پتہ نہیں مجھے کوئی واہمہ ہے یا میری چھٹی حس ہے جو میری نیندوں کو لے اڑی ہے بے وقت جاگنا اور بے وقت سونا۔ اس سارے معاملے میں ایک ہی دعا ہے کہ اے اللہ میرے ملک کو مارشل لاء سے بچا لے۔یہ میرا ڈر اور خوف کیوں ہے؟ میں لندن میں بیٹھے الطاف حسین کے بیانات سن کر اپنی رائے قایم کرتا ہوں جو آج کل فوج سے اظہار یکجہتی کے لئے تڑپ تڑپ جاتے ہیں سوچتا ہوں میجر کلیم کے ساتھ جو کچھ انہوں نے کیا قوم اسے بھول گئی ہے؟ کبھی کبھار ان نجی چینیلز کی جانب بھی رخ جاتا ہے جو لاہور سے ایک موٹے سے عالم دین (سو کالڈ) کو لابٹھاتے ہیں ان کے ساتھ جو صحافی بیٹھے ہوتے ہیں وہ بھی مذاکرات کے خلاف ہوتے ہیں اینکر پرسنز تو گویا دیہاڑی ہی اسی بات پر لگاتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ زبردستی کی باتیں اگلوا کر انہوں نے پاکستان کی ذہین ترین جماعت کے امیر کو غیر متوازن شخص ثابت کر دیا ہے۔ قارئین آج کا کالم میرا ایک بے لاگ تبصرہ ہو گا لوگ اس کالم کو تحریک انصاف کے ایک کارکن کی حیثیت سے نہیں ایک ایسے قلم قار کا تبصرہ سمجھ کے پڑھیں جسے صرف جمہوریت کی فکر ہے دراصل ہر پاکستانی کو اس کی فکر ہے۔
مارشل لاء تو اب افریقی ملکوں میں بھی نہیں لگتے۔ بہت سے لوگوں کے لئے جمہوریت اور آمریت کا فرو آٹے اور دال کے بھائو کا فرق ہے۔ لیکن میرے نزدیک آزادی ء رائے کا ایک واضح فرق ہے جو آپ جمہوری دور میں کھل کر بیان کر سکتے ہیں وہ مارشل لاء میں ہر گز نہیں اس میں جیلیں ہیں قید ہے کوڑے ہیں زبان بندی ہے۔ جناب زرداری کا دور گورننس کے حوالے سے پاکستان کے سیاہ ترین دور میں شمار ہوتا ہے لیکن یاد رکھئے اس دور میں کوئی سیاسی مقدمے بازی نہیں ہوئی کوئی پرچہ کوئی کیس فائل نہیں ہوا اور نہ ہی اس موجودہ دور میں۔ دھاندلیاں دھاندلے اپنی جگہ مگر کوئی سیاسی کارکن یہ نہیں کہہ سکتا کہ اسے جھوٹے مقدمے میں پھنسوایا گیا ہے۔ قارئین آج فریقین کا تذکرہ ہے ایک طرف آمریت ہے اور دوسری جانب جمہوریت۔گندی سے گندی جمہوریت کا علاج جمہوریت ہی ہے فوجی قانون نہیں۔ اور جمہوریت مزید جمہوریت۔
پرسوں ایف ٨ کچہری میں حملہ ہوا بہت سی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔ حملہ آوروں نے نشانے لگا لگا کر لوگوں کو مارا اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔کچھ کا کہنا ہے لوگ تین ویگو گاڑیوں میں آئے چن چن کر مارا اور چلے گئے۔کیسے چلے گئے؟ ویسے ہی جیسے ایک بار بادشاہ نے ملکہ سے اڑے ہوئے کبوتر کے بارے میں پوچھا کہ کیسے اڑا اس نے دوسرا اڑا کر کہا ایسے۔ یہاں جواب بھی وہی ہے جیسے بنوں جیل سے بھاگ نکلے۔
