یہ درست ہے کہ ہمارا ملک بے شمار مسائل میں گھرا ہے لیکن کیا یہ نئی بات ہے؟کئی ممالک اس سے بھی بدتر حالات سے گزر رہے ہیں۔انہوں نے اپنی دانشمندی سے ایسے حالات کا مقابلہ کیا ہے۔آپ سری لنکا کی مثال لے لیں کیا وہاں دہشتگردی نہیں تھی ۔ وہاں پبلک ٹراسپورٹ میں بم بلاسٹ ہوتے تھے۔ کوئی شخص یہ نہیں سوچ سکتا تھا کہ آج گھر واپس آئوں گا یا نہیں لیکن انہوں نے ان حالات میں بھی تعلیم اور صحت کے معاملات میں کبھی سمجھوتا نہیں کیا۔مفت تعلیم اور مفت صحت کی سہولیات ہر کسی کے لئے میسر رہیں ہے۔ہمارا اسلامی جمہوریہ ملک ہے۔اگر ہم زکوة کے نظام کو شفاف کر دیں تو کوئی غریب ادویات نہ ملنے کی وجہ سے نہ مرے۔
عام آدمی سمجھتا ہے کہ یہ حکمران طبقہ ان باتوں سے نا آشناء ہے،ایسا نہیں،ہمارے حکمران ،اشرفیا ہر بات سے باخوبی واقف ہیں۔ ابھی کوئی میڈیا پر کسی کی غمزدہ داستاں نشر ہو تو اسی وقت ہسپتال میں حکم نامہ چلا جائے گا،لیکن ان لاکھو ں غریبوں کی کوئی شنوائی نہیں جو علاج نہ ہونے کی صورت میں خاموشی سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں ۔ یہ غلام ذہن رکھنے والے حکمران جو یورپین ممالک کی نقل کرنے کو فخر محسوس کرتے ہیں،وہاں پر موجود انسانیت انہیں مرعوب کرتی ہے لیکن اپنی عوام کو کیڑے مکوڑوں سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے ۔اگر کسی کا بچہ مر جائے تو انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ ان کے خاندانوں کے علاج ملک سے باہر مہنگے ترین ہسپتالوں میں ہوتے ہیں۔ کبھی اپنے ہسپتالوں میں بھی اپنے بچوں کا علاج کروائیں ۔ یہاں کی جعلی ادویات انہیں بھی دیں۔ہسپتالوں میں ایک بیڈ پر دو دو مریضوں کے ساتھ اپنے بچوں کو بھی لیٹائیں۔
پھر شاید انہیں احساس ہو ،لیکن وہ ایسا کیوں کریں کیونکہ وہ لٹیرے ہیں ،انہیں غریبوں تک کا مال لوٹنا ہے انہیں عوام کا خون تک چوسنا ہے۔ یہی ان کی خوراک ہے ،یہی ان کی خوشی ہے۔کچھ بھی کہئے انسانی معاشرہ اقتصادی ترقی کے باوجود اُونچ نیچ میٹا دینے والے نظام عدل کے بغیر ترقی یافتہ کہلانے کا حقدار نہیں بن سکتا۔عدل کا معیار یہ ہونا چاہئے کہ معاشرے کا ہر فرد اپنے فرائض اس طرح ادا کرئے کہ کسی کو اپنے حقوق حاصل کرنے کیلئے تحریک چلانا تو کیا آواز بھی اُٹھانے کی ضرورت پیش نہ آئے ۔اسلام ایسے نظام عدل کا حامی ہے جس میں عادل حقائق اور شواہد کی روشنی میں مظلوم کے حقوق کا تحفظ کرے بغیر کسی سفارش و رشوت اور خوف کے ۔اس کائنات کا سب سے بڑا عادل و حاکم خود خالق کائنات ہے۔
جو ساری کائنات کا نظام پورے عدل کے ساتھ چلارہا ہے اور اللہ تعالیٰ کے بعد مسلمان حاکم اس زمین پر عدل و انصاف کا ذمہ دار ہے کیونکہ اس کائنات پر اُول حاکمیت صرف اللہ تعالیٰ کی ہے اس لئے انسان صرف اللہ تعالیٰ کے احکا مات پر عمل کے ذریعے ہی مخلوق کو عدل فراہم کرسکتا ہے۔قانون وانصاف سے متعلق کیساتھ اکثر منسلک کی جانے والی ایک تشبیہہ جو ترازو کو خبر وانصاف کے مابین پیمانے کے طور پر پیش کرت ہے ۔ آج سنجیدگی ، اعتدال،توازن،صداقت،مقصدیت اور قومی فلاح و بہبود کا احساس ناپید ہو چکا ہے۔ ہم بے حسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔لاچاری ہمارا مقدر بنا دیا گیا ہے۔ہم زندہ تو ہیں لیکن گلے سڑے مردے سے بھی بدتر۔
