حامد انصاری اور دکھی ماں کی فریاد

E-mail

E-mail

کیا آپ میری مدد کرسکتے ہیں؟ یہ ایک ایسا سوال تھاجوکہ ایک انجانی ای میل id کے ذریعے مجھ سے کیاگیامجھے پہلے بھی ایسی بے شمارای میلز موصول ہوتی رہتی تھیںجوکہ زیادہ تربیرونِ ملک سے کی جاتی تھیںاوران ای میل میسجز کے ذریعے مختلف کہانیاں بیان کی جاتی تھیںتاکہ دھوکادہی سے پیسے بٹورے جاسکیںاسلئے میںنے اس ای میل میسج کوصرف سرسری سادیکھااورکوئی مناسب جواب نہ دیا۔

لیکن کچھ دنوںبعددوبارہ اسی ای میلidسے ایک میسج موصول ہوا۔ جس میںانہوںنے اپنامکمل تعارف کروانے کے ساتھ ساتھ وہ واقعہ بھی بتایاجس کی وجہ سے اُن کی پوری فیملی انتہائی پریشانی میںتھی۔ یہ فوزیہ انصاری تھیں۔جوانڈیاکے ایک جونیئرکالج میںلیکچرارہیں۔جن کابیٹاحامدانصاری گم ہوچکاہے اوریہ پاکستانی میڈیا،خفیہ ایجنسیوں،پولیس ،عدلیہ اوراخبارات کاسہارالیناچاہتی تھیںتاکہ ان کابیٹاجلدازجلدبازیاب کروایاجاسکے۔

اب سوال یہ پیداہوتاتھاکہ وہ انڈیاکی رہائشی ہونے کی باوجود پاکستانی اداروںسے کیونکرمدد حاصل کرناچاہتی ہیںجس کیلئے پوراواقعہ جاننالازمی تھااوراب میںیہ واقعہ یہاںفوزیہ انصاری کی زبانی لکھنے جارہاہوں۔

Hamid Nehal Ansari

Hamid Nehal Ansari

میرانام فوزیہ انصاری ہے اور میراایڈریس یہ O/13,MNO Apts,Yari Road,Versova,Mumbai.400061. ہے۔حامدانصاری میرابیٹاہے جس کی عمر28سال اور ایجوکیشن ایم بی اے ہے جبکہ وہ انڈیامیںآئی ٹی انجینئرہونے کے ساتھ ساتھ بہت ذہین،ذمہ دار،قابل اورلوگوںکی مددمیںپیش پیش رہنے والالڑکاتھا۔2012ء میںاسے روٹریکٹ کلب کاصدرمنتخب کیاگیاجس کلب کامقصدعلم،پیاراوربھائی چارگی کوفروغ دیناہے۔

حامداکثر پاکستان اورافغانستان کے روٹری ممبران کے ساتھ اپنے تعلیمی منصوبے شیئرکرتارہتاتھااوران دونوںممالک میںپروفیشنل کورسزکے لئے تعلیمی ادارے قائم کرناچاہتاتھاجبکہ وہ ایوی ایشن دیپارٹمنٹ میںمناسب ملازمت بھی تلاش کررہاتھاجس کیلئے اس نے افغانستان کے شہرکابل میںبھی اپلائی کیاہواتھااورپھرانٹرویوکی کال آنے پروہ4-11-2012کو وزٹ ویزہ کے ذریعے انڈیاسے بذیعہ ہوائی جہازکابل روانہ ہوا۔جہاںوہ اس موبائل نمبر+93707295124سے ہمارے ساتھ رابطے میںرہاجبکہ اس نے متوقع طورپر15-11-2012کوانڈیاواپس آناتھا۔مگروہ واپس نہ آیاجبکہ اسکاموبائل نمبربھی آف جانے لگا۔

ہماری پوری فیملی بہت پریشان تھی کہ اچانک گھریلوکمپیوٹرآن کرنے پرہمیںپتہ چلاکہ حامداپنی ای میل idاورفیس بک اکائونٹ کولاگ آئوٹ کرنابھول گیاتھاجہاںسے ہمیںباآسانی معلوم ہوگیاکہ بے شمارپاکستانی لڑکے اورلڑکیاںاس کے دوست ہیںاورنادیہ نامی ایک پاکستانی لڑکی نے انٹرنیٹ پرمیسجزکے ذریعے حامدکوبتایاکہ وہ ایک قبائلی لڑکی ہے اورجرگے کے فیصلہ کے مطابق اس کو”ونی”کیاجارہاہے اوریہ فیصلہ کسی دوسرے کہ جرم کی پاداش میںہرجانے کہ طورپرکیاجارہاہے اوروہ اس سلسلے میںحامدسے مددحاصل کرناچاہتی تھی۔حامدنے انسانیت سے ہمدردی کے ناطے نادیہ کی مددکرنے کی ٹھان لی۔

