جنیوا (اصل میڈیا ڈیسک) اقوام متحدہ کے اس معاہدے پر پچاس ممالک دستخط کر چکے ہیں اور نوے دنوں میں اس کی توثیق کی جائے گی۔ اس کا مقصد ایٹمی قوتوں پر دباؤ بڑھانا ہے۔
ہنڈوراس اس معاہدے پر دستخط کرنے والا پچاسواں ملک تھا۔ اس وسطی امریکی ملک نے جوہری ہتھیاروں کی ممانعت سے متعلق اقوام متحدہ کے اس معاہدے کی نہ صرف توثیق کی ہے بلکہ اس نے یہ بیڑا بھی اٹھایا ہے کہ کوئی دوسرا دستخظ کنندہ ملک کسی بھی حالت میں جوہری ہتھیاروں کی تیاری، خریداری، قبضہ یا ذخیرہ نہ کرے۔ ہنڈوراس کی حکومت کے دستخط کے ساتھ ہی ایک سنگ میل عبور کر لیا گیا ہے۔ اب یہ معاہدہ آئندہ برس بائیس جنوری سے نافذ العمل ہو جائے گا۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے کہا ہے کہ یہ دستاویز “جوہری ہتھیاروں کے مکمل خاتمے کے لیے ایک اہم عزم” کی نمائندگی کرتی ہے۔ انہوں نے ان تنظیموں کا بھی شکریہ ادا کیا ہے، جنہوں نے اس مسئلے کو مسلسل اجاگر کیا ہے۔ جوہری ہتھیاروں کی تخفیف کی مہم آئی کین ( آئی سی اے این) نامی اتحاد نے شروع کی تھی۔ اس اتحاد میں ایسی پانچ سو تنظیمیں اور ادارے شامل ہیں، جو دنیا بھر میں جوہری ہتھیاروں کے خلاف ہیں۔ اسی اتحاد کی ڈائریکٹر بیٹرس فہن کو سن دو ہزار سترہ میں امن کا نوبل انعام دیا گیا تھا۔ اس اتحاد کا کہنا ہے کہ اسی طرح ایٹمی ممالک پر دباو بڑھایا جا سکتا ہے۔ اب اس تحریک میں بینکوں اور سرمایہ کاروں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔
جنیوا میں ہنڈوراس کی طرف سے دستخط سے پہلے اس اتحاد کی ڈائریکٹر فہن کا کہنا تھا، ‘جوہری ہتھیار غیر اخلاقی ہیں، قانون کی خلاف ورزی ہیں اور ان پر پابندی عائد ہونی چاہیے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ”ایٹمی جنگ میں ہم کورونا وائرس کی طرح اعداد وشمار بہتر نہیں بنا سکتے، ‘ایک ایٹمی جنگ مکمل تباہی ہے۔ تب فلاحی تنظیمیں بھی مدد نہیں کر سکتیں۔‘
تاہم ابھی تک یہ معاہدہ ایک علامتی معاہدہ ہے۔ کیوں کہ جن ممالک نے اس پر دستخط کیے ہیں یا اس کی توثیق کی ہے، ان میں سے کسی کے پاس بھی ایٹمی ہتھیار نہیں ہیں۔ جوہری طاقتیں امریکا، روس، چین، برطانیہ، فرانس، پاکستان، بھارت، اسرائیل اور شمالی کوریا اس میں شامل نہیں ہیں۔
اسی طرح جرمنی اور نیٹو ممالک بھی اس میں شامل نہیں ہیں۔ کیوں کہ نیٹو ممالک کی اب بھی یہی پالیسی ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں کا خوف برقرار رکھا جائے۔