این آر او کی نہیں بات ہے پلے بار گینگ کی

Imran Khan

Imran Khan

تحریر : قادر خان یوسف زئی

مملکت کی معاشی حالات واقعی نازک دور سے گذر رہے ہیں۔ پاکستان پر ہر قسم کا بُرا وقت آیا ہے اور پاکستانی عوام نے ہر بُرے وقت کو پیٹ پر پتھر باندھ کر جھیلا ہے ۔ لیکن سیاسی پنڈتوں کے مطابق جس قسم کے بُرے حالات کا پاکستانی عوام مزید سامنا کریں گے وہ اُن کے خواب و خیال میں بھی نہیں ۔ عالمی معاشی اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق موجودہ حکومت کو پاکستان کی اب تک کی سب سے ناکام انتظامیہ قرار دیا جا سکتا ہے جن کے پاس مملکت کو درپیش معاشی مسائل سے نکالنے کا کوئی مربوط حل نہیں ہے۔ عرب(ارب) ممالک سے قرضے اور آئی ایم ایف کے ”گیت مالا”کے علاوہ ماضی کی حکومتوں کے خلاف تقاریر پر سوئی کی طرح اٹک جانا، فلاپ بور فلم بن چکی ہے کہ اسے مزید سنیما پر نہیں چلایا جاسکتا ۔ وزیر اعظم نے گوادر خطاب میں بلوچستان کے ترقیاتی منصوبوں کے لئے آرمی چیف کا متحدہ عرب امارات سے” فنڈ” لانے پر شکریہ ادا کیا۔ اس سے قبل اپوزیشن لیڈر کئی ماہ پہلے کہہ چکے تھے کہ پاکستان کو قرضے” آرمی چیف ”کی وجہ سے مل رہے ہیں لیکن اس بیان کو اپوزیشن کا روایتی تنقیدی بیان قرار دیا گیا ۔ لیکن اب وزیر اعظم کے اعتراف کو سمجھنے کے لئے افلاطون کا شاگرد ہونا ضروری نہیں۔سقراط بن کر زہر کا گھونٹ ضرور پیا جا سکتا ہے۔

موجودہ حکومت کی معاشی پالیسی کا کوئی سر پیر ہی سمجھ میں نہیں آرہا کہ وہ آخر کر کیا رہی ہے ۔ معاشی پلان پر مکمل توجہ مرغی، مرغا، انڈے ، کٹے ، بھینس ،بکرے بکریاں پر لگتی ہے ۔ حکومتی وزرا ء کے بیانات سے لگتا ہے کہ جلد ہی ”من و سلوی ”اترنے لگے گا ۔ وزیر اعظم و حکومتی وزرا ء قوم کو خوش خبریاں سنا رہے ہیں (ان کی خوش خبریوںسے بذات خود ڈر جاتا ہوں )کہ سمندری ساحلوں سے اتنا تیل نکلے گا کہ اس کے بعد پاکستان کو کسی دوسرے ملک سے تیل لینے کی ضرورت ہی ختم ہوجائے گی( عوام کا تیل تو مہنگائی کب کا نکال چکی ہے)۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کچھ تو عوام کئی عشروں سے سن رہے ہیں ۔ اب کراچی کے لئے” خالی خزانوں” سے 126ارب روپے کے پیکجز کا اعلان کیا ہے۔ سندھ حکومت کو سابق وزیر اعظم نے میٹرو بس کا تحفہ دیا تھا لیکن لیاری ایکسپریس وے کی طرح گرین لائن بس بھی اہل کراچی کا منہ چڑا رہی ہے ۔ اب تو یہ حالات دیکھ کر رونا آتا ہے کہ جلسوں ، سوشل میڈیا میں کھلے عام ”پلے بارگینگ”کی بات کی جاتی ہے کہ سابق وزیر اعظم اور سابق صدر پیسے دے دیں تو انہیں چھوڑ دیا جائے گا ۔ این آر او کی یہ نئی شکل نہیں ہے۔ اس سے پہلے بد قسمتی سے ” کرپشن فری” ادارہ یہ عظیم کام کرتا تھا۔ جس پر عدالت عظمیٰ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے تاریخی ریمارکس دیئے تھے کہ رشوت کے ریٹ کیوں مقر ر نہیں کردیئے جاتے ۔ پھر تاریخ نے ہی عجیب منظردیکھا اور ریٹ 460ارب روپے کی ڈیل پر ختم ہوئی۔

