تحریر : رانا ظفر اقبال ظفر کسی بھی ریاست میں رہتے ہوئے باشندگان کو ۔تعلیم صحت اور خوراک مہیا کرنا ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے ۔ریاست اگر اسلامی ہو تو اسکی ذمہ داری میں وہ رعایا بھی آئیگی جو غیر مسلم ہوں ۔اسلام اللہ اور اس کے حبیبۖ کا پسندیدہ ترین مذہب ہے ۔اسکی تعلیمات مکمل طور پر انسانیت سے پیار کا سبق دیتی ہیں ۔اللہ کی مخلوق سے پیار کا معیار اس قرآنی حکم سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ،،،جس نے ایک انسان کی جان بچائی گویا اس نے پوری انسانیت کو بچا لیا اور جس نے ایک انسان کو قتل کیا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا۔جس سے متاثر ہو کر گذشتہ دنوں اسلام کے بہت بڑے دشمن نریندر مودی بھی ان الفاظوں میں تعریف کیے بغیر نہ رہ سکے۔ اسلامی ریاست میں اقتدار کا تصور ایسے ہے کہ کوئی بندہ مومن اس ذمہ داری کو اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہوتا ۔کیونکہ اسلام بندوں پر حکمرانی کا جو طریقہ بتاتا ہے اس کے مطابق قوم کا حکمران قوم کا خادم ہوتا ہے۔
وطن عزیز پاکستان جس کے حصول کے وقت جب پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الااللہ نعرہ لگایا گیا تو دین متین سے محبت کی خاطر مسلمانوں نے (ہمارے اسلاف جو حقیقی مسلمان تھے) اپنا تن من دھن سب قربان کردیا ۔کتنی سہاگنیں بیوہ ہوئیں ۔کتنے بچے یتیم ہوئے۔کتنی گودیں اجڑیں اور کتی عصمتیں لٹیں اسکا اندازہ کسی ایسے بوڑھے سے گفتگو کرکے کیا جاسکتا ہے جو اسوقت ہجرت کرکے آیا ہو ۔اس قوم کی بد قسمتی کہیں یا شامت اعمال کہ اس ملک کی باگ ڈور شروع سے ہی ایک ایسے طبقہ کے ہاتھ آگئی جو اسلامی تعلیمات سے عاری تھا اور وہی طبقہ کسی نہ کسی شکل میں آج تک اس ملک پر قابض ہے۔
اسلام کے طرز حکمرانی کے بجائے اپنے ہی قانون بنا ڈالے رعایا کی بھلائی کے بجائے اپنی اپنی دولت کمانے کے نت نئے طریقے ایجاد کرکے غریب اور پسے ہوئے طبقہ کو سنبھالنے کے بجائے اسے لوٹنے کا عمل تسلسل سے جاری رکھا ۔اس کے ردعمل میں یہ طبقہ ریاست کے سود مند شہری بننے کے بجائے اپنی روٹی کے حصول کے لیے ہر جائز ناجائز عمل کرتا گیا۔سیاسی پارٹیوں نے باری باندھ کر صرف ملک و قوم کو ہی نہیں لوٹا بلکہ اقوام عالم میں پاکستان کا نام اور وقار کو بھی ٹھیس پہنچائی بعض جماعتوں نے اقتدار کے لیے اپنوں کی ہی لاشیں گرا کر امن کو تباہ کر کے پاکستان کو بدنام کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اور یوں اقوام عالم میں اسلام کا اصلی تشخص مسخ ہو نے لگا۔
Muslims
