تحریر : شایان غنی کسی بھی بیماری کی بنیادی طور پر چار وجوہ ہوتیں ہیں ؛ صحیح غذائیت کی کمی ، مسمویت خون (toxaemia)، منفی حا لت دماغ (negative state of mind) اور موروثی بیماری (hereditary disease) ۔ صحیح غذائیت کے ذریعے ان میں سے پہلی دو وجوہ کے سبب پیدا ہونے والی بیماریوں کو روکا جا سکتا ہے۔ کئی دفعہ صحیح غذائیت کے ذریعے منفی حالت دماغ کو بھی بہتر بنایا گیا ہے۔ افسردگی، بے چینی ، ضعف حافظہ جیسی بیماریاں ، کئی معاملوں میں صحیح غذائیت کے نہیں ملنے سے ظاہر ہوتی ہیں۔ بر صغیر میں غذائیت کے تعلق سے ایک بڑا طبقہ نا واقف ہے ۔ اکثر لوگ بس اتنا ہی جانتے ہیں کہ دال اور گوشت میں پروٹین پایا جاتا ہے ۔اس کی ایک وجہ یہاں کا نظام تعلیم بھی ہے ۔ دسویں جماعت تک غذائیت کے تعلق سے کچھ خاص نہیں پڑھایا جاتا ہے۔
دسویں کے بعدزیادہ تر طلباء علم الحیاتیات(biology)نہیں لیتے بلکہ دوسرے مضامین کی طرف چلے جاتے ہیں ۔ جو علم الحیاتیات لینا پسند کرتے ہیں ان کی کتابوں میں بھی انٹر تک انسانی صحت اور غذائیت پر کوئی باب موجود نہیں ۔ البتہ ایسے چند باب ضرور ہیں جن کو صحیح سے پڑھا جائے تو غذائیت کو سمجھنے میں معاونت مل سکتی ہے ۔ اس لا علمی کا فائدہ سب سے زیادہ کچھ ڈاکٹروںکواور کچھ انگریزی دوا ئیں اور جدید کھانے تیار کرنے والی کمپنیوں کو حاصل ہوتا آیا ہے۔اکثر عوام کو اجزاء (ingredients) سے کوئی مطلب نہیں ہوتا اور جو تھوڑی دلچسپی رکھتے ہیں ان کی سمجھ سے بہت چیزیں باہر ہو جاتی ہیں ۔ مثال کے طورپر اینٹی بایوٹک (antibiotic)کو لیتے ہیں ، جسے اردو میںضد نامیہ کہا جاتا ہے ۔اس کے مضر اثرات پر کافی تحقیق ہو چکی ہے اور یہ ثابت ہو چکا ہے کہ اس کا استعمال تب کیا جاتا ہے جب مریض کو موت سے بچانے کے لئے کوئی دوسرا متابادل موجود نہ ہو۔ اس کے باوجود اکثر لوگ اسے اب بھی آرام سے استعمال کرتے ہیں ۔ ایک اچھی خاصی تعداد اایسے لوگوں کی بھی ہے جنہیں یہ پتہ ہی نہیں ہوتا کہ ڈاکٹر نے انہیں جو دوا لکھ کر دی ہے وہ ایک ضد نامیہ ہے ۔ ضد نامیات (antibiotics)کے مضر اثرات کس طرح دن بہ دن بڑھتے جا رہے ہیں ، اس کو سمجھنے کے لئے ایک اقتباس قابل مطالعہ ہے۔ایک امریکی ماہر غذائیات ڈاکٹر ما ئیکل شیرون (Dr. Michael Sharon) اپنی کتاب Complete Nutrition کے صفحہ نمبر 17 پر لکھتا ہے، “Doctors developed a growing tendency to make it easy on themselves by prescribing antibiotics without a second thought for future infections. The result was that within a few years most bacteria learned to resist antibiotics. It became necessary to prescribe higher doses, so antibiotics were manufactured in much higher potencies, up to 50 times the original ones. New types were also developed to keep one jump ahead of the bacteria. And so a vicious cycle was set up. Included in this cycle were more and more side effects, the most common of which were weakness and depression. In many instances, the side effects were worse than the original infection.”
