جرمنی (جیوڈیسک) جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے کہا ہے کہ مختلف ممالک کے پاس موجود جوہری ہتھیار عالمی امن کے لیے خطرہ ہیں۔ ماس نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے اپنے خطاب میں دنیا کو ہتھیاروں کی ایک نئی ممکنہ دوڑ کے خلاف خبردار بھی کیا۔
ہائیکو ماس کے مطابق اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ چین اور شمالی کوریا جیسی جوہری طاقتوں کے ساتھ مکالمت کے ذریعے ہتھیاروں کی ایک نئی ممکنہ دوڑ کا راستہ روکا جائے۔ وفاقی جرمن وزیر خارجہ نے یہ بات منگل دو اپریل کی شام اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایک اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہی۔ یہ دوسرا موقع تھا کہ جرمن وزیر خارجہ کے طور پر ہائیکو ماس عالمی سلامتی کونسل کے کسی اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔
انہوں نے سلامتی کونسل کے اس اجلاس میں رکن ممالک کے نمائندوں سے اپنے خطاب میں کہا، ’’دنیا کو اس وقت جوہری ہتھیاروں سے خطرہ ہے لیکن ان انتہائی ہلاکت خیز ہتھیاروں سے مکمل نجات ایک بہت مشکل موضوع بھی ہے۔‘‘
ماس نے اقوام متحدہ کے اس اعلیٰ ترین ادارے کے رکن ممالک سے کہا، ’’چونکہ یہ ایک بہت مشکل موضوع ہے، اسی لیے یہ لازمی ہے کہ عالمی سلامتی کونسل ہی اس مسئلے کا کوئی حل نکالے۔ ایک ایسا کام، جس کے لیے اس ادارے نے 2012ء سے کوئی کوشش کی ہی نہیں۔‘‘
اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ (سِپری) کے مطابق جوہری ہتھیاروں کی تعداد کے معاملے میں روس سب سے آگے ہے۔ سابق سوویت یونین نے اپنی طرف سے پہلی بار ایٹمی دھماکا سن 1949ء میں کیا تھا۔ سابق سوویت یونین کی جانشین ریاست روس کے پاس اس وقت آٹھ ہزار جوہری ہتھیار موجود ہیں۔
ہائیکو ماس کے الفاظ میں، ’’یہ ایک ایسا فریضہ ہے، جس کے لیے پہلے عالمی برادری کا اعتماد حاصل کیا جانا چاہیے کہ جوہری ہتھیاروں سے پاک دنیا کا حصول ایک بہت بڑا مقصد ہے۔‘‘ ساتھ ہی جرمن وزیر نے خبردار کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ اس وقت جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے ’کم کی بجائے زیادہ‘ کا جو رجحان دیکھنے میں آ رہا ہے، وہ بہت مہلک ہتھیاروں کی ایک نئی دوڑ کی وجہ بھی بن سکتا ہے۔
جرمن وزیر خارجہ نے عالمی سلامتی کونسل کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئےخاص طور پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف بھی اشارہ کیا۔ صدر ٹرمپ نے کچھ عرصہ قبل سابق سوویت یونین کے ساتھ سرد جنگ کے دور میں طے کیے گئے درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے جوہری ہتھیاروں سے متعلق معاہدے آئی این ایف (INF) سے امریکا کے یکطرفہ اخراج کا اعلان کر دیا تھا۔ اس معاہدے کا مقصد زمینی بیلسٹک میزائلوں کو محدود کرنا تھا۔
چھ اگست 1945ء کو امریکی جہاز Enola Gay نے ہیروشیما پر پہلا ایٹم بم گرایا تھا۔ اس بم کو’لٹل بوائے‘ کا بے ضرر سا نام دیا گیا تھا۔ اُس وقت اس شہر کی آبادی ساڑھے تین لاکھ تھی اور حملے کے فوری بعد ستر ہزار لوگ ہلاک ہو گئے تھے۔ چند دنوں کے دوران مرنے والوں کی تعداد دگنی ہو گئی تھی۔
ٹرمپ نے اپنے اس اعلان کی وجہ بیان کرتے ہوئے تب روس پر الزام لگایا تھا کہ وہ اس معاہدے کی خلاف ورزی کر رہا تھا۔ امریکا کے اس اقدام کے بعد روس نے بھی اپنے طور پر اس معاہدے پر عمل درآمد معطل کر دیا تھا۔ اس معاہدے کی مدت اس سال دو اگست کو پوری ہو جائے گی۔
ہائیکو ماس نے اس بات پر افسوس کا اظہار بھی کیا کہ اس روسی امریکی جوہری معاہدے کو شاید بچایا نہیں جا سکتا، تاہم انہوں نے سلامتی کونسل کے رکن پندرہ ممالک سے یہ مطالبہ بھی کیا کہ وہ چین اور شمالی کوریا جیسی دیگر ایٹمی طاقتوں کے ساتھ بہرحال مکالمت شروع کریں۔
ہائیکو ماس نے سلامتی کونسل کے جس اجلاس کی صدارت کی، اس کے لیے وہ خاص طور پر اس لیے نیو یارک گئے ہوئے ہیں کہ اس مہینے اقوام متحدہ کے اس اعلیٰ ترین فیصلہ ساز ادارے کی صدارت جرمنی ہی کے پاس ہے۔