تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا عجوہ کھجور سر زمین عرب کا وہ تحفہ ہے جس کو ”جنت کی کھجور ” کہا جاتا ہے ! عجوہ حضورۖکو محبوب ترین کھجوروں میں تھی’ حدیث میں اس کے متعلق آیا ہے کہ یہ جنت کی کھجور ہے’ اس میں دوران سر سے’ قلب مرض سے شفا کا ہونا وارد ہے’ صحیح حدیث میں آیا ہے کہ: ”نہار منہ اس کے سات عدد کھانے میں زہر اور سحر سے حفاظت ہوگی۔”
حضور نبی کریم غفور رحیم ۖ نے عجوہ کا درخت اپنے ”دستِ مبارک ”سے لگایا تھا سبحان اللہ ”حضرت سعدبن ابی وقاص کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ۖ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص صبح کے وقت کوئی اور چیز کھانے سے پہلے سات عجوہ کھجوریں کھائے گا’ اس کو اس دن کوئی زہر اور جادو نقصان نہیں پہنچائے گا”۔
علامہ ابن اثیری کہتے ہیں کہ عجوہ صیمانی سے بڑی ہے’ اس کا درخت خود نبی کریم ۖ نے اپنے دست اطہر سے لگایا تھا:
آپ ۖ کا فرمان عالی شان کہ سات عجوہ کھجوریں کھانے سے زہر اور جادوں اثر نہیں کریں گئے ۔ یہ جو سات کی حکمت ہے!
جو آپ ۖ نے سات عدد کھانے کا کہا ہے تو سات عدد کی حکمت صرف اور صرف اللہ پاک اور اللہ پاک کے پیارے محبوب ۖ ہی جانتے ہیں ۔’ بلکہ اس کا علم توقیفی ہے یعنی آنحضرت ا سے سماعت پر موقوف ہے کہ آپ ا نے سات ہی کا عدد فرمایا اور سننے والوں نے اسی کو نقل کیا’ نہ تو آنحضرت ا نے اس کی تخصیص کی وجہ بیان فرمائی اور نہ سننے والوں نے دریافت کیا’ جیساکہ رکعات وغیرہ کے اعداد کا مسئلہ ہے۔حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ سات ہی کا عدد بہتر اور مناسب ہے’ اس کی حکمت اور حقیقت اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیںامام نووی فرماتے ہیں: حضور ا کا کھجور کی تمام اقسام میں سے عجوہ کو خصوصیت دینا اور پھر سات کے عدد کے ساتھ مخصوص فرمانا یہ امور اسرار سے ہیں جن کی حکمت ہم تو نہیں سمجھ سکتے’ لیکن جو کچھ نبی کریم ا نے ارشاد فرمایا ہے، اس پر ایمان رکھنا واجب ہے اور یہی اعتقاد رکھنا چاہئے کہ عجوہ ہی کو برتری و فضیلت ہے اور اس میں بھی ضرور کوئی حکمت ہے۔
سات کے عدد میں عجیب نقطہ بعض اہل علم نے نماز میں سات فرائض کی حکمت یہ لکھی ہے کہ انسان کا جسم سات چیزوں سے بنا ہے1··· مغز یعنی بھیجا’ 2:···رگیں’3:···گوشت’ 4:···پٹھے5:···ہڈیاں’ 6:···خون’ 7:···جلد یعنی کھال’ یہ سب سات ہوئے،ان ساتوں اجزاء کے شکریہ میں سات فرض رکھے گئے’ ہرایک چیز کا شکریہ ایک فرض ہے ۔اللہ اور اللہ تعالیٰ کے رسول ۖ ہی جانتے ہیں کہ سات عجوہ کھجوریں کھانے سے انسان سات اجزاء سے مرکب ہیں اور یہ سات اجزاء کو فائدہ کرتیں ہیں ۔
حافظ ابن قیم جوزی سات کے عدد کی حکمت بیان فرماتے ہوئے رقمطراز ہیں:
”رہ گئی سات عدد کی بات تو اس کو حساب اور شریعت دونوں میں خاص مقام حاصل ہے’ خدا تعالیٰ نے سات آسمان بنائے’ سات زمین پیدا کیں’ ہفتے کے سات دن مقرر فرمائے’ انسان کی اپنی تخلیق سات مرحلوں میں ہوئی’ خدا تعالیٰ نے اپنے گھر کا طواف اپنے بندوں کے ذمہ سات چکروں سے شروع کیا’ صفا مروہ کے چکر بھی سات مرتبہ شروع کئے’ عیدین کی تکبیریں سات ہیں’ سات برس کی عمر میں بچوں کو نماز پڑھنے کی ترغیب دلانے کا حکم ہوا’ حدیث میں ہے:کہ
اپنے بچوں کو سات سال کی عمر میں نماز پڑھنے کا حکم دو۔ پیغمبر خدا ا نے اپنے مرض میں سات مشکیزہ پانی سے غسل کرانے کے لئے فرمایا: خدانے قوم عاد پر طوفان سات رات تک جاری رکھا۔ رسول اللہ ا نے دعا فرمائی کہ: خدائے پاک! میری مدد فرما ایسے سات سے جیسے سات حضرت یوسف علیہ السلام کو عطا فرمائے تھے۔ خداکی طرف سے صدقہ کا ثواب جو صدقہ دینے والوں کو ملے گا سات بالیوں سے (جو ایک دانہ سے اگتی ہیں جن میں سو’سو دانے ہوں) تشبیہ دی’ اور وہ خواب جو حضرت یوسف علیہ السلام نے دیکھا اس میں سات بالیاں ہی نظر آئی تھیں اور جن سالوں میں کاشت نہایت عمدہ ہوئی’ وہ سات سال تھے اور صدقہ کا اجر سات سوگنا تک اور اس سے بھی زائد۔ سات کے ضرب کے ساتھ ملے گا۔
