شیر شاہ سوری نے ساڑھے پانچ سو برس قبل زرعی اصلاحات کا کام شروع کرایا تھا۔جرنیلی سڑک تعمیر کرائی ، دوطرفہ سایہ دار اور پھلدار درخت لگوائے۔ سرائیں تعمیر کروائیں اور سب سے پہلے ڈاک کا نظام نافز کیا تھا۔ نمبر دار کو مغلیہ دور سے لیکر انگریز دور تک بہت سارے اختیار حاصل تھے۔1968کے لینڈ ریونیو ترمیمی قانون کے مطابق نمبردار کے عہدے کے لیئے اچھا کردار اور متعلقہ گاوں میں کم سے کم دو کنال اراضی کی ملکیت اس کی اہلیت سمجھی جاتی تھی۔یہ ذمہ داری تضویض کیئے جانے کے بعد نمبردار کو حکومت کی جانب سے دس سے بارہ ایکڑ سرکاری رقبہ بھی دیا جاتا تھا۔نمبردار کو گاوں کا سمجھ دارشخص سمجھا جاتا تھا۔گاوں کا کوئی معاملہ حل کرانا ہو یا کسی ادارے میں کام ہو تو نمبردار سے رابطہ کیا جاتا تھا۔گاوں کے کسی رہائشی نے کسی فارم کی تصدیق کروانی ہو وئہ بھی نمبردار ہی تصدیق کرتا تھا۔نمبردار اپنے علاقے کے کاشتکاروں سے سرکاری واجبات مالیہ اور لگان وغیرہ جمع کرکے سرکاری خزانے میں جمع کروانے کے پابند ہوتے تھے۔
قانون کے مطابق محصول سے 5 فیصد نمبردار کو ملتا تھا۔ نمبردار سرکار کا وئہ عوامی نمائندہ تھا جو اپنے علاقے میں ہونے والی جملہ سرگرمیوں کا نگران اور اعلی حکام کو رپورٹ کیا کرتا تھا۔قدرتی اور ناگہانی آفات کی صورت میں عوام اور سرکار کے درمیان رابطے میں نمبردار کا کردار بہت اہم تھا۔ نمبردار علاقے کی زمین کے وراثتی انتقال سے خرید و فروخت اور دیگر معاملات میں پٹواری،تحصیلدار اور ریونیو حکام کا معاون ہوتا تھا۔کسی زمین دار کی وفات کی صورت میں اس کی جائیداد کے انتقال کے لیئے پٹوار خانہ میں رپورٹ کرنا نمبردار کی ڈیوٹی میں شامل تھا۔ اپنے علاقے کے جرائم پیشہ افراد پر کڑی نظر رکھنا اور ان کی منفی سرگرمیوں کی اطلاع پولیس کو دینا بھی اس کے فرائض میں شامل تھا۔ پرانے نظام میں نمبرداروں کا کا م زمین کے معاملات کا جائزہ لینا اور زمین کی خرید و فروخت میں گواہ کی حیثیت میں شامل ہوناتھا۔
دیہات میں نمبردار اہم کردار، موثر آواز ، با اثر اور معزز شخصیت ہوتا تھا ۔نمبردار،پٹواری اورپولیس کے ایک پیج پر آنے سے عوامی مسائل بڑھے اور علاقے میں کمزور طبقے کے دکھو ں میں اضافہ ہوا۔جب سے سیاست دانوں نے عوامی رابطے میں رہنے والے نمبرداروں کو اپنی سیاست کا رزق بنایا تو پھرنمبردار بھی سیاست زدہ ہوگئے۔ بے بسی بڑھنے سے معاشرے میں اضطراب بڑھتا گیا یوں اپنے وقت کا منظم اور بہترین نظام بے فیض ہو کر ظالمانہ ہوتا گیا۔
