا اپنے ناول میں ایسا نقشہ پیش کیا کہ قاری اپنے آپ کو اُس ماحول میں شامل سمجھنے لگتا ہے۔ یہ ایک کامیاب ناول نگار کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ آخر میں دولہا اور دلہن کو ایک د یوانی عورت کے حسرت سے دیکھنے کا نقشہ کھینچ کر اپنے ناول کو امر کردیا۔ اگر کوئی اُس دور کے رویوں، دوستیوں ایک مذہب کے دوسرے مذہب کے ساتھ ایثار اور محبت کی لازوال کرداروں کو دیکھنا چاہتاہے تو اس ناول” امر سادھنا” کو ضرور پڑھیں۔