مسلمان کو دہشت گرد ظالم اور جانے کیا کیا نام ملے ان سب باتوں کو جانتے ہوے بھی ہمارا مقتدر طبقہ اس طرف متوجہ ہی نہ ہوا ۔اسلام جس طرز حکمرانی کا سبق دیتا ہے اس کا اندازہ اللہ کے پیغمبر موسیٰ علیہ السلام کے اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ بکریاں چراتے ہوے اپنے ریوڑ کی ایک بکری کو دیکھتے ہیں جو گلہ سے کافی پیچھے رہ جاتی ہے آپ واپس آکر اسے لٹا کر اسکے پائوں دباتے ہوئے اللہ سے اسکی طاقت کی بحالی کی دعا کرتے ہیں ۔اسوقت اللہ نے فرشتوں سے کہا کہ یہی آدم ہے نہ تم جس کی مخالفت کرتے تھے اب بتائو کہ میرا یہ بندہ دوسرے بندوں پر حکمرانی کے قابل ہے؟
ہمارے حکمران طبقہ نے تو عوامی خدمت کا جو انداز اپنایا اس سے عوام کا وہ گروہ ہی مستفیذ ہو رہا ہے جو کسی نہ کسی طرح حکمران طبقہ کا عزیز ہے ۔مثال کے طور پر حکومت کا حالیہ این ٹی ایس ٹیسٹ کا طریقہ ہی لے لیں ۔جتنی آسامیاں مشتہر ہوں سب کے لیے الگ الگ فیس ۔ایک شخصیت نوازا گیا ۔ہر آسامی کے ٹیسٹ کی تیاری کے لیے الگ الگ گائیڈ دوسری شخصیت نوازا گیا ۔پھر یہ ٹیسٹ پاس کرکے متعلقہ محکمہ کے ضلعی آفیسر کی نگرانی میں ایک کمیٹی جس میں علاقہ کے ایم این ایز۔ایم پی ایز کی سفارشیں ۔اور آخر میں سب آسامیاں جناب قائد کی تصویروں کی سفارش سے پر ہونگی ۔جن امیدواروں نے ان آسامیوں کے لیے ٹیسٹ دیا وہ اگر دوبارہ کہیں درخواست دیں تو پھر این ٹی ایس ٹیسٹ دینا ہوگا۔
چھوٹے بھائی لاہور یونیورسٹی میں لا کے سٹوڈینٹ چوہدری رضا اشرف واہگرہ نے مجھے فون کر کے اس وقت مجھے ہلا کر رکھ دیا جب اس نے این ٹی ایس کے حوالے سے بحث چھیڑی اور پھر سوالات پہ سولات کرتے ہوئے مجھ سے جواب ملنے کی امید پر کہتا چلا گیا کہ بھائی جان کتنی تعجب کی بات ہے کہ اس ملک میں 9 ویں سکیل کی ایک ملازمت کے لیے تو این ٹی ایس ٹیسٹ ۔انٹرویو۔لازمی ہے چاہے دس بار بھی دینا پڑے مگر وزیراعظم بننے کے لیے صرف دولت درکار ہے ۔جس کے پاس ہے وہ آئے لگائے اور چند ہی دنوں میں سو گنا کرلے گا۔پاکستان کی تقدیر لکھنے ،قوانین بنانے ،پالیسیاں مرتب کرنے،کرنے والون کے لیے پاکستان میں کسی انٹری ٹسٹ ،تعلیمی قابلیت،کی کوئی ضرورت نہ سمجھی گئی ہے صرف علاقے میں بدمعاشی ،غنڈہ گردی،عوام کو بے وقوف بنانے کا ہنر،لارے لگانے میں مہارت رکھتا ہو اور دولت کہیں سے بھی آئے صرف الیکشن میں کامیابی حاصل کر لے پاکستانی قوم کے نصیب سے کھیلنے کا لائسنس جاری کر دیا جاتا ہے۔
Education
ماضی میں مڈل،میٹرک پاس وزیر اعلی اور انگوٹھا چھاپ وزرا کی فوج پاکستانی حکومتوں کا ہی کارنامہ رہی ہیں اس کے لیے کسی میرٹ ۔ٹیسٹ یا قانون کو جاننا لازمی نہیں۔ جس طرح،ڈاکٹر کے لیے چار سالہ میڈیکل کلاس، وکیل کے لیے بی اے ،اور چارسالہ ڈپلومہ ضروری ہے،ایف ایس سی،بی ایس سی،ایم ایس سی،سمیت دیگر تعلیم یافتہ نوجوان جب اچھے نمبر لیکر پوزیشنیں حاصل کر لیتے ہیں تو این ٹی ایس ٹسٹ کیوں لازمی قرار دیا گیا ہے کیا کہ اسکی تعلیمی قابلیت پر کوئی شک ہوتا ہے یا پھر اسکی عمر بھر کی تعلیم اور مستقبل کے سامنے این ٹی ایس فل سٹاپ لگا کر ایک مخصوص طبقہ کو آگے بڑھنے اور قابلیت دکھانے سے روکنے کی سازش ہے یا پھر اپنے اپنوں کو نوازنے کے لیے نوجوانوں کے مستقبل سے کھیلنے کی کوششوں میں مصروف ہیں ۔کیوں نہ سیاست میں داخلہ کے لیے بھی این ٹی ایس لازمی قرار دیا جائے۔