اس کام کیلئے حامدنے اپنے دوسرے انٹرنیٹ پر پاکستانی دوستوںعطاء الرحمٰن،صباخان،عبداللہ زید،خمیراخنیف اورڈاکٹرشازیہ خان سے بات کی جنھوںنے اسے بھرپورتعاون کی یقین دہانی کرائی۔اسلئے حامدافغانستان کے شہرجلال آبادکے ذریعے بارڈرکراس کرتے ہوئے پاکستان کے شہرپشاورپہنچ گیاجوکہ اس کی سب سے بڑی غلطی تھی۔یہ بات ہمیںبعدمیںعطاء الرحمٰن سے معلوم ہوئی کہ حامد12-11-2012کواس کے پاس پہنچ گیاتھا۔جبکہ حامدکی ای میل idسے ہمیںیہ بھی معلوم ہواکہ جب وہ عطاء الرحمٰن کے پاس موجودتھاتواس نے صبانامی ایک لڑکی کویہ ای میل کی کہ ”میںعطاء بھائی کہ ساتھ ہوں”۔صبانامی لڑکی کی ای میل idیہ sinceresaba16@gmail.comہے۔اوراس ای میل کی ipکوسائبرسیل آف پولیس بی ۔کے ۔سی ممبئی نے چیک کرکے تصدیق کیاہے کہ واقعی یہ پاکستان سے بھیجی گئی ہے۔

اس کے علاوہ عوامی دستک اخبارکے چیف ایڈیٹرسعداللہ خان خٹک اور کسی دوسرے ادارے کی نیوزرپورٹرزینت شہزادی کوبھی حامدنے اپنی اسی ای میل idکے ذریعے پاکستان سے ای میل بھیجی۔
عطاء الرحمٰن نے انڈین ایمبیسی کے آفیشل نمائندے،زینت شہزادی نیوزرپورٹراوراپنے ایک فیملی دوست جوکہ دوبئی میںرہائش پذیرہے کے سامنے یہ اعتراف کیاہے کہ حامدبارڈرکراس کرنے کے بعداس کے پاس آیااوردوسے تین دن اس کی رہائش گاہ پراسکے ساتھ ہی رہا۔پھراس نے حامدکوایک موبائل سم جس کانمبر00923044061748ہے لیکردی اوراپنے ایک دوست عبداللہ خٹک کوکسی ہوٹل میںکمرے کابندوبست کرنے کا کہاجس نے پرانے لاڑی اڈاکوہاٹ پرموجودایک چھوٹے سے ہوٹل جس کانام پلواشہ ہوٹل ہے میںحامدکیلئے رہائش کابندوبست کیا۔

عبداللہ خٹک اورحامدانصاری نے پلواشہ ہوٹل میںاکٹھے چائے بھی پی لیکن اس کے بعدحامدکی حرکات وسکنات کے بارے میںمعلوم نہیںہوسکاکہ وہ کہاںگیا۔ میںاپنے بیٹے کی تلاش کیلئے پاکستان جاناچاہتی تھی لیکن پاکستانی ایمبیسی نے مجھے ویزہ نہیںدیااس کے علاوہ میںنے وزیراعظم نوازشریف،چیف جسٹس آف پاکستان،انسانی حقوق کے نمائندہ انصاربرنی اورعاصمہ جہانگیرکوبھی خط لکھالیکن میرابیٹابازیاب نہ کروایاجاسکا۔

اس کے علاوہ انڈیامیںشیری سلمان خورشیدسابقہ افیئرمنسٹر، شیری شوشل کمارشندی ہوم منسٹر، وزیراعلی مہاراشٹر شری پرتھوی راج چون، دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن، کمشنرآف پولیس ممبئی، کونسل جنرل آف افغانستان،نیشنل ہومن رائٹس کمیشن نیودہلی،سابقہ پرائم منسٹرآف انڈیاڈاکٹرمن موہن سنگھ،موجودہ انڈین پرائم منسٹرنریندرمودی،انٹرینشنل ریڈکراس سوسائٹی،سی۔بی۔آئی انٹرپول نیودہلی،پاکستان اورافغانستان میںموجودروٹری کلب کے ممبران،ممبرآف پارلیمنٹ شری گوروداس اورپریادت ممبئی کے ساتھ ملاقات ،خطوط اورای میلزکے ذریعے رابطہ کیامگرکوئی بھی پرسانِ حال نہ ملا۔

