اسلام آباد (جیوڈیسک) نیو کلیئر سپلائرزگروپ (این ایس جی)کاغیرمعمولی اجلاس آج سے جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیؤل میں شروع ہورہا ہے جس میں پاکستان اوربھارت کو رکنیت دینے پرغورکیاجائے گا۔
پاکستان نے 48 ممالک پرمشتمل این ایس جی کا ممبربننے کے لیے درخواست19مئی جبکہ بھارت نے 12مئی 2016 کوجمع کرائی تھی۔ جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیئول میں ایک ہفتہ تک جاری رہنے والے اجلاس میں گروپ پاکستان اور بھارت کو رکنیت دینے پرغور اختیارکرے گا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان پرامن جوہری ٹیکنالوجی تک رسائی کے لیے غیرامتیازی اورقواعدپرمبنی نظام چاہتاہے جواس کی سماجی، اقتصادی ترقی اورٹیکنالوجیکل ڈیولپمنٹ کیلیے ضروری ہے۔ نیوکلیئر سپلائرز گروپ کی رکنیت کے لیے پاکستان مسلسل گروپ کے ساتھ مصروف عمل ہے۔ اسلام آباد میں قائم بین الاقوامی اسٹرٹیجک اسٹڈیزانسٹی ٹیوٹ کے ایگزیکٹوڈائریکٹرعلی سرورنقوی نے کہاکہ پاکستان کااین ایس جی کی رکنیت کاکیس بہت مضبوط ہے اوراس نے تمام ریکوائرمنٹس پوری کی ہیں، عوام پرامیدہیں کہ رکنیت کے معاملے میں بلاامتیازفیصلہ کیاجائے گا۔ امریکانے غیرمعمولی اقدام کرتے ہوئے اپنے داخلی قوانین اورایٹمی عدم پھیلاؤکی اقدارکے باوجود بھارت کوخصوصی تجارتی چھوٹ دی حالانکہ یہ قوانین اس قسم کی رعایت یاچھوٹ کے متحمل نہیں۔
چیئرمین اسٹریٹجک ویژن انسٹی ٹیوٹ ڈاکٹرظفراقبال چیمہ نے کہاکہ سول نیوکلیئر پاور جنریشن پاکستان کے قومی توانائی سیکیورٹی پلان کالازمی جزوہے اور یہ مقصد پاکستان کی این ایس جی میںرکنیت سے باآسانی حاصل کیاجاسکتاہے۔ مبصرین کاکہناہے کہ بھارت کے8ایٹمی ری ایکٹرزسیفٹی کے لحاظ سے عالمی معیار پر پورا نہیں اترتے اور اس کاایٹمی پروگرام دنیامیں سب سے زیادہ غیرمحفوظ ہے۔ واضح رہےکہ پاکستان ایک ذمہ دار ملک کے طور پر بڑے پیمانے پرتباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی روک تھام اورکنٹرول کے لیے عالمی کوششوں میں شرکت اور تعاون کررہاہے۔ نیوکلیئرسپلائرزگروپ کو مساویانہ اور غیرامتیازی رویہ اختیارکرناچاہیے کیونکہ کسی ایک نان این پی ٹی ملک کورکنیت دیناعلاقائی امن وسلامتی اور استحکام کے منافی ہو گا۔ بھارت اورپاکستان کی طرح اسرائیل اور جنوبی کوریا نے بھی این پی ٹی پردستخط نہیں کیے جبکہ شمالی کوریا اپنے پہلے جوہری تجربے کے انعقاد سے قبل 2006 میں این پی ٹی سے نکل گیا تھا۔