واشنگٹن (جیوڈیسک) امریکی صدر براک اوباما، جو جنوری میں اپنی میعاد صدارت مکمل کرنے والے ہیں، یورپ کے اپنے آخری دورے میں اتحادیوں سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رکھا، جنھیں اُنھوں نے امریکہ کی پائیدار حمایت کی یقین دہانی کرائی اور اُن پر زور دیا کہ وہ روس کا ڈٹ کر مقابلہ کریں۔
اُنھوں نے چار روزہ دورے کا آغاز یونان سے کیا، جہاں سے ہی یورپ میں مغربی طرز کی جمہوریت کی ابتدا ہوئی؛ اور دورے کا اختتام یورپ کی چوٹی کی معیشت والے ملک جرمنی میں کیا، جس کی چانسلر آنگلا مرخیل یورپ کی انتہائی بااثر رہنما خیال کی جاتی ہیں۔
امریکی سربراہ جمعے کے روز برلن سے وطن واپسی سے قبل پیرو کے دورے پر روانہ ہوئے۔
اپنے دورہٴ یورپ کے دوران، اوباما کے ایجنڈا پر سرفہرست ڈونالڈ ٹرمپ کی صدارت کے دوران بحر اوقیانوس کے تعلقات کےبارے میں اتحادیوں کو غیر یقینی صورت حال درپیش رہی ہے، جس کا باعث صدارتی انتخابات کے دوران ٹرمپ کے نیٹو اور یورپی یونین اور دیگر کثیر جہتی اداروں سے متعلق بیانات تھے۔
برلن سے روانہ ہونے سے قبل، صدر اوباما نے برطانیہ، فرانس، جرمنی، اٹلی اور اسپین میں سربراہان سے ملاقات کے دوران اِسی یقین دہانی کا اعادہ کیا۔
وائٹ ہاؤس کے ایک بیان میں اوباما نے ’’اِس اعتماد کا اظہار کیا کہ تبدیلی کے اس اہم لمحے پر بھی تاریخ کے کسی دوسرے نظام کے برعکس، جمہوری اقدار نے انسانی آزادی کو فروغ دینے اور ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے، اور آئندہ بھی اس کے ثمرات بہتر رہیں گے‘‘۔
قریبی تعاون جاری رکھنے پر، اُنھوں نے اپنے یورپی ہم منصبوں کا شکریہ ادا کیا، اور اُن پر زور دیا کہ وہ ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ ’’اِنہی اصل اقدار کی بنیاد پر کام کرتے رہیں، جو امریکہ اور یورپ کی آزاد جمہوریتوں کی پہچان ہے‘‘۔
جمعے کے روز اوباما اور دیگر رہنماؤں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ مشرقی یوکرین کے تنازعے پر، روس کے خلاف تعزیرات کو جاری رکھا جائے گا۔ اُنھوں نے روس سے مطالبہ کیا کہ مِنسک معاہدوں کی پابندی کی جائے اور سکیورٹی کا ماحول برقرار رکھا جائے جو انتخابات کے لیے سازگار ہو۔
اُنھوں نے اِس بات پر بھی اتفاق کیا کہ وہ شام کے تنازع پر کشیدگی میں کمی لانے اور سفارتی حل کے لیے کام کرتے رہیں گے۔ اُنھوں نے روس سے مطالبہ کیا کہ وہ حلب پر بم باری بند کرے، جہاں، بقول اُن کے، انسانی صورت حال ’’شدید تشویش‘‘ کی باعث ہے۔
بیرونِ ملک اپنے دورے کے آخری حصے میں، اوباما پیرو کے لیے روانہ ہوئے، جہاں وہ ایشیا پیسیفک معاشی تعاون سربراہ اجلاس میں شرکت کریں گے۔