تحریر : عماد ظفر تو پھر محترم عمران خان نے دو نومبر کو “انقلاب” لانے کا حتمی فیصلہ کر ہی لیا. کتنی زبردست بات ہے کہ ان کے اس انقلابی دھرنے میں چوہدری پرویز الہی اور شیخ رشید جیسے جمہوریت پسند اور ایماندار افراد آگے پیچھے کھڑے نظر آئیں گے.یہی نہیں بلکہ طائر القادری صاحب بھی “یار لوگوں” کا اشارہ پا کر اس انقلاب میں شامل ہو سکتے ہیں. دو نومبر کو عمران خان اور ان کے ہمنواؤں کے ساتھ عوام کی کتنی تعداد ہو گی یہ ایک بے معنی سوال ہے کیونکہ صرف چند ہزار افراد کا جتھا بھی شہر کے انٹری پوائنٹس کو بند کر کے دارلحکومت میں آمد و رفت کو بند کر سکتا ہے اور باقی کا کام ٹی وی چینل سکرینوں اور حوالدار اینکرزـاور تجزیہ نگاروں کے جزباتی تبصروں سے پورا ہو جاتا ہے. یعنی جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کے مصداق الیکٹرانک مداری جیسا چاہے دکھا کر اور بول کر چند ہزار لوگوں کے جتھوں کو لاکھوں لوگوں کا سمندر ثابت کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے. خیر نواز شریف اگر دو نومبر کی یلغار سے بچ نکلے تو عمران خان کی “الیکٹرانک سیاست ” کا بھی مکمل خاتمہ ہو جائے گا۔
انتخابی سیاست تو چونکہ ان کی پنجاب میں کب سے دفن ہو چکی اس لیئے اس کا ذکر ہی فضول ہے. لیکن قرائن بتاتے ہیں کہ “یار لوگ” اس بار محض حوالدار اینکروں اور لولے لنگڑے سیاسی پیادوں پر ہی اکتفا نہیں کر رہے بلکہ ریاست کے ایک اور اہم ستون سے بھی امیدیں لگائے بیٹھیں ہیں. کیونکہ بی الفرض اگر مان بھی لیا جائے کہ عمران خان اور ہمنوا اگر عوام کا جم غفیر نکال کر اسلام آباد کو بند کر بھی دیں تو بھی ملکی سیاسی تاریخ پر نظر رکھنے والے اس بات کا ادراک رکھتے ہیں کہ نواز شریف مستعفی نہیں ہوں گے .1999 میں مارشل لا کے بعد نواز شریف سے بندوق کے زور پر استعفی مانگا گیا تھا لیکن انہوں نے صاف انکار کرتے ہوئے جواب دیا تھا “اوور مائی ڈیڈ باڈی”. اس سے پہلے 1993 میں بھی جب ان سے استعفی مانگا گیا تو انتہائی دباؤ اور قومی اسمبلی میں بمشکل سادہ اکثریت ہونے کے باوجود نواز شریف ایسٹیبلیشمنٹ کے سب سے بڑے پیادے غلام اسحاق خان کو لے کر ڈوبے تھے۔
اس تاریخ کو مد مظر رکھتے ہوئے تو اب نواز شریف کو گھر بھیجنے کا صرف وہی راستہ باقی بچتا ہے جس کے تحت یوسف رضا گیلانی کو گھر بھیجا گیا تھا یا پھر سیدھا سیدھا مارشل لا. لیکن امریکی صدارتی انتخابات میں ڈیمو کریٹس کی یقینی کامیابی اور ہیلری کلنٹن کی یقینی جیت کی پیشن گوئی کی وجہ سے مارشل لا کا امکان بھی بے حد کم نظر آتا ہے کیونکہ ڈیموکریٹس ڈکٹیٹرز کو نہ تو امداد دیتے ہیں اور نہ سفارتکاری کے محاذ پر مدد. دوسری جانب کلنٹن خاندان سے نواز شریف کے پرانے اور گہرے تعلقاتہیں. نواز شریف کی مشرف کی قید سے رہائی میں سابق صدر بل کلنٹن کا گہرا کردار تھا جسے دیکھتے ہوئے باآسانی کہا جا سکتا ہے کہ ان کی اہلیہ کی واشنگٹن موجودگی کی صورت نواز شریف کو اگلے انتخابات جیتنے کی صورت میں بھی مارشل لا کا کوئی خطرہ نہیں ہو گا. لیکن بہر حال 2 نومبر کو الیکٹرانک میڈیا اور اسلام آباد کی سڑکوں پر ہمیشہ کی طرح انقلاب کا سورج طلوع ہو چکا ہو گا جو صرف “ہالوسیینیشن” یا “یوفوریا” کے شکار افراد کو ہی نظر آئے گا اور وطن عزیز کے کڑوڑہا افراد اس کو دیکھنے سے ہمیشہ کی طرح محروم رہیں گے۔
