2 نومبر کچھ نہیں ہو گا یا بہت کچھ ہو گا

PML-N vs PTI

PML-N vs PTI

تحریر : ایم ایم علی
ملک میں دن بدن سردی بڑھتی جا رہی ہے جبکہ سیاسی میدان دن بدن گرم ہوتا جا رہا ہے۔ حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف میں الفاظ کی جنگ شدت اختیار کرتی جارہی ہے ایک دوسرے کو غلط ثابت کرنے کی ہر ممکن کوشش میں لگے سیاست دان ایک دوسرے کو غدار تک قرار دینے میں لگے ہوئے ہیں، اگر ایک، دوسرے کو یہودی لابی کہہ رہا ہے تو دوسرا اسے بھارتی ایجنٹ قرار دے رہا ہے۔

سانحہ کوئٹہ میں ساٹھ سے زائد قیمتی جانیں چلی گئیں مگر ہمارے سیاست دان اس پر بھی اپنی اپنی سیاست چمکا رہے ہیں اور اس افسوسناک واقعہ کو ایک دوسرے سے جوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں دو نومبر کا دن جیسے جیسے قریب آ رہا ہے دونوں فریقین میں تلخی بھی بڑھتی جا رہی ہے ۔ایک طرف تو تحریک انصاف دو نومبر کا دھرنا کامیاب بنانے کیلئے دن رات ایک کئے ہوئے ہے تو دوسری طرف حکومت اس دھرنے سے نمٹنے کے لئے پوری تیاری کر رہی ہے اور اطلاعات یہی ہیں کہ اس بار حکومت دھرنے کا اعلان کرنے والوں سے سختی سے نمٹنے کی پلاننگ کئے ہوئے ہے۔

ایک طرف عمران خان کہہ رہے ہیں کہ اسلام باد میں دس لاکھ لوگوں کو اکٹھا کریں گے ،تو دوسری طرف حکومت کا کہنا ہے کہ وہ کسی بھی صورت دھرنا نہیں ہونے دے گی اس ساری صورت حال کے پیش نظر ساری قوم کی نظریں دو نومبر پہ لگی ہوئی ہیں کہ اس بار کچھ ہوگا ،یا کچھ نہیں ہوگا ؟ تحریک انصاف ،پیپلز پارٹی ،مسلم لیگ (ق)اور جماعت اسلامی ملک بھر میں جلسے کر رہی ہیں۔ جبکہ ڈاکڑطاہرالقادری کے بیرون ملک ہونے کی وجہ سے عوامی تحریک کے جلسوں کا سلسلہ فی الحال رکا ہوا ہے البتہ عوامی تحریک نے دو نومبر کو تحریک انصاف کے دھرنے میں شرکت پر آمادگی ظاہر کر دی ہے پیپلز پارٹی اس وقت وکٹ کے دونوں طرف کھیل رہی ہے ایک طرف تو وہ حکومت کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے، تو دوسری طرف تحریک انصاف کے اسلام آباد میں دھرنے کی مخالفت بھی کر رہی ہے ، اسی طرح جماعت اسلامی بھی تحریک انصاف کا ساتھ دینے کی بجائے اپنے احتجاجی جلسے کر رہی ہے۔

بہر حال اس وقت تمام نظریں 2 نومبر کو اسلام آباد میں ہونے والے تحریک انصاف کے دھرنے پر لگی ہوئی ہیںاور یہ سوال زبان زدعام ہے کہ2 نومبر کو کیا ہو گا ؟ یہ دھرنا تحریک انصاف کے نقطہ نظر سے بہت اہمیت کا حامل ہے ، عمران خان کہہ تو رہے ہیں کہ وہ دو نومبر کو اسلام آباد میں دس لاکھ لوگوں لائیں گے اور اسلام آباد بند کر دیں گے ، بادی النظر میں بھی عمران خان اس طرح کے بلند و بانگ دعوے کرتے رہے ہیں خان صاحب نے 2014 میں بھی دس لاکھ لوگوں کو اسلام آباد لانے کا دعوی کیا تھامگر بمشکل دس ہزار لوگوں کو ہی اسلام آباد میں اکھٹا کر سکے تھے یہ ہی وجہ تھی کہ 100دنوں سے زائد اور ملک کا طویل ترین احتجاج کرنے کے با وجود تحریک انصاف حکومت سے کوئی بڑا مطالبہ نہیں منوا سکی تھی۔