پنجاب میں سوشل اکنامک ریفارمز کے تحت ایک کمیٹی تشکیل دے کر نمبرداری اور چوکیداری نظام کو دوبارہ بحال کیا جائے۔ اس کمیٹی میں ضلع کے اندر نمبرداروں اور چوکیداروں کی نشستوں اور ان کی تعداد اور ان کو دی گئی زمینوں کی تفصیلات مہیا کی جائیں۔ پنجاب کے صوبے دار عثمان بزدار کی کابینہ نے نمبر داری نظام کو بحال اور فعال کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے اقدامات کی منظوری دے دی ہے۔ 45000 نمبردار تحصیل اور ضلعی انتظامیہ کے اجلاسوں میں شریک ہوکر فوٹو سیشن کر رہے ہیں۔ بہت سی گاڑیوں کے پچھلے شیشے پر نمبردار لکھوایا جا رہاہے۔
نمبرداری نظام متحرک کرکے نمبر دار کو اہم حکومتی اقدامات میں پارٹنر بنا کر14 کے قریب اہم ذمہ داریاں نمبرداری نظام کے تحت سر انجام دی جارہی ہیں۔ نمبرداری نظام کو فعال بنا کر سرکاری واجبات کی وصولی کو تیز کیا جائے گا،ناجائز تجاوزات،سرکاری عمارتوں کو پہنچنے والے نقصان کی رپورٹ بھی نمبرداری نظام کے ذمہ ہوگی۔فصلوں کی گرداوری اور ضلع کے کلکٹر کے احکامات کی تکمیل نمبرداروں پر لازم ہوگی۔حکام کی جانب سے جاری سمن میں بھی نمبردار سرکاری حکام کی معاونت کریں گے۔ کسانوں کو جدید کاشتکاری اور ان کے بچوں کو سکولز کی جانب راغب کرنا بھی نمبرداری نظام کا حصہ ہوگا۔ سرکاری کھالے یا نہر میں شگاف یا چوری کی صورت میں اطلاع کرنا بھی نمبردار کے فرائض میں شامل ہوگا۔
متروکہ نمبرداری نظام اورکمپیوٹرائزلینڈ ریکارڈ سے بے قدر ہوتا پٹوار نظام پھر سے اپنی قوت کے حصول میں سرخرو ہوگیا ہے۔کمپیوٹرائزلینڈ ریکارڈ پر شب خون مارنے پر چوہدری پرویز الہی کی پُراثرار خاموشی اور سیاسی مفاہمت سے انکی سیاسی تاریخ کا ایک قابلِ فخر منصوبہ اپنی موت آپ مر گیا ہے۔ ایسے وقت میں جب پورا ملک ہاوسنگ سوسائیٹیوں کی زد میں ہے اور دیہات شہروں میں بدل رہے ہیں۔ زرعی زمینیں کمرشل ہو رہی ہیں۔وقت متقاضی ہے کہ اس متروکہ اور عوامی ناپسندیدہ نظام کی بجائے اہل وطن کو کسی ایڈوانس نظام سے مستفید کیا جائے۔پٹوار نظام کو بھی اب ختم ہونا چاہیے۔زمین کے کاغذات مالک کے پاس ہونے چاہیں جب وئہ کوئی جائیداد منتقل کرنا چاہے تو رجسٹرار کے پاس جاکر انتقال کرا دے۔ پٹواری کی مرضی کے خلاف کاغذات دیکھنے کی کوشش میں کئی کمزور اور ناپسندیدہ مالکان پر کار سرکار میں مداخلت کے مقدمات درج ہوتے رہے ہیں ۔
کہا جا رہا ہے کہ نمبرداری نظام عوام کی بہتری کے لیئے فائدہ مند ہو سکتا ہے؟ اگر2020 میں بھی یہ نظام عوام کو مستفید کر سکتا ہے تو پھر اس کے نظام کے ساتھ جڑے مغلیہ دور کے ڈاک کے نظام کوبھی بحال کرکے وئہ سارے تیز رفتار گھوڑے اور مستعدڈاکیئے بھی مارکیٹ میں لے آئیں تاکہ پورے نظام سے بھرپوراستفادہ حاصل کیا جا سکے۔