اگلے روز اخبار میں آیا کہ رفاقت اعوان نے لال مسجد میں شہید ہونے والے غازی رشید کے بیٹے ہارون رشید کی جنرل مشرف کے خلاف دی گئی درخواست کو ان کمنٹس کے ساتھ مسترد کیا کہ یہ شخص سستی شہرت حاصل کرنے کے لئے جنرل مشرف کو ملوث کرنا چاہتا ہے۔ یہ ایک خیال ہے کچھ لوگوں کا خیال ہے آپریشن کا رخ لال مسجد کی طرف موڑنے کے لئے یہ نکتہ اٹھایا گیا ہے۔ اور بعض لوگ یہ بھی کہتے پائے گئے کہ ایک بیٹا مشرف دور کے روح رواں جنرل مشرف کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کروانا چاہتا ہے تو اس کو دھتکار دیا جاتا ہے۔ اس در در رل جانے والے بیٹے کا کیس آپ بھلے سے نہ سنیں مگر ایک جوان بیٹے کو یہ تو نہ کہیں کہ تم اپنے باپ کا کیس اس لئے درج کروا رہے ہو کہ شہرت حاصل کر لو۔ ایک بیٹے کے لئے اس سے بڑھ کر تضحیک کیا ہو سکتی ہے؟ یہی حال سلمان تآثیر کیس میں ہوا تھا۔ گستاخ رسول آسیہ بی بی کو موصوف دلاسہ دینے چلے گئے تھے۔ پھر جب مارے گئے تو شہید قرار دیے گئے۔انتہا بلکل بھی اچھی نہیں اگر ممتاز قادری نے گولی چلا کر انتہا کی تو گورنر صاحب نے کون سی اچھائی کی تھی؟ آج یہ باتیں بہت سوں کو اچھی نہیں لگتی ہوں گی مگر اس دور میں جب رسول پاکۖ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توہین کی جاری تھی اس وقت پاکستانی مسلمانوں کی کیا کیفییت تھی اسے سوچئے۔
قارئین! مجھے اتنا تو علم نہیں کہ یہ سچ ہے یا جھوٹ ہے مگر ایک سچ یہ بھی ہے کہ ڈرون اٹیکس میں ریاض شہر کے مشہور بازار میں ایک وزیرستانی موچی کے دو بیٹے اور معصوم بچی مارے گئے تھے ۔میں اس سے اظہار افسوس کرنے گیا۔حارہ میں واقع اس کی دکان پر رش تھا کام کا ٹایم تھا باریش جفت ساز اپنے کام میں مگن تھا وہ تھوڑی دیر میں فارغ ہوا میں نے اس سے کہا بھائی جان مجھے بڑا دکھ ہوا ہے۔ افسوس ہے کہ آپ کے اہل خانہ کے ساتھ حادثہ پیش آیا ہے۔ اس نے آسمان کی طرف دیکھ کر کہا بابو جی میرے بچے میرے بڑھاپے کا سہارا تھے۔ مجھ سے چھین لئے گئے ہیں۔اب میری زندگی کس کام کی۔ میں بھی اسی راستے پے جائوں گا۔ وزیرستانی موچی پاکستان چلا گیا اس کے بعد واپس نہیں آیا۔
میں نہیں کہتا کہ اس نے اپنے آپ کو اڑا لیا ہو گا مگر اس کی باتیں بتا رہی تھیں کہ اس ڈرون اٹیک نے ایک خود کش تیار کر دیا ہے۔ آج اس موٹے مولوی کی باتوں سے ایسا لگ رہا تھا کہ وہ مدارس ایک خاص مکتب فکر کے لوگوں پر چڑھائی کرانا چاہتا ہے۔ میں سنی بریلوی ہوں یا رسول اللہ کے نعرے لگانے والا مگر میں ان معصوم بچوں کی طرف اٹھنے والی انگلیوں کو ناپسند کرتا ہوں۔اللہ کے دین کے لئے کھلے گئے ان مدارس کے بچوں پر ہونے والا کوئی بھی ظلم کتاب اللہ پر ظلم تصور ہوگا۔ یہ لوگ بھلے سے دیو بند یا کسی اور مسلک سے تعلق رکھتے ہوں مگر ان کو میڈیا ایک چلتا پھرتا بم دکھا کر اس سازش کو کامیاب بنا رہا ہے جو انگریز کامیاب نہ کر سکا۔ غریب گھرانوں کے بچے ہمارے شہروں کی گلیوں میں کتاب اللہ کو حفظ کر رہے ہیں ان کے والدین انہیں یہاں حفظ کے لئے چترال مانسہرہ گلگت سے بھیجتے ہیں کہ وہ ان کو کھلا نہیں سکتے۔ ہم ان کے لئے زمین تنگ کر رہے ہیں۔ کسی نے کہا تھا کہ یہ مدارس ہماری سب سے بڑی این جی اوز ہیں ان میں لاکھوں لوگ اللہ کی کتاب حفظ کرتے ہیں دین سیکھتے ہیں۔ یہ کسی فرزانہ باری عاصمہ جہانگیر ہود بھائی کی طرح دین ملت بیچ کر باہر سے پیسہ نہیں لیتے۔اللہ کے بندے خاموشی سے ان کے ڈبوں میں پیسے ڈال دیتے ہیں۔لال مسجد میں کیا ہوا تھا؟ان معصوم بچوں پر لشکر کشی کی گئی۔ہمیں یہ بھی بتایا گیا کہ کرنل ہارون السلام کو گولی کسی خاص مکتب فکر کے بندے نے ماری اور پھر فوج کی غیرت کے نام پر ان معصوموں پر چڑھائی کی گئی۔
ہم تو کسی بھی قسم کی انتہا پسندی کے خلاف ہیں۔ عدالتیں مقتولوں کے ورثاء کو انصاف دیں تو میں نہیں سمجھتا کوئی قانون کو اپنے ہاتھ میں لے گا۔ ایک شور مچا دیا گیا ہے کہ طالبان نے ملک میں افرا تفری مچائی ہوئی ہے۔ اب بتایا جائے کہ طالبان نے تو اسلام آباد کی کچہری میں خون کی ہولی نہیں کھولی، ہنگو میں کوئی اور مار گیا مگر حکومت پر زور دیا جا رہا ہے کہ وہ لشکر کشی کرے۔ بس جائے تو جائے وزیرستان جائے۔کل اس آپریشن کی صورت میں کوئی نیا ملک برآمد ہوا تو کون ذمہ دار ہو گا الطاف حسین،یہ مادر پدر آزاد میڈیا؟ کون؟ میں اپنے ان بے شمار کالموں میں ذکر کر چکا ہوں کہ ہمارا دشمن وہ ہے جو ازل سے ہمیں مٹانے کی بات کرتا ہے۔ پوری قوم اسے جانتی ہے اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ کرکٹ میچ ہوتے ہیں وہاں ہمیں اپنی قوم کا اندازہ ہوتا ہے کہ امن کی آشاکے باوجود پاکستانی نوجوان انڈیا کو چیر نا چاہتا ہے پھاڑنا چاہتا ہے ۔جو قوم بنگلہ دیش زمبابوے سے ہار تسلیم کر لیتی ہے وہ انڈیا سے ہار کیوں نہیں مانتی؟ آخر یہ بات سب کو سمجھ میں کیوں نہیں آتی۔
islamabad
اب اسلام آباد کچہری کے واقعے کی طرف آتا ہوں اس میں ایم کیو ایم کے علاوہ سابق چیف جسٹس بھی حکومت پر چڑھ دوڑے ہیں۔ مجھے کہنے دیجئے کہ اس ہلے گلے میں جمہوریت کی بساط لپیٹنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ سب لوگ حکومت کی جانب اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان گنت ایجینسیاں کیا کر رہی ہیں۔چودھری نثار کی برطرفی اور حکومت کو استعفے دینے کی باتیں کیوں کی جا رہی ہیں؟ آخر وہ ایجینسیاں جن کے ہزاروں اہل کار ہیں وہ کیوں نہیں ذمہ داری لیتیں؟ ایف ٨ کچہری میں پچھلے دور میں بھی دھماکے ہوئے تھے۔ کیا کسی ایجینسی نے رپورٹ کیا تھا کہ وہاں کے سی سی ٹی وی کیمرے خراب ہیں؟ کوئی نہیں بتاتا۔ لوگ آئے اور گاڑیوں پر فائرنگ کر کے چلے گئے اس ملک میں جیلوں میں لوگ آئے اور اپنی پسند کے لوگ لے گئے اور اپنی پسند کے لوگ مار کر ٢٠٠ کلو میٹر کا فاصلہ طے کر جاتے ہیں۔ وزیر داخلہ چودھری نثار ہو یا وزیر اعلی پرویز خٹک یہ ان کی ذمہ داری نہیں کہ وہ بندوقیں پکڑ کر ان کا مقابلہ کریں۔ دفاع کی ذمہ دار ایجینسیاں اس کا جواب دیں۔