اب حکومتی وزرا ء اور خود وزیر اعظم اعلان کررہے ہیں کہ پیسے دے دو تو ہم چھوڑ دیں گے ۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ سب کچھ” ہوا ”میں ہے کیونکہ ان کے پاس ٹھوس شواہد ہوتے تو کئی ہزار ارب روپے واپس لانے کے دعویٰ پورے کرچکے ہوتے ۔200ارب ڈالر میں سے ایک سو ارب ڈالر قرض دینے والے اداروں کے منہ پر مارتے اور100ارب ڈالر سے 50لاکھ مکانات بناتے ، ایک کروڑ نوکریاں مہیا کرتے اور پھر سمندر سے تیل نکال کر عرب ممالک کے تیل ادھار پر لینا بند کرتے ۔ ادھار پر لئے تیل پر قیمتوں میں اضافہ نہ کرتے ۔ بھاشا ، مہمند ڈیم سمیت سینکڑوں ڈیم بن جاتے ۔ بجلی سستی کیا فری ہی ہوجاتی ۔ کارخانوں میں چوبیس گھنٹوں کی شفٹیں چل رہی ہوتی ۔ محنت کشوں کے معاوضوں میں اضافہ ہوجاتا، انہیں سوشل سیکورٹی کا حق مل جاتا ، ٹھیکداری نظام ختم ہوجاتا اور بیرون ملک جانے والے تارکین وطن واپس آجاتے ان کی جگہ غیر ملکی پاکستان میں نوکری کی تلاش میں آتے ۔ انڈر گرائونڈ میٹرو ٹرینیں چل رہی ہوتی ۔ کئی ارب(عرب) درخت لگ چکے ہوتے ۔ غیر ملکی سیاحوں کو سوات و مری کی طرح ہوٹل میں اگر دوران سیزن کمرے نہیں ملتے تو فٹ پاتھوں پر سوجاتے۔ کم از کم کراچی کی کٹی پہاڑی جو کبھی اہل کراچی کے لئے تفریح و شہر کی روشنیوں کو دیکھنے کا سب سے بہترین جگہ تھی ۔ کٹی پہاڑی کا ٹنکی پارک دوبارہ آباد ہوجاتا ۔ ہل پارک سے سفاری پارک اور وہاں سے کٹی پہاڑی پر چیئر لفٹ میں ملکی و غیر ملکی سیاح کراچی کی بلند بالا عمارتوں کو دیکھ کر کہتے کہ کون کہتا ہے کہ یہ کنکریٹوں کا شہر ہے ۔ یہ تو کراچی ہے ۔ روشنیوں کا شہر ، چمکتا ، جھلملاتا ہوا معاشی شہ رگ۔

شاید میں خوابوں کی دنیا میں چلا گیا تھا ۔ کیا کروں حکومت اتنے سہانے سہانے خواب دیکھا رہی ہے تو خواب دیکھنا تو پڑیں گے ۔ اب اس کی تعبیر بی آر ٹی منصوبے کی طرح نکلے تو پھر اس میں کس کا کیا قصور ۔ ایسے سہانے خواب کے اعلانات کے کراچی والے عادی ہیں ، لیاری کو پیرس بنانے کا خواب تو اتنا مشہور ہوا تھا کہ پیرس والے لیاری کو دیکھنے آتے تھے کہ لیاری میں ایفل ٹاور کہاں لگے گا ، پیرس کو خوشبوئوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے( یہاں لیاری ندی اور اس کی بو بہت مشہور ہے ) ۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پیرس خوشبوئوں کا شہر بننے سے قبل دنیا کا سب سے بدبودار اور غلاظت سے اَٹا شہر ہوا کرتا تھا ۔ اس لئے لیاری والوں نے بھی پیرس بنانے والی بات ہضم کرلی۔ پھر پیرس کی قسمت بدلی اور دنیا کا مہنگا ترین شہر ہونے کے باوجود دسیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے۔ لیاری کو پیرس بنانے والے اور کراچی کو نیویارک بنانے والوں کے خوابوں کی تعبیر ، ہنوز دلی دور است ہے۔

بس گذارش ہے کہ قوم کو مزید خواب دکھانے سے باز آجائیں ۔ گرمیاں آچکی ہیں ،دماغ ویسے ہی پک رہا ہے ۔لوڈ شیڈنگ اور بجلی کے میٹر ریڈنگ میں تیز رفتاری کا عالمی مقابلہ ہے ۔ ان حالات میں جب کہ ا بن قاسم پارک جیسے بڑا منصوبہ بنا کر130ایکڑ زمین لینڈ مافیا سے بچا کر سابق سٹی ناظم نے تاریخ رقم کی تھی ۔ اب اتنے برسوں بعد دوبارہ اس کا افتتاح کرنا اور 5کروڑ روپے سالانہ تزہین آرائش کے نام پر خرچ کرنے باوجود ابن قاسم پارک پرمئیر کراچی کو خراج تحسین پیش کرنے پر اُسی طرح حیران ہوں جس طرح حکومتی معاشی پالیسیوں پر۔ راقم کو وزیر اعظم کی نیت پر کوئی شک نہیں( ویسے شک کرنا بُری بات بھی ہے) ، لیکن مجھے اس بات کا یقین ضرورہوچکا ہے کہ وزیر اعظم کو بہت بڑی غلط فہمی میں ” سب ٹھیک ” کا ٹیکا لگایا جا چکا ہے۔ وزیر اعظم کی محنت و نیت پر عمومی طور پر عوام تھوڑا بہت اعتماد کرتے ہیں لیکن اب صورتحال تیزی سے بدل رہی ہے۔ بیشتر کابینہ ، قومی و صوبائی اراکین کی مثال سربیائی پرندوں کی طرح ہے جو موسم بدلتے ہی اڑان بھر لیتے ہیں۔ راقم کا ذاتی خیال تھا اورہے کہ کابینہ کے کچھ وزرا ئ( غالباََ تمام کابینہ) کی وجہ سے وزیر اعظم پر عوام کا اعتماد مجروح ہورہاہے ۔ اس موقع پر مجروح سلطان پوری کا ایک شعر یاد آیا ہے ، عرض کیا ہے کہ۔

جفا کے ذکر پہ تم کیوں سنبھل کے بیٹھ گئے
تمہاری بات نہیں بات ہے زمانے کی

Qadir Khan Yousafzai

Qadir Khan Yousafzai

تحریر : قادر خان یوسف زئی