اسلام آباد (جیوڈیسک) وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ اگر ایل این جی کا معاہدہ نہ کرتے تو اور کوئی سلوشن نہیں تھا، ایل این جی کو 20 ماہ کے اندر سسٹم میں شامل کر دیا تھا، قطر کیساتھ ایل این جی کا معاہدہ سب سے کم قیمت پر ہوا، ایل این جی کے الزامات بہت پرانے ہیں۔
وزیر اعظم نے کہا کہ چودھری نثار نے وزارتِ عظمیٰ کا امیدوار بننے پر مجھے سپورٹ کیا، چودھری نثار کابینہ میں نہیں لیکن انہیں حصہ ہی سمجھیں، چودھری نثار سے تیس سال پرانا تعلق ہے۔ انہوں نے کہا کہ روس کیساتھ پاکستان کے تعلقات میں بہتری آئی ہے، بھارت کیساتھ بہتر تعلقات پاکستان کے بھی حق میں ہیں۔
وزیر اعظم نے واضح کیا کہ نواز شریف خود ہی افیکٹو وزیر خارجہ تھے، نواز شریف کا وفاقی حکومت کا تیس سال کا تجربہ ہے، میرا نام نواز شریف نے تجویز کیا تھا، ایسا نہیں کہ جن کو وزیر بنایا گیا وہ پارٹی چھوڑ کر جا رہے تھے، وزرات عظمیٰ کا کوئی امیدوار نہیں تھا، پارٹی کا فیصلہ سب نے قبول کیا، کئی ایم این ایز نے امریکہ سے آ کر ووٹ دیا۔
وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے یہ بھی کہا کہ کل پنجاب ہاؤس جاؤں گا جو نواز شریف حکم دیں گے، وہی کروں گا، سکیورٹی تھریٹ ہر جگہ ہیں لیکن انہیں مینج کرنا پڑتا ہے، اگر سیاست میں رہنا ہے تو پھر جرات سے حالات کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے، جو لوگ پاکستان کی ترقی نہیں چاہتے، وہی سازش کرتے ہیں، نواز شریف کرسی پر نہیں ہیں لیکن ان کی پالیسیاں قائم رہیں گی، تنقید کرنا عمران کا پروفیشن ہے، سب سے آسان کام تنقید کرنا ہے۔
وزیر اعظم نے مزید کہا کہ ہم احتجاج نہیں کر رہے، نواز شریف اپنے گھر جا رہے ہیں، لوگ اپنی پارٹی سے اظہار یکجہتی کرنا چاہتے ہیں، نواز شریف کو ہٹانا پارٹی کے لئے بہت بڑا دھچکا تھا، اب معاملات دوبارہ سے چلنا شروع ہو گئے ہیں، 2018ء کے الیکشن وقت پر ہوں گے اور (ن) لیگ فتح حاصل کرے گی۔
ایک پراسس کو ڈی ریل کرنا سازش تھی، جب ایسے شخص کو ہٹائیں گے تو کیا ملک کیخلاف سازش نہیں؟ ملک کے کچھ اندرونی اور بیرونی عناصر ترقی نہیں چاہتے جس کی وجہ سے پراسس ڈی ریل ہوا، جس سے ملک کا نقصان ہو، وہی سازش ہوتی ہے۔
وزیر اعظم نے واضح کیا کہ میرے اثاثے اور لائف سٹائل سیاست میں آنے سے پہلے ہی بہتر تھا۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ اور سیاست کے وقار کو بحال کرنا ہے۔
سیاست ملک میں گالی بن چکی ہے جس میں سیاست دانوں کا بھی قصور ہے، جس طرح میثاق جمہوریت ہوا، اسی طرح چارٹر آف اکنامی ہونا چاہئے، تمام سیاسی جماعتوں کو اس معاملے پر ایک پلیٹ فارم پر ہونا چاہئے، لوگ گالم گلوچ کی سیاست کو پسند نہیں کرتے، سیاست میں شائستگی ہونی چاہئے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ 62 ٹو ون ایف میں بھی ترامیم ہو سکتی ہیں، اگر تمام جماعتوں کا اتفاق ہوتا ہے تو اس کو بدلنا چاہئے، نومبر 2017ء کے بعد ملک میں لوڈ شیڈنگ نہیں ہو گی۔