ہر سیٹ کے لیے آئین پاکستان ،قرآن پاک کے احکام اور بین الاقوامی قوانین سے تحریری امتحان ہو ۔پھر جو امیدوار کامیاب ہو صرف اور صرف سیٹوں کے تناسب سے ان کو نمائندگی دی جائے ۔اسی طرح صحافت کے میدان میں بھی علاقائی رپورٹنگ کے لیے کم ازکم میٹرک تعلیم ،خبر بنانے کا فن،اور نمائندگی حاصل کرنے سے قبل ایک ٹسٹ لازمی قرار دیا جائے جسمیں کم از کم رپورٹنگ کا فن جاننے والے افراد کو صحافتی کارڈ جاری کیا جائے۔
اگر ایسا ہو جائے تو امید ہے کہ سیاست کے میدان سے بھی اسی فیصد ملک و قوم کی تقدیر سے کھیلنے والے دوڑ لگا جائیں گے اور تعلیم یافتہ قیادت آنے کے چانس پیدا ہو گئے جو کم از کم قوانین بنانے،پالیسیاں ترتیب دینے میں مہارت اور عالمی حالات سے با خبر رہ کر ملک و ملت کی خدمت کر سکیں گے صحافت کے میدان سے بھی نوے فیصد موٹر سائیکل پر پریس لکھوانے،تھانوں میں خبر کا رعب جھاڑ کر ناجائز قائم لینے،دولت کے بل بوتے صحافت جیسے مقدس پیشہ میں قلم کی حرمت سے کھیلنے والوں سے نجات مل جائے گی اور ٹکر رپورٹر بھی کوئی محنت مزدوری کر کے اپنا گھر چلانے کی سوچیں گے۔
Pakistan
کیونکہ جب تک دونوں میں تعلیم یافتہ افراد نہیں آئیں گے اس وقت تک پاکستان کا ہر ادارہ،امن،نام،اور استحکام خطرے میں رہے گا میں بڑے غور سے چھوٹے بھائی چوہدری رضا اشرف واہگرہ کی گفتگو سن رہا تھا اور اسکے کڑوے سچ کو ہضم کرنے کی کوشش کر رہا تھا کیونکہ یہ ایک ایسا کڑوا سچ تھا جسکا جواب میرے پاس نہیں تھا ایک طبقہ ملک کو چلانے والا تھا تو دوسرا ملک و قوم کی آنکھ،کان،زبان تھا اور دونوں میں ان پڑھوں کی فوج دندناتی پھر رہی تھی۔ جنکے ذاتی مفادات پاکستان کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہے تھے۔
ہاں یہ سچ تھا کہ اعلی تعلیم یافتہ،اول پوزیشن حاصل کرنے والے سٹوڈینٹس کے لیے این ٹی ایس کی شرط ضروری نہیں تھی ان کے لیے ضروری ہے تعلیم یافتہ نوجوان تو اپنا تعلیمی قابلیت کا لوہا منوا کر ہی ڈگری لیتے ہیں۔ این ٹی ایس تو ان کے لیے ضروری ہے جو دولت کے زور پر ملک و قوم کو بے دردی سے لوٹ رہے ہیں۔میری طرح اس سوال کا جواب کسی کے پاس بھی نہیں ہو گا اور نہ ہی ان پڑھوں کا ٹولہ ہمیں اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کا موقع دے گا۔
آپ ہی بتائیں میں اسے کیا بولوں؟؟مگر یہ طے ہے کہ منظوراحمد فریدی ،تو تعلیم یافتہ کی زبان بولتا رہے گا اور رضا اشرف چوہدری دانشوروں کے لیے سوال چھوڑتا رہے گا۔