تحریر : محمد اشفاق راجا نیوکلیئر سپلائرز گروپ کی رکنیت کے معاملے پر چین کے مضبوط موقف نے بھارت کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ چین کی حمایت حاصل کرنے کے لئے ”خفیہ سفارتکاری” کو کام میں لائے لیکن سوال یہ ہے کہ چین کے اصولی موقف کے سامنے یہ خفیہ سفارت کاری کوئی کرشمہ دکھا سکے گی؟ اور چین کا موقف اس سلسلے میں نرم ہو جائیگا؟ بھارت کے سیکرٹری خارجہ ایس جے شنکر نے 16 اور 17 جون کو چین کا دورہ کرکے جسے خفیہ رکھا گیا تھا، نیو کلیئر سپلائرز گروپ (این ایس جی) کی رکنیت کے مسئلے پر چین کی حمایت مانگی چین کا اس سلسلے میں واضح موقف ہے کہ اگر این پی ٹی پر دستخط نہ کرنے والے ملکوں کو بھی این ایس جی کا رکن بنانا ہے تو بھارت کے مقابلے میں پاکستان اس کا زیادہ مستحق ہے کیونکہ اس کی نیو کلیئر صلاحیت بھارت کے مقابلے میں اعلیٰ ترین ہے اور جب سے پاکستان نے اس میدان میں قدم رکھا ہے کوئی معمولی سے معمولی حادثہ بھی اس شعبے میں رونما نہیں ہوا جو پاکستانی سائنسدانوں کی مہارت اور اہلیت کا ثبوت ہے۔
پھر پاکستان فزکس کے عالمی باوقار ادارے سرن کا رکن ہے جس میں پاکستان کی اس شعبے میں مہارت کو ”سٹیٹ آف دی آرٹ” تسلیم کیا گیا ہے۔ دنیا بھر کے 22 ملک اس ادارے کے رکن ہیں، بھارت نے کوشش کی تھی لیکن اسے اس کی رکنیت نہیں ملی۔ فزکس موجودہ دور کی جوہری صلاحیت کی بنیاد ہے اس حوالے سے چین کا موقف مبنی برحق ہے۔ چین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر بھارت کو رکن بنانا ہے تو پھر پاکستان کو بھی رکن بنانا ضروری ہے۔ بھارت اگرچہ پاکستان کی رکنیت کی مخالفت کرتا رہا ہے لیکن چین کی حمایت حاصل کرنے کیلئے اسے یہ تک کہنا پڑا کہ اگر نیو کلیئر سپلائرز گروپ پاکستان کو بھی رکن بنانا ہے تو بھارت کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔
اگر بھارتی سیکرٹری خارجہ نے واقعی یہ موقف اختیار کرلیا ہے تو پھر یہ سمجھنا چاہئے کہ بھارت کو یہ احساس ہوچکا ہے کہ پاکستان کی مخالفت کرکے یا اس کی رکنیت کو نظر انداز کرکے بھارت کا رکن بننا ممکن نہیں ہوگا، اسی لئے اس نے اپنے موقف میں نرمی کی ہے۔ 24 جون کو جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیول میں نیو کلیئر سپلائرز گروپ کا اجلاس ہو رہا ہے۔ بھارت چاہتا ہے کہ اس میں اسے رکنیت مل جائے اگر ایسا نہ ہوسکا تو نریندر مودی کی ساری دوڑ دھوپ اکارت جائے گی۔ اس سلسلے میں چین کی حمایت بڑی اہمیت رکھتی ہے جس کے بغیر بھارت رکنیت کا تصور نہیں کرسکتا۔ اگرچہ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کو یقین ہے کہ بھارت چین کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیگا۔
Sushma Swaraj
سوراج نے سفارتی زبان کا سہارا لیتے ہوئے کہا کہ چین گروپ میں بھارتی شمولیت کی مخالفت نہیں کر رہا بلکہ اس نے شمولیت کے طریق کار اور معیار پر اعتراضات اٹھائے ہیں۔ یہ اعتراضات یہی ہیں کہ اگر ایک ملک این پی ٹی پر دستخط کئے بغیر (بھارت) این ایس جی کا رکن بن سکتا ہے تو دوسرا (پاکستان) کیوں نہیں بن سکتا؟ تاہم سوراج نے واضح کیا کہ بھارت این ایس جی میں پاکستان یا کسی دوسرے ملک کی شمولیت کی مخالفت نہیں کرے گا۔ البتہ یہ کہا کہ ”تمام درخواستوں پر فیصلہ میرٹ کی بنیاد پر کیا جائے”۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ آخر کون سا میرٹ ہے جس پر بھارت تو پورا اترتا ہے لیکن پاکستان نہیں اترتا؟ پاکستان کی نیو کلیئر ٹیکنالوجی کا میرٹ یہ ہے کہ یہ بھارت سے بہت اعلیٰ اور معیاری ہے۔ سشما سوراج کا خیال ہے کہ بھارت چین کو بھی منانے میں کامیابی حاصل کرلے گا۔
بی این پی کے مطابق پاکستان اور بھارت ماہ رواں میں شنگھائی تعاون کونسل کے پورے رکن بننے والے ہیں۔ تاشقند کے اجلاس میں دونوں ملکوں کو رکنیت حاصل ہو جائے گی۔ اس سے پہلے انہیں مبصر کا درجہ حاصل تھا، یہ پاکستان کے لئے بڑی کامیابی ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم میں دو بڑی طاقتیں چین اور روس شامل ہیں، پاکستان کو رکنیت حاصل ہونا اس کی کامیاب خارجہ پالیسی پر دلالت کرتا ہے۔ بھارت کو اس معاملے میں کوئی ترجیح حاصل نہیں ہوئی۔دونوں ملکوں کو بیک وقت رکنیت ملنے کا مطلب بھی یہی ہے کہ عالمی طاقتیں علاقائی امن، تعاون اور ترقی میں پاکستان کے کردار کی قائل ہیں ورنہ اگر بھارت کو ترجیح دی جاتی تو اسے پہلے رکنیت بھی دی جاسکتی تھی۔ این ایس جی کی رکنیت کے مسئلے پر بھی اگر یہی رویہ اپنایا جائے تو اس کا اچھا نتیجہ نکلے گا، پاکستان کو رکنیت ملنے سے بھارتی شمولیت کی راہ بھی ہموار ہوگی۔
بصورت دیگر بھارت کو چین کی حمایت حاصل نہیں ہوسکے گی، جس نے اس ضمن میں اصولی مگر مضبوط موقف اختیار کیا ہے۔ بھارت کی جانب سے نیو کلیئر سپلائرز گروپ کی رکنیت حاصل کرنے کے لئے یہ آخری کوشش ہے جو چین کے ساتھ کی جا رہی ہے۔ اگر بھارت اس میں ناکام رہا تو پھر اسے رکنیت رواں سال نہیں مل سکے گی۔ البتہ اگر وہ صِدق دلی سے پاکستان کی رکنیت کی مخالفت ترک کر دے تو اس کا امکان پیدا ہوسکتا ہے۔ گروپ کے رکن ملکوں کی تعداد 48 ہے جن میں سے 23 کے ساتھ بھارت رابطے میں ہے۔ پاکستان نے بھی رکن ملکوں کے ساتھ کامیاب رابطے کئے ہیں، جس کی وجہ سے بھارت کو چین کے ساتھ خفیہ ڈپلومیسی کا سہارا لینا پڑا۔