تحریر : میر افسر امان پانچ ایٹمی ہتھیار رکھنے والے ملک کسی اور ملک کو ایٹمی ہتھیار بنانے کی کوشش کو مانیٹر کرتے رہتے ہیں تاکہ ایٹمی قوت ان ہی تک محدود رہے۔ ان ٥ ایٹمی ممالک نے باقی ملکوں کو ملا کر نیو کلیئر سپلالیئر گروپ کے نام سے ٤٨ ملکوں کا ایک نیو کلیئر سپلالیئر گروپ بنایا ہے جن کے پاس کچھ نہ کچھ ایٹمی ٹیکنالوجی اور اس میں کام آنے والے آلات یا پرزے موجود ہیںجو پرامن ایٹمی ضروریات کے ساتھ ساتھ ایٹمی ہتھیار بنانے میں بھی کام آسکتے ہیں۔ یہ تمام ممالک نہیں چاہتے کہ ایٹمی ٹیکنالوجی یا آلات کی دوسرے ملکوں تک رسائی ہو۔کیونکہ اس ٹیکنالوجی اور آلات سے مذید ملک ایٹمی ہتھیار بنانے کی دوڑ میں شامل ہو جائیں گے یا جو پہلے سے ایٹمی ہتھیار رکھتے ہیں وہ مذید ایٹمی ہتھیار بنانے میں کامیاب نہ ہو جائیں۔ قصہ کچھ اس طرح ہے کہ جب بھارت نے ١٩٧٤ء میں ایٹمی دھماکے کیے تھے تو کچھ ملکوں کے کان کھڑے ہوئے تھے کہ لو جی ٥ ایٹمی قوتوں سے بات آگے بڑھ گئی ہے اور اب ایک اور ملک نے اعلانیہ ایٹمی ہتھیار بنا لیے ہیں۔ ایک طرف تو دنیا میں٥ ایٹمی ملکوں برطانیہ، امریکا،فرانس،روس اور چین کی اجاراداری تھی اور وہ کسی طرح بھی کسی اور ملک کو ایٹمی ہتھیاروں سے مسلح نہیں دیکھنا چاہتے ہیں۔ گو کہ اسرائیل،شمالی افریقہ اور شمالی ویٹ نام کے پاس ایٹمی ہتھیار موجود ہیں مگر ان ملکوں نے اعلانیہ ایٹمی دھماکے نہیں کیے ہیں۔ ہاں پاکستان کے ازلی دشمن بھارت نے جب ١٩٧٤ء میں ایٹمی دھماکے کیے تھے اور بھارت پاکستان کو ڈرانے دھمکانے لگا تھا اور اس سے قبل ١٩٧١ء میں پاکستان کے دو ٹکڑے کر چکا تھا تو پاکستان نے اپنی سلامتی کے لیے ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کرنے کا ارادہ کیا۔
مرحوم ذوالفقار اعلی بھٹو نے ہالینڈ سے ڈاکٹر قدیر خان کو پاکستان بلا کر ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کرنے پر لگایا تھا۔جس نے کوشش کر کے بھارت کے پانچ ایٹمی دھماکوں کے مقابلے میں ١٩٩٨ء میں چاغی کے پہاڑوں میں سات ایٹمی دھماکے کر پاکستان کو اعلانیہ ایٹمی قوت بنا دیا تھا۔اس کے ساتھ ساتھ وہ ممالک جن کے پا س کچھ نہ کچھ ایٹمی ٹیکنالوجی ہے مگر انہوں نے ایٹمی اہتھیار نہیں بنائے، یہ ممالک ایٹمی ٹیکنالوجی صرف پر امن مقصد میں استعمال کرنے کے حق میں ہیں۔ ان مقاصد کے لیے ١٩٧٥ء میں بھارت کے دھماکوں کے بعد ٧ ممالک کی میٹینگ ہوئی تھی جس میں ایٹمی ٹیکنالوجی اور آلات کی فروخت اور ایکپورٹ پر کنٹرول کرنے کی تدبیر کی گئی تھی۔ان ممالک میں کینیڈا،مغربی جرمنی،جاپان،فرانس،سویت یونین، برطانیہ اور امریکا شامل تھے۔