حامدسے ہمارے خاندان کی خوشیاںجڑی ہوئی ہیں۔حامدپوری فیملی کو سپورٹ کرتاتھااوراس کی گمشدگی سے ہماری فیملی کی حالت قابلِ رحم ہوچکی ہے۔ہم سے جہاںتک ہوسکاحامدکی تلاش میںکوئی کسرباقی نہ چھوڑی لیکن کوئی نتیجہ نہ نکلا۔میںاپنے دردکولفظوںمیںبیان نہیںکرسکتی۔میرادل خون کے آنسوروتاہے اوراس غم نے میری زندگی کوموت کے قریب کردیاہے پوری فیملی حامدکے غم میںنڈھال ہے اورہمیںنہیںپتہ کہ ہمارابیٹازندہ ہے یامردہ ڈیڑھ سال سے زائد کاعرصہ گزرچکاہے لیکن مجھے میرے بیٹے کی کوئی خبرنہیںمل سکی۔حامدکوانسانیت سے محبت کی سزامل رہی ہے وہ افغانستان سے غیرقانونی طریقے سے پاکستان میںاس لئے داخل ہواتاکہ مظلوم لڑکی کی مددکرسکے ۔مگرمیرے خیال میںاب ہم اوربذات خودحامدبھی اس جرم کی بہت سخت سزاکاٹ چکاہے۔

میںدل کی گہرائیوںسے پاکستان ،افغانستان اورانڈیاکے ہراس ادارے سے مددکی اپیل کرتی ہوںجومیرے بیٹے کوباریاب کرواسکتے ہیں تاکہ میرابیٹادوبارہ اپنی فیملی کے ساتھ خوشحال زندگی گزارسکے۔ یہ تھی فوزیہ انصاری کی کہانی جوکہ انہوںنے مجھے بھیجی اورجسے میں نے بغیرکسی معاوضے ولالچ کہ صرف انسانیت سے ہمدردی کے ناطے بہت محنت سے مناسب الفاظ میںڈھال کر اپنے کالم میںجگہ دی کیونکہ یہ ہرانسان پرلازم ہے کہ وہ دوسرے مشکل میں موجود انسا ن کی جہاںتک ہو سکے مدد کرے۔میںنے تواپناحق اداکرکے پوری دنیامیںاس دکھی ماںکی فریادکوپہنچادیالیکن یہ واقعہ پاکستان انڈیااورافغانستان میںموجودعدلیہ،خفیہ اداروں،پولیس اورانسانی حقوق کیلئے لڑنے والی سوسائٹیزکی ناکامی کامنہ بولتاثبوت ہے۔

جوڈیڑھ سال کے طویل عرصے میںبھی حامدانصاری کی بازیابی کیلئے کچھ نہ کرسکے ۔جوایک ماںکواس کے بیٹے سے نہ ملاسکے۔غیرقانونی طریقوں سے بارڈرکراس کرنے کی بیشمارمثالیںسعودی عرب، افغانستان، دوبئی، یونان اوراٹلی کے بارڈرزپرملتی ہیںاورجب ان ممالک کی حکومتوںکی پکڑمیںکوئی ایساغیرقانونی فردآجاتاہے جوان کے ملک کی حدود کوغلط اندازسے عبورکرکے آیا ہوتووہ اس کوملک بدرکرکے اس پر5یا10سال کے عرصہ کیلئے ملک میںداخلے پر پابندی لگادیتی ہیں۔حامدنے بھی جرم کیا اس کی سزادیناحکومت کافرض ہے لیکن کم ازکم اس کے والدین کویہ خبرتوہونی چاہئیے کہ ان کابیٹاحکومت کی قیدمیںہے یااغواکاروںکے شکنجے میںزندگی گزارنے پرمجبورہے۔وہ روئے زمین کے کسی حصہ پرزندگی کی سانسیںلے رہاہے یا ہمیشہ ہمیشہ کی ابدی نیندسلادیاگیاہے۔

Malik Jamshaid Azam

Malik Jamshaid Azam

تحریر: ملک جمشید اعظم