اسلام آباد (جیوڈیسک) سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر مملکت کو ایک اور خط لکھا ہے جو پانچ صفحات پر مشتمل ہے۔
خط میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ‘جناب صدر اس سے پہلے کہ کونسل مجھے نوٹس بھیجتی میرا جواب آتا لیکن میرے خلاف میڈیا پر کردار کشی کی مہم شروع کر دی گئی ہے، کیا شکایت کے مخصوص حصے میڈیا میں لیک کرنا حلف کی خلاف ورزی نہیں؟’
انہوں نے لکھا کہ کیا میڈیا میں مخصوص دستاویزات لیک کرنا مذموم مقاصد کی نشاندہی نہیں کرتا؟ وزیر قانون، وزارت اطلاعات کے سینئر ارکان اور حکومتی ارکان ریفرنس کے مخصوص دستاویزات پھیلا رہے ہیں، جناب صدر حکومتی ارکان میڈیا میں ریفرنس سے متعلق گفتگو کر رہے ہیں اور اسے میرے خلاف احتساب کا شکنجہ قرار دے رہے ہیں۔
خط میں ان کا کہنا تھا کہ ‘جناب صدر کیا یہ مناسب رویہ ہے، کیا یہ آئین سے مطابقت رکھتا ہے؟ صدر، وزیر اعظم، وفاقی وزراء اور ججز عہدہ سنبھالنے سے پہلے آئین پاکستان کا حلف لیتے ہیں، مخصوص مواد پھیلا کر اور گفتگو کرکے حلف کی خلاف ورزی کے مرتکب نہیں ہو رہے؟’
خط میں انہوں نے مزید کہا کہ ‘جناب صدر میڈیا میں رپورٹ ہوا کہ آپ نے میرے خلاف شکایت بطور ریفرنس کونسل کو بھجوائی، رپورٹ ہوا کہ شکایت وزیر اعظم کی ایڈوائس پر بھجوائی گئی لیکن مجھے ابھی تک ریفرنس کی نقل فراہم نہیں کی گئی’۔
جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے خط میں لکھا کہ میں صرف یہ تصور ہی کرسکتا ہوں کہ الزام لندن کی تین جائیدادوں کے بارے ہے، یہ جائیدادیں میرے، بیوی اور بچوں کے نام پر ہیں، جناب صدر میں رضا کارانہ طور پر جائیداد کی تفصیلات ظاہر کر رہا ہوں، ریفرنس میں کہا گیا کہ یہ بچوں کی جائیداد ہے تو میں کیسے مس کنڈکٹ کا مرتکب ہوا؟ سیکشن 116 کسی طرح بھی سزا کی شق نہیں، سیکشن 116(3)کسی بھی غلطی کو درست کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ‘جناب صدر مجھے اور میرے خاندان کو آدھا سچ بتا کر بدنیتی کی بنیاد پر نشانہ بنایا جا رہا ہے، حکومتی ارکان کا یہ طرز عمل میرے اور میرے اہل خانہ کے لیے پریشان کن ہے، میرے بچے تعلیم مکمل کرنے کے بعد ایک عرصے سے لندن میں مقیم اور وکالت کے شعبہ میں کام کر رہے ہیں، جائیدادیں بچوں کی اور ان کی ملکیت ہیں’۔
جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے مطابق جائیدادوں کو کسی بھی طرح چھپانے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی، یہ جائیدادیں کسی ٹرسٹ یا کسی آف شور کمپنی کی ملکیت نہیں، قانون کے تحت مجھ پر اپنے مالی معاملات کی تفصیلات ظاہر کرنے کی پابندی نہیں لیکن میں رضا کارانہ طور پر یہ ظاہر کر رہا ہوں۔
انہوں نے خط میں مزید لکھا ہے کہ رضاکارانہ اس لیے ظاہر کررہا ہوں کہ میری سالمیت پر شک و شبہ پیدا کیا جا رہا ہے، میں پاکستان کے ٹیکس قوانین پر مکمل طور پر عمل کرتا ہوں، ان جائیدادوں سے متعلق مجھے کبھی کوئی نوٹس موصول نہیں ہوا اور نہ ہی میری بیوی اور بچوں کو کبھی نوٹس موصول ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ میں جب سے عملی طور پر پیشہ میں آیا تمام ٹیکس ریٹرن داخل کیے، تمام قسم کے ٹیکس ادا کیے اور مجھ پر کوئی حکومتی ٹیکس واجب الا ادا نہیں ہے لہٰذا میرے خلاف جس نے بھی ریفرنس داخل کیا اسے پہلے میرے مالی معاملات کو اچھی طرح چھان بین کر لینا چاہیے تھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میرے بزرگوں نے قائداعظم کے ساتھ شانہ بشانہ آزادی کی جنگ لڑی، بزرگوں کی عزت اور توقیر سے بڑی کوئی چیز نہیں اور میں اپنے حلف کی پاسداری کرتے ہوئے آئین کا تحفظ اور دفاع کروں گا۔
گزشتہ دنوں سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ہائیکورٹ کے 2 ججز کے خلاف حکومت نے سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیے تھے۔
حکومتی ذرائع کے مطابق ان ججز میں لاہور ہائیکورٹ اور سندھ ہائیکورٹ کے ایک، ایک جج بھی شامل تھے، لاہور ہائیکورٹ کے سابق جج فرخ عرفان چونکہ سپریم جوڈیشل کونسل میں کارروائی کے دوران استعفیٰ دے چکے ہیں، اس لیے ان کا نام ڈراپ کردیا گیا ہے۔
صدارتی ریفرنسز پر سماعت کیلئے سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس 14 جون کو طلب کرلیا گیا ہے اور اٹارنی جنرل کو نوٹس بھی جاری کیا گیا ہے۔
وفاقی حکومت کی جانب ججز کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرنے کے معاملے پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل زاہد فخرالدین جی ابراہیم احتجاجاً مستعفی ہوگئے تھے۔
اس معاملے پر سینیٹ میں ججز کے خلاف حکومت کی جانب سے ریفرنس بھیجنے پر ججز کے ساتھ اظہار یکجہتی کی قرارداد منظور کی گئی۔
دوسری جانب ملک بھر کی بار ایسوسی ایشن میں صدارتی ریفرنس کے خلاف غصہ پایا جاتا ہے اور پاکستان بار کونسل نے اسی معاملے پر اہم ہنگامی اجلاس بھی 8 اور 9 جون کو طلب کر رکھا ہے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر امان اللہ کنرانی نے ارکان پارلیمنٹ سے ججز کے خلاف ریفرنس بھینے پر صدر مملکت عارف علوی کے مواخذے کا مطالبہ کیا ہے۔