شام (جیوڈیسک) شام کے جہادی گروہ جبہت النصرہ جو کہ نصرہ فرنٹ کے نام سے بھی معروف ہے نے شدت پسند تنظیم القاعدہ سے علیحدگی کا اعلان کیا ہے۔ اس گروہ کے سربراہ ابو محمد الجولانی نے اپنے پہلے ریکارڈ شدہ پیغام میں کہا کہ ان کے گروہ کا نیا نام جبہت فتح الشام ہے۔
انھوں نے کہا کہ اس اقدام کا مقصد امریکہ اور روس کے شام پر حملوں کے بند کروانا ہے۔ تاہم دوسری جانب امریکی محمہ خارجہ نے کہا ہے کہ النصرہ کے حوالے سے ان کا موقف کہ وہ ایک دہشت گرد تنظیم بدل نہیں سکتا۔
اس سے قبل القاعدہ نے کہا تھا کہ وہ اس پیش رفت کی حمایت کرتی ہے۔اس تنظیم کے نائب سربراہ احمد ابول الخیر کا کہنا ہے کہ تنبظیم کے سربراہ نے النصرہ فرنٹ کی لیڈر شپ سے کہا ہے کہ وہ آگے بڑھیں یہ دیکھ کر کہ کیا اسلام اور مسلمانوں کے لیے فائدہ مند ہے اور کیا جہاد کی حفاظت کرتا ہے۔
ادھر القاعدہ کےرہنما ایمن الظواہری کا مختصر پیغام بھی سامنے آیا ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ ’اسلامی بھائی چارہ تنظیمی رابطوں سے زیادہ مضبوط ہے جو کہ تبدیل ہوتے اور ختم ہوتے رہتے ہیں۔‘
الجزیرہ عربی پر نشر ہونے والے اس ریکارڈ شدہ پیغام میں مسٹر جولانی نے القاعدہ کے کمانڈرز سے کہا کہ وہ مشکور ہے کہ القاعدہ نے تعلقات توڑنے کی وجہ کو سمجھ لیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ نئے گروہ کے کسی بھی بیرونی گروہ کے ساتھ تعلقات نہیں ہوں گے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ النصرہ نے اپنا نام اس لیے تبدیل کیا ہے کیونکہ امریکہ اور روس اس گروہ کے خلاف شام میں کارروائی کر رہے ہیں۔
یہ بات پہلے سے طے شدہ ہے کہ یہ گروہ شام میں لڑنے والے مسلم گروہوں کے ساتھ قریبی اتحاد چاہتا ہے۔ خیال رہے کہ گذشتہ ہفتے ہی روس اور امریکہ کے حکام نے کہا تھا کہ وہ القاعدہ اور نصرہ فرنٹ سے لڑنے کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھانے ہوں گے۔
النصرہ نے سنہ 2012 میں انٹرنیٹ پر ایک ویڈیو بیان میں اپنی موجودگی کو ظاہر کیا تھا جس کے کچھ ہی ماہ کے بعد شام میں خانہ جنگی کا آغاز ہوگیا تھا۔ یہ بھی دعوے کیے جاتے ہیں کہ قطر کے اس گروہ کے ساتھ بہت قریبی تعلقات ہیں جو کہ ممکنہ طور پر ثالثوں کے ذریعے ہوتے ہیں۔
اپریل 2013 میں انصرہ نے القاعدہ کے بجائے دولتِ اسلامیہ کی فوجوں کے ساتھ شامل ہونے سے انکار کیا تھا۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اسگروہ کے زیادہ تر اراکین کا تعلق شام سے ہے اور ان کی تعداد 5000 سے1000 ہے۔