پھر١٩٧٧ئ١٩٧٦ء میں مذید آٹھ(٨) ممالک شریک ہو کر پندرہ (١٥) ممالک ہو گئے۔١٩٩٣ء میں بارہ(١٢) اور ملک شریک ہو گئے۔٢٠١٤ء میں چین بھی نیو کلیئر سپلایئر گروپ میں شامل ہو گیا۔ پھر٢٠١٦ء میں نیو کلیئر سپلائر گروپ میں شریک ممالک کی کل تعداد ٤٨ ہو گئی ہے جس میں صرف دو اسلامی ملک ترکی اور سویت یونین سے آزادی حاصل کرنے والا ملک قازقستان شامل ہے۔
٢٠١٦ء ۔٢٠١٥ء میں نیو کلیئر سپلایئر گروپ کا چیئر مین ارجنٹینا تھا۔نیو کلیئر سپلایئر گروپ کے معاہدے کی شق کے مطابق جب تک سارے کے سارے ملک کسی نئے ملک کو شامل کرنے پر اتفاق نہ کر لیں اُس وقت تک کوئی بھی ملک اس گروپ میں شامل نہیں ہو سکتا۔پاکستان کا ازلی دشمن اس گروپ میں شامل ہونے کی کوششیں کرتا رہا ہے مگر پاکستان کے دوست ملک چین نے اُسے ویٹو کر دیا۔امریکا کے سابق صدراوبامانے٢٠١٠ء میں بھارت کو اس گروپ میں شامل کرنے کا اعلان کیا تھا۔اسی سال فرانس کے صدر ڈکوزی نے بھی بھارت کو اس گروپ میں شامل کرنے کی حمایت کا کہا تھا۔برطانیہ تو کافی عرصہ پہلے سے بھارت کو اس گروپ میں شامل کرنے کی خواہش رکھتا تھا۔٢٠١٥ء بھارت کے یوم جموریہ کے موقعہ پر اوباما نے بھارت کے دورے کے دوران اپنے اس ارادے کہ بھارت کو گروپ میں شامل کیا جائے کا اعلان کیا تھا۔ روس کے صدر ولادی میر پوٹن نے بھی حمایت کر دی۔٢٢ جون٢٠١٦ء میں میکسیکو نے ٤٨ ممبرز ملکوں کی میٹینگ میں بھارت کو اس گروپ میں شامل کرنے اور اس کوایٹمی ٹیکنالوجی اور آلات فروخت کرنے کی حمایت کی اور کہا کہ ٤٨ ملکوں کو بھی بھارت کی حمایت کرنی چاہیے۔ مگر چین نے اس کی مخالفت کی جس کی وجہ سے بھارت اس گروپ میں شامل نہیں ہو سکا۔اسی دوران ١٩ مئی ٢٠١٦ء کو اسلامی جمہوریہ پاکستان نے نیو کلیئر سپلایئر گروپ میں شامل ہونے کی درخواست دی۔ صر ف چین،ترکی، بیلا روس اور قازقستان نے پاکستان کی اس گروپ میں شامل ہونے کی درخواست کو منظور کرنے کی حمایت کی۔کسی بھی اور ملک نے مسلمانوں سے تعصب کی وجہ اس کی حمایت نہیں کی۔ جب کہ بھارت کو شامل کرنے کے لیے سارے کے سارے ملک ہر وقت تیار رہتے ہیں۔
Pakistan
یہ متعصب ملک اس کا جواز پیش کرتے ہیں کہ پاکستان نے ایران ،لیبیا اور شمالی کوریاکو ایٹمی ٹیکنالوجی ایکسپورٹ کی تھی۔اس میں سارا کا سار ا قصور پاکستان کے دشمن سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف کا ہے جو اس نے اپنے دور حکومت میں اپنے آقا امریکا کے کہنے پر پاکستان کو ایٹمی ٹیکنالوجی سے روشناس کرنے والے پاکستان کے محسن ڈاکٹر قدیر خان کا ذبردستی لیا جانے والا الیکٹرونک انٹرویو ہے۔ اس ہی کی بنیاد پر یہ ممالک پاکستان پر الزام لگاتے رہتے ہیں۔صاحبو! اگر دیکھا جائے تو دنیا میں کون سا ایسا ملک ہے کہ جس نے ایٹمی ٹیکنالوجی کو ایکپورٹ نہیں کی۔ کیا ساری کی ساری ایٹمی ٹیکنالوجی تمام ملکوں کی اپنی ہے۔ نہیں ہر گز نہیں کسی نہ کسی ملک نے کسی دوسرے ملک سے ایٹمی ٹیکنالوجی چوری کر کے اپنا ایٹمی پروگرام پایا تکمیل تک پہنچایا ہے۔ اس کی کئی ثالیں دنیا میں موجود ہیں۔ اس لیے صرف اور صرف پاکستان پر ایٹمی ٹیکنالوجی ایکسپورٹ کرنے کا الزام کسی طرح بھی درست نہیں۔ پاکستان اور بھارت جو ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہو چکے ہیں دونوں نے نیو کلیئر نان پرولیفرٹریشن ٹریٹی(این پی ٹی) پر ابھی تک دستخط نہیں کیے ہیں۔ امریکا جو پاکستان بننے کے بعد سے پاکستان سے دوستی کا دم بھرتا ہے۔پاکستان کو نان ناٹو اتحادی بنایا ہوا ہے۔ دہشت گردی کو روکنے کے لیے پاکستان فرنٹ لین ملک کا کام کرتا رہا ہے۔ امریکا نے افغانستان پر حملہ کرنے کے لیے پاکستان کے بحری بری اور فضائی راستے استعمال کیے۔ ناٹو سپلائی پاکستان کے راستے سے جاری رہی۔
امریکی اتحادی ہونے کی وجہ سے طالبان نے پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ۔ امریکا کی دہشت گردی کی جنگ میںپاکستان کے کئی فوجی اور سولین شہید ہوئے۔ دنیا میں سب سے زیادہ پاکستان کا نقصان ہوا۔ ان قربانیوں کا پاکستان کو امریکا نے یہ بدلہ دیا کہ اس کے ازلی دشمن بھارت سے اپنے قوانین میں خصوصی تبدیلی کر کے بھارت کے ساتھ ایٹمی معاہدہ کر لیا ہے اور اسے نیو کلیئر سپلایئر گروپ میں شامل کرنے کے لیے بھی بے چین ہے۔ دنیا کے کئی ملکوں نے خصوصی قانون بنانے کے عمل کی مخالفت بھی کی تھی۔ امریکا کادوست اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے فرنٹ لین ملک ہونے کی وجہ سے اس کا زیادہ حق دار پاکستان ہے مگر امریکا نے بھارت کو پاکستان کے معاملے میں ترجیی دی۔
پاکستان اس کا نان نیٹو اتحادی رہاہے ۔ اس کی ایک فون کال پر ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے اپنی پڑوسی مسلمان ملک پر حملے لے لیے بحری،بری اور فضائی راستے دے دیے تھے۔ پاکستان اس کی سزا آج تک بھگت رہا ہے۔ امریکا اور دنیا کے ملک پاکستان سے تعصب بھرت کر بھارت کو نیو کلیئر سپلایئر گرپ میں شامل کرنے کی تدبیریں کر رہے ہیں جوسراسر نا انصافی ہے۔ شامل کرنا ہے تو پھر دونوں ملکوں کو شامل کیا جائے۔ نیوکلیئر سپلالیئر گروپ کو پاکستان سے امتیازی سلوک نہیں کرنا چاہیے۔