Imran Khan and Tahirul Qadri

Imran Khan and Tahirul Qadri

قارئین کرام!ڈاکٹر طاہر القادری کی اسلام آباد دھرنے میں شرکت کے اعلان سے پہلے تک تو حکومتی حلقوں میں عمران خان کے دو نومبر کے دھرنے کو اتنا سیریس نہیں لیا جارہا تھا لیکن ڈاکٹر طاہر القادری کے اعلان کے بعد حکومتی حلقوں میں یقناً پریشانی بڑی ہے ،اس بات میں کوئی شک نہیں کہ تحریک انصاف ایک بڑی جماعت ہے اور ملکی تاریخ کے بڑے بڑے جلسے کر چکی ہے لیکن یہ بات بھی حقیقت ہے کہ تحریک انصاف کے کارکن سوشل میڈیا پر بیٹھ کر سوشل میڈیا کی جنگ تو لڑ سکتے ہیں مگر عملی طور پر سڑکوں پر وہ لاٹھیوں ،پلاسٹک کی گولیوں اور آنسوں گیس کا مقابلہ نہیں کر سکتے ،لیکن اس کے برعکس ڈاکٹر طاہر القادری کے کارکن سخت جان ہیں اور وہ عملی طور پر بھی لڑ مر سکتے ہیں کیونکہ عوامی تحریک کے کارکن کسی سیاسی جماعت کے کارکن نہیں بلکہ عقیدت مند ہیں اور عقیدت مندوں کے ذہن میں یہ بات ڈال دی جاتی ہے کہ یہ حق و باطل کا مارکہ ہے اور یہ حسینیت اور یزیدیت کی لڑائی ہے ،اگر اس لڑائی میں تم مارے گئے تو شہید اور اگر بچ گئے تو غازی ، یہی وجہ ہے کہ عقیدت مندجذبہ شہادت سے سرشار ہو کر ہر وہ کام کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں جوقانونی ہے یا غیر قانونی یا پھر اسلام میں اس کی اجازت ہے یا نہیںان عقیدت مندوں کو ان باتوں سے کوئی سروکار نہیں ہوتا ،ان کو تو بس اپنے روحانی پیشوا کا حکم بجا لانا ہوتا ہے۔

بحرحال قادری صاحب نے 2نومبر کے دھرنے میں اپنی جماعت کی شرکت کا اعلان تو کیا ہے لیکن یہ واضع نہیں کیا کہ وہ خود اس دھرنے میں شرکت کریں گے یا نہیں ،خود ان کے شرکت کرنے کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ میں شرکت کروں گا یا نہیں۔قارئین!اگر طاہرالقادری بذات خوداس دھرنے میں شرکت نہیں کرتے اور صرف ان کی جماعت کا کوئی وفد شرکت کرتا ہے تووہ ایسے ہی ہوگا جیسے لاہور کے جلسے میں پیپلز پارٹی نے شرکت کی تھی ،صرف عوامی تحریک کے وفد کی شرکت تحریک انصاف کیلئے ناکافی ہو گی۔بحرحال اس بات کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے کہ قادری صاحب 2 نومبر کے دھرنے میں شرکت کرتے ہیں یا نہیں ۔عوامی تحریک کے سربراہ کی شرکت کا فیصلہ اس بات کو مدنظر رکھ کر بھی کیا جائے گا کہ اگر اس دھرنے سے کامیابی ملتی ہے تو اس کا کریڈٹ کس کے کھاتے میں جائے گا؟ اس کے علاوہ عمران خان کی سولوفلائیٹ کی عادت کو بھی مدنظر رکھا جائے گا کیونکہ اپوزیشن کی دوسری جماعتوں کو عمران خان سے ہمیشہ یہ گلِہ رہا ہے کہ عمران خان سولو فلائیٹ کے عادی ہیں اور ان کی اسی عادت کی وجہ سے آج تک اپوزیشن ایک پلیٹ فارم پر اکھٹی نہیں ہو سکی۔

قارئین کرام ! اس بات میں تو کو ئی شک نہیں کہ پانامہ لیکس کا ایشو ایک اہم ایشو ہے اور اس کو اپنے منطقی انجام تک پہنچنا چاہیے لیکن اس معاملے پر ساری جماعتیں اپنی اپنی سیاست چمکا رہی ہیں اور کوئی بھی جماعت اس ایشو کو حل کرنے میں سنجیدہ نظر نہیں آتی بلکہ پانامہ کو جواز بنا کر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔موجودہ حالات پر گہری نظر رکھنے والے (یار لوگوں ) کا کہنا ہے کہ یوں تو عمران خان ہر جلسے میں سپریم کورٹ کو مخاطب کر کے یہ کہتے رہے ہیں کہ سپریم کورٹ قوم آپ کی طرف دیکھ رہی ہے اور قوم آپ سے انصاف چاہتی ہے، اب جب سپریم کورٹ نے باقاعدہ اس کیس کی سماعت شروع کر دی ہے اور فریقین کو نوٹسس جاری کرتے ہوئے یکم نومبتر کو طلب کر لیا ہے تو اس کے بعد پانامہ لیکس پر تحریک انصاف کا احتجاج سمجھ سے بالا تر ہے۔ (یار لوگوں) کا خیال ہے کہ کہ پانامہ ایشو اب ایک مردہ گھوڑا بن چکا ہے اب اس ایشو میں کوئی جان نہیں رہی ،اور سپریم کورٹ میں کیس چلنے کے بعد اب بھی تحریک انصاف کا ہرصورت اسلام آباد بند کرنے کا اعلان اور وزیر اعظم سے استعفی کا مطالبہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ عمران خان ہر حال اور ہر قیمت پر نواز شریف کو گھر بھیجنا چاہتے ہیں جو ممکن نظر نہیں آتا۔ قارئین ! اگر 2نومبر کو دونوں طرف سے سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کیا گیا تو یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ دو نومبر کو کچھ بھی نہیں ہوگا اور اگر دونوں فریق اپنی اپنی انا کی جنگ لڑتے رہے تو پھر بہت کچھ ہو گا جو نہ تو ہمارے سیاستدانوں کے حق میں بہتر ہو گا اور نہ ہی اس ملک و قوم کے حق میں۔

MM ALI

MM ALI

تحریر : ایم ایم علی