مجھے اس کا احساس اُس وقت ہوا جب میں ایک رکشہ میں سوار تھا،اچانک رکشہ ڈرائیور کے موبائل فون کی بیل بجی ، شاید اسے اندازہ تھا ،کہ کس کا فون ہے،انتہائی گھبرائے اور خوفزدہ حالت میں رکشے کو ایک طرف کھڑا کر کے باہر نکل گیا ۔ دوسری جانب سے اُسے بتانے والے نے بتایا کہ ڈاکٹر نے تمہاری معصوم بیٹی کو ایک اور انجکشن لکھ دیا ہے، جس کی قیمت 950 روپے ہے،اگر انجکشن نہ ملا تو بچی مر جائے گی۔ڈرائیور بلبلا اُٹھا کہ صبح ہی تو تین ہزار کی ادویات دے کر آیا ہوں ۔ اب میرے پاس تو صرف تین سو روپے ہیں۔شاید دوسری جانب سے رونے والے نے پھر کہا ہائے وہ مر جائے گی۔ڈرائیور بولا میں کچھ نہیں کر سکتا،آنسوں کے ساتھ سسکیاں اور آہیں،آنکھوں میں ایسے جیسے نل چل پڑا ہو۔
Hospital
وہ چیختا ہوا خدا سے مدد مانگ رہا تھا۔میں نے کہا بھائی تسلی رکھو ،ہسپتال میں سرکاری خزانے سے علاج ہو سکتا ہے ۔یہ سن کر اُس بدقسمت کا ذہنی توازن خراب ہوتا ہوا لگا۔وہ کہہ رہا تھا کہ ہم غریب لوگوں کے لئے کوئی حکمران نہیں کوئی سہولت نہیں ۔میری بچی کئی دنوں سے زندگی موت کی کشمکش میں مبتلا ہے۔ڈاکٹروں نے اپنی پوری کوشش کی ہے لیکن اب جو دوائیاں چاہئے وہ تو لانی ہے ، میرے پاس اب کچھ نہیں رہا،اب خدا اسے موت ہی دے دے تو اس کی اور میری بے بسی،لاچاری ختم ہو جائے۔یہ ایک لاچار باپ کی آہ و پکار تھی ۔اسی طرح لاکھوں بے بس ، بدقسمتوں کی سسکیاں تو اس زمانے کے شورو غل میں دب کر رہ جاتیں ہیں۔
جو کام ریاست کی ذمہ داری ہے کہ کم از کم اپنے رعایا کو ادویات میسر نہ ہونے کی وجہ سے نہ مرنے دے۔بہت سے لوگوں کی چھوٹی بیماریاں بڑی بن جانے کی وجہ یہ ہے کہ وہ مہنگی ادویات کے ڈر سے ہسپتال کا رخ نہیں کرتے۔اگر ہمارے چند نام نہاد سیاستدانوں کو ملک پر حکومت کرنے کا اتنا ہی شوق ہے ،تو ان لوگوں کی آہوں اورسسکیوں کو بھی سننا چاہئے۔صرف اپنے ذاتی مفادات اور اپنی تجوریوں کو بھرنے کے علاوہ بھی سوچنا چاہئے۔اپنی ذاتی دشمنیوں سے باہر نکلیں، اپنے عوامی خدمت کو صرف نمائش کے طور پر نہیں بلکہ حقیقی طرز حکومت کرنا سیکھنا ہو گا۔
اگر ان سے یہ سوال کیا جائے کہ آپ عوام کی صحت،تعلیم کے بارے میں کیا اقدامات کر رہے ہیں تو جواب ملتا ہے کہ خزانہ خالی ہے۔ہم بجلی کی لوڈشیڈنگ ،گیس بحران، دہشتگردی،مہنگائی جیسے بڑے مسائل کی طرف متوجہ ہیں۔اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا یہ اس بات سے بے خبر ہیں کہ اس غریب رکشہ ڈرائیور کی معصوم بچی جس کی چند ادویات نہ ملنے کی وجہ سے جان نکلی جا رہی ہے۔اس کا مجرم کون ہے؟ وہ ہسپتال میں تڑپ رہی ہے لیکن وہ اپنی روزی کمانے کی غرض سے سڑکوں پر مارا مارا پھر رہا ہے ۔ پھر بھی بچی کے دوا کے لئے پیسے پورے نہیں کر پا رہا۔