اس سے اندازہ ہوا کہ سات کے عدد میں ایسی خاصیت ہے جو دوسرے عدد کو حاصل نہیں’ اس میں عدد کی ساری خصوصیات مجتمع ہیں’ اور اطباء کو سات کے عدد سے خاص ربط ہے۔ خصوصیت سے ایام بحران میں بقراط کا مقولہ ہے کہ دنیا کی ہر چیز سات اجزاء پر مشتمل ہے۔ ستارے سات’ ایام سات’ بچہ کی طفولیت کی عمر سات’ وغیرہ وغیرہ !رسالت مآب ۖکو اس عدد کے مقرر کرنے کی حکمت معلوم ہے’۔ ہمارے پیغمبر ۖ جس کی ہر بات یقینی اور قطعی اور کھلی دلیل وحی الٰہی ہو’ اس کا قبول وتسلیم کرنا تو بہرحال دنیا جہاں کے ممتاز اطباء سے زیادہ حسن قبولیت کا مستحق ہے’ دنیا کی ہر چیز غلط ہو سکتی ہے مگر زبان مصطفےٰ ۖ سے نکلی ہوئی ہر چیز حتمی و آخری ہے۔
عجوہ میں شفاء ہے···” ام المومنین حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ۖنے فرمایا”عالیہ کی عجوہ کھجوروں میں شفاء ہے اور وہ زہر وغیرہ کے لئے تریاق کی خاصیت رکھتی ہیں’ جب کہ اس کو دن کے ابتدائی حصہ میں (یعنی نہار منہ کھایا جائے)۔”نوٹ: مدینہ منورہ کے اطراف قبا کی جانب جو علاقہ بلندی پر واقع ہے، وہ عالیہ یا عوالی کہلاتا ہے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ عجوہ کھجوروں کو دوران سر (HEADACHE) کے لئے استعمال کرنے کا حکم فرمایا کرتی تھیں عجوہ کی یہ خصوصیت دائمی ہےحافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں کہ عجوہ کی یہ خصوصیات صرف زمانہ مبارک نبویہ کے ساتھ ہی مقید نہیں’ بلکہ عمومی اور دوامی ہیں
قلب کے مرض کی شفا عجوہ کے ذریعہ ·”حضرت سعد فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں شدید بیمار ہوا’ آپۖمیری عیادت کے لئے تشریف لائے اور آپۖنے اپنا دست مبارک میری چھاتیوں کے درمیان رکھا اور اتنی دیر تک رکھا کہ میں نے اپنے قلب میں آپۖکے دست مبارک کی خنکی (ٹھنڈک) محسوس کی’ اس کے بعد آپۖ نے فرمایا: تم کو قلب کی شکایت ہے’ جاؤ حارث بن کلدہ کے پاس جاکر اپنا علاج کراؤ جو بنو ثقیف کا بھائی ہے اور وہ طبیب ہے’ پس اسے چاہئے کہ مدینہ طیبہ کی سات کھجوریں لے کر اور انہیں ان کی گھٹلیوں سمیت پی لے اور ان کا مالیدہ سا بناکر تمہارے منہ میں ڈالے”۔
غم خواروں کے آقا ۖنے فرمایا: عجوہ جنت سے ہے اور اس میں جنون سے شفا ہے”۔
عجوہ جنت کی کھجور ہے ترجمہ:·”حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہۖنے فرمایا: عجوہ جنت کی کھجور ہے اور اس میں زہر سے شفاء ہے۔ علماء کرام فرماتے ہیں
”عجوہ جنت کی کھجور ہے” کا مطلب یا تو یہ ہے کہ عجوہ کی اصل جنت سے آئی ہے’ یا یہ کہ جنت میں جو کھجور ہوگی وہ عجوہ ہے اور یایہ کہ عجوہ ایسی سودمند اور راحت بخش کھجور ہے گویا وہ جنت کا میوہ ہے’ زیادہ صحیح مطلب پہلا ہی ہے۔عجوہ جنت کا میوہ ہے’حضرت عبد اللہ ابن عباس فرماتے ہیں کہ کھجوروں کی تمام کی قسموں میں محبوب ترین رسول اللہ ۖکے نزدیک عجوہ تھی”۔
آج ہر شخص ناقص غذاؤں ، پرشانیوں اور بے جا خواہشات کی وجہ سے امراض قلب میں مبتلا ہے۔ حسد بغض کی وجہ سے جادو ٹونے اور نیلے پیلے کام کرنے والوں نے سادہ لوح عوام کی ” جمع پونجی ” پر ہاتھ صاف کر رہے ہیں اور ماحولیاتی آلودگی وغیرہ وغیرہ سے انسان کا دماغ کمزور اور امراض قلب پیدا ہو رہے ہیں ۔ فرمانِ مصطفےٰ ۖ کی روشنی کے سلسلے میں امراض قلب اور جادو ٹونہ سے بچنے کے لء جعلی عاملوں اور جعلی پیروں سے بچنے کے لئے ” عجوہ کھجور ” کی طرف آنا ہو گا۔ مجھے یقین کامل ہے ایمانی قوت سے عجوہ تمام امراض کا خاتمہ کرے گئی۔انشااللہ۔