(ڈاکٹروں نے عموماََیہ رجحان بنا لیا کہ وہ بغیر زیادہ غور کئے اپنے مریضوں کو ضد نامیات لکھ دیتے اور اس کے سبب مستقبل میں ہونے والے انفیکشن سے بے فکر رہتے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ چند برسوں کے دوران بہت سے جراثیم اُن ضدنامیات کے خلاف مزاحمت کرنا سیکھ گئے ۔ پھر یہ ضروری ہو گیا کہ ضدنامیات اور زیادہ قوی مقدار میں مریضوں کو لکھی جائیں ۔ اسی لئے ضدنامیات کو ایسا تیار کیا جانے لگا کہ وہ جراثیم کو مارنے میں اپنی اصل سے پچاس گنا تک زیادہ قوی ہو گئیں۔ نئی نئی اقسام کو بھی تیار کیا جانے لگا تا کہ جراثیم سے دس قدم آگے رہا جائے۔ اس طرح جراثیم اور ضدنامیات کی جنگ کا ایک سلسلہ قائم ہو گیا ، جو اپنے ساتھ ضمناََ زیادہ سے زیادہ مضر اثرات لے کر سامنے آیا ۔ ان مضر اثرات میں سب سے عام، کمزوری اور افسردگی ہے۔ کئی معاملوں میں مضر اثرات اپنے اصل انفیکشن سے بھی زیادہ بدتر ہو گئے۔)
اس اقتباس سے معلوم ہوا کہ ہماری لا علمی ہمیں ضدنامیات جیسی دوائوں پر بلاضرورت منحصر کرتی ہے۔اگر ہمیں غذائیت کا صحیح علم ہو تو ہم بیماری کو پیدا ہونے سے روک سکتے ہیں اور اگر بیماری پیدا ہو بھی جائے تو اسے غذائیت کے ذریعے ختم کر سکتے ہیں۔ ایک مشہور چینی طبیب Sun Simiao نے اپنی ایک کتاب میں لکھا تھا، “A truly good physician first finds out the cause of the disease, and having found that, he first tries to cures it by food. Only when food fails, does he prescribe medication.”
(ایک سچا طبیب پہلے کسی بھی بیماری کی وجہ تلاش کرتا ہے اور جب وجہ معلوم ہو جائے تو اولاََ اس کا علاج غذا کے ذریعے کرنے کی کوشش کرتا ہے جب غذا کے ذریعے علاج سے ناکامیابی ملتی ہے تب وہ ادویات تجویز کرتا ہے۔)
انگریزی کی ایک قدیم کہاوت ہے “You are what you eat, drink and think” یعنی آپ وہی ہیں جو آپ کھاتے پیتے اور سوچتے ہیں ۔ قران پاک سے بھی ہمیں یہ واضح اشارہ ملتا ہے کہ شیطان کے گمراہ کن راستوں سے بچنے کا ایک ذریعہ حلال و طیب غذابھی ہے ۔ رب تعالیٰ کا ارشاد ہے
“لوگوں جو چیزیں زمین میں حلال پاکیزہ ہیں وہ کھائو اور شیطان کہ قدم پر قدم نہ رکھو بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔” ( سورۃ البقرۃ : 168) ہمارے نبی ﷺ بھی صحیح غذائیت کا بہت خیال رکھتے تھے۔ اس ضمن میں
ایک حدیث شریف ملاحظہ ہو : “حضرت سہل بن سعد الساعدی فرماتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ کو دیکھا کہ وہ کھجور وں کے ساتھ تربوز کھا رہے ہیں ” (مسلم، ابن ماجہ ، ترمذی) ابودائود شریف میں اس اضافہ کے ساتھ ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا “میں کھجور کی گرمی کو تربوز کی ٹھنڈک سے برابر کر لیتا ہوں۔”
خلاصہ یہ ہے کہ غذائیت ایک ایسا باب ہے جس کو سمجھ کر عمل کرنے سے ہمیں دینی و دنیاوی فوائد حاصل ہو سکتے ہیں ۔ ساتھ ہی ہم خود کو جسمانی اور ذہنی فساد سے بچا سکتے ہیں ۔ رب تعالیٰ کا فرمان ہے ، “اور اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو” ( سورۃ البقرۃ : 195)