Pakistani Media
حکومت نے دو نومبر کے دھرنے کے الیکٹرانک میڈیا کے اثرات کم کرنے کیلئے حکمت عملی ترتیب دے دی ہے اور ہو سکتا ہے نئے سپہ سالار کی تقرری یا اسی سپہ سالار کی ایکسٹینشن کی خبر بھی اس دھرنے کے آس پاس سنائی دے . دھرنے سے ایک دو دن پہلے نئے سپہ سالار کا اعلان دھرنے کے غبارے سے “الیکٹرانک ہوا” بھی نکال دے گا اور “یار لوگوں” کے پاس 1999 کی طرح جنرل ضیاالدین بٹ والا واقعہ دہرانے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہو گا دوسری جانب موجودہ سپہ سالار نہ تو مشرف کی طرح ایڈونچر پسند ہیں اور نہ ہی سامنے آ کر معاملات چلانے میں دلچسپی رکھتے ہیں .اور خود حکمران جماعت کا ایک حصہ موجودہ سپہ سالار کی مدت ملازمت کو بڑھانے کے حق میں ہے. عدلیہ کا یکم نومبر کا پانامہ لیک کے حوالے سے کسی بھی قسم کا عبوری حکم نامہ بھی آ سکتا ہے اور دونوں فریقین کو اپنی اپنی حدود سے تجاوز نہ کرنے کا بھی کہا جا سکتا ہے. ادھر حکمران جماعت کوہاٹ اور قصور میں جلسے منعقد کر کے عمران خان کے بیانیے کو سبوتاج کرنے کی بھی کوشش کر رہی ہے. لیکن دو نومبر کو غالبا وزیر اعظم بیرون ملک کسی کانفرنس میں شریک ہوں گے اور یوں ایک بار پھر محترم عمران خان کی بارہا دہرائی ہوئی تقریر اور گالیاں لائیو نشر ہوں گی۔
محترم الطاف حسین کی مانند اسی حالت میں اشخاص اور اداروں کو جی بھر کے گالیاں سنائی جائیں گی اور جو بھی ٹی وی چینل یا تجزیہ نگار اختلاف کا حق استعمال کرے گا اسے بکاو اور لفافہ کا نام دے دیا جائے گا. دارلحکومت پر چڑھائی کرتے ہوئے عمران خان ہوں یا پس پشت بیٹھے “یار لوگ” انہیں ایک بات نہیں بھولنی چائیے کہ الطاف حسین کو پیپلز پارٹی کی مقبولیت کم کرنے کیلئے میدان میں اتارا گیا تھا اور اسے فری ہینڈ بھی دیا گیا لیکن نتیجہ کیا نکلا ؟ آخر میں وہ اپنے بنانے والوں کے لیئے ہی درد سر بن گیا جبکہ پیپلز پارٹی اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود آج بھی سندھ کی مقبول ترین جماعت ہے اور سندھ پر حکومت کر رہی ہے. سٹریٹیجیک اثاثوں کے نام پر پلنے والے اثاثے بھی خود اپنے بنانے والوں کی جان کے درپے ہو گئے تھے. عمران خان کی صورت میں پنجابی الطاف حسین لانچ کر کے یار لوگوں نے کہیں پھر سے وہی غلطی تو نہیں دہرا دی.اس کا فیصلہ آنے والا وقت کرے گا۔
فی الحال تو “یار لوگ” ہمیشہ کی طرح آنے والے کل کا سوچنے کے بجائے محض لمحہ موجود کی لڑائی جیتنے میں مصروف نظر آتے ہیں. دو نومبر کے دنگل کے بعد یا تو پاکستان بھٹو کی طرح تاریخ کا ایک اور مضبوط ترین وزیراعظم دیکھے گا یا پھر ایک کمزور وزیراعظم لیکن دونوں ہی صورتوں میں محترم عمران خان کے مقدر میں تشنگی ہی آئے گی اور مارشل لا کی آمد کا انتظار کرتے اور ٹیکنو کریٹ حکومت میں اپنے اہنے حصے کے منتظر خواب دیکھتے قصیدہ خوانوں کی آنکھوں میں ویرانی۔