واشنگٹن (جیوڈیسک) ایران نے جوہری توانائی سے چلنے والے بحری جہازوں کا بیڑا تیار کرنے کے لیے ایٹمی توانائی کے بین الاقوامی ادارے (آئی اے اِی اے) سے مشورہ مانگا ہے اور مدد کے لیے کہا ہے۔
یہ درخواست ‘آئی اے اِی اے’ کے ڈائریکٹر جنرل، یکیو امانو کے دورہ تہران کے موقع پر سامنے آئی، جس دورے کا مقصد تاریخی جوہری سمجھوتے پر ایران کی جانب سے عمل درآمد کی جانچ پڑتال کرنا ہے، جس کے تحت بین الاقوامی تعزیرات اٹھائے جانے کے بدلے، جوہری ہتھیار میں کمی لانا تھا۔
صدر حسن روحانی نے امانو کو بتایا کہ اُنھیں توقع ہے کہ ایران اور جوہری توانائی کا عالمی ادارہ ”مال برداری کے لیے جوہری توانائی سے چلنے والے بحری جہازوں کی تیاری کے معاملے پر بہتر تینیکی تعاون کر سکتے ہیں”۔
گذشتہ ہفتے ایران نے جوہری جنبش کے نظام سے چلنے والے بحری جہاز تیار کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا تھا، جو بظاہر امریکی کانگریس کی جانب سے کیے گئے اقدام کا جواب تھا۔ کانگریس نے اس بات کی منظوری دی ہے کہ اگر ایران جوہری سمجھوتا ختم کرتا ہے تو اُس کے خلاف نئی تعزیرات عائد کرنے کی اجازت دی جائے گی۔
ہر فریق اس بات پر زور دیتا ہے کہ اُس کا اقدام سمجھوتے کی خلاف ورزی کا باعث نہیں ہے۔ تاہم، ایران کی جانب سے تجویز کردہ ‘نیوکلیئر پروپلشن سسٹم’ کے لیے یورینئم کی انتہائی افزودگی درکار ہوگی، جو معاملہ سمجھوتے کے تحت اجازت دی گئی حدود سے تجاوز کے مترادف ہو سکتا ہے۔
اتوار کے روز ایک عام بیان میں امانو نے معاہدے کی تمام شرائط پر مکمل عمل درآمد کی اہمیت اجاگر کی، جسے ‘جوائنٹ کمپریہنسو پلان آف ایکلشن’ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
اُسی اخباری کانفرنس میں، ایران کے ایٹمی جوہری ادارے کے سربراہ، علی اکبر صالحی نے کہا ہے کہ توانائی کا عالمی ادارہ کسی ایک فریق کے زیر اثر نہیں ہونا چاہیئے۔
ایرانی خبر رساں ادارے، ارنا نے امانو کے حوالے سے بتایا ہے کہ ایران نے ‘جوائنٹ کمپریہنسو پلان آف ایکلشن’ کی تمام شرائط پوری کی ہیں۔