اب میں آتا ہوں ایک اہم مسئلے کی طرف۔فوج میں ایک عجیب قسم کا رواج ہے حاضر سروس بھی فوجی اور سابق بھی بھی۔ ماضی میں آپ نے دیکھا ہوگا ایک بار اعجازالحق اور شیخ رشید پر کلاشنکوف لہرانے کا الزام لگا تھا جنرل ضیاء کا بیٹا اور جنرل رحیم کا دعاماد تو گھر آ گیا تھا لال حویلی کا شیخ جیل میں چکی پیستا رہا۔
ہاتھ مویا سوا لکھ دا تو ہم نے بھی دیکھ لیا تھا۔فوج آخر جنرل مشرف سے کیا نکالنا چاہتی ہے؟ وہ اسے کیوں پناہ دے کر پاکستان کے قوانین سے کھیلنے والیکی طرف داری کر رہی ہے۔ بھٹو اگر پھانسی کے جھولے پر جھول گئے جو صرف مشورہ دینے والوں میں شامل تھے تو اس شخص کو جس نے پاکستان میں دو بار ایمرجینسی لگائی ہے اسے کیوں اپنی گود میں بٹھائے بیٹھی ہے؟جنرل کیانی کو بزدلی کے طعنے دینے والے یاد رکھیں وہ عظیم جرنیل تھا جس نے فوج کو پاکستان کے قوانین کی قیود میں رکھا اور ہمیں پوری امید ہے کہ جنرل راحیل شریف بھی ایسا ہی کریں گے۔ آج ایک یہ بھی بیان تھا کہ جنرل مشرف ان حالات میں کسی عدالت میں پیش نہیں ہوں گے۔اگر شہید جج رفاقت اعوان سے منسوب اس بیان جس میں انہوں نے کہا تھا کے یہ شخص سستی شہرت کے لئے مشرف پر قتل کا مقدمہ قایم کرنا چاہتا ہے اور اسی بیان کی روشنی میں لال مسجد والوں پر پھر شام الم لائی جائے گی تو یہ بیان بھی ایک معنی رکھتا ہے کہ مشرف کو عدالت میں پیشی سے بچانے کے لئے یہ واقعہ رونما ہوا ہے۔الزامات جو بھی ہوں۔
پاکستان میں جمہوریت کو چلنا چاہئے۔بلاول بھٹو عالمی طاقتوں کے سامنے نمبر ٹانکنے کی بجائے جمہوریت کے تحفظ کر فکر کریں انہیں یہ بات کسی طور بھی نہیں بھولنا چاہئیے کہ پیپلز پارٹی نے قید اور کوڑے برداشت کئے ہیں مگر جمہوریت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ آج یہ بات بڑی حیران کن تھی کہ فوج کو مزاکراتی کمیٹی میں کیوں بلوایا گیا۔ فوج اسی ملک کی ہے اسے اعتماد میں لینا بہت ضروری ہے۔ اگر کوئی جنگ کوئی افراتفری بات چیت سے دور ہو سکتی ہے زخم مندمل ہو سکتے ہیں تو ایسی بات چیت ضرور ہونی چاہئے اس موقعے پر اعلی سطحی مذاکرات میں وزیر اعظم معاونت کے لئے بلاول زرداری اور جناب عمران خان، منور حسن،مولانا فضل الرحمن کو اگر دعوت دیں تو کوئی ہرج نہیں۔ یاد رکھئے یہ وہ سطح ہے جہاں ملک کی اعلی قیادت بشمول آرمی چیف مل کر پاکستان کو اس دلدل سے نکال سکتے ہیں۔ میری ذاتی رائے ہے کہ تحریک انصاف بہترین پالیسی پر گامزن ہے اور اس کا طرز عمل بہترین ہے اس لئے کہ جمہوریت ہو گی تو وہ اپنا حصہ لے سکے گی ایک صوبے کے بعد پورے ملک میں۔ پاکستان کی جمہوری قوتیں متحد ہو کر ایک ایسا مو ئقف اپنائیں جس سے مارشل لاء کے خطرات سیاسی آسمان سے دور ہو سکیں۔سچی بات ہے اس مہنگائی، لوڈ شیڈنگ، گیس کی عدم دستیابی کے باوجود قوم کبھی بھی مارشل لاء کو ویلکم نہیں کہے گی۔ سب کی بہتری اسی میں ہے کہ جہاں تک ہو مارشل لاء سے بچا جائے۔