میاں صاحب شیر بنیں

Nawaz Sharif,Obama

Nawaz Sharif,Obama

امریکی صدر اوباما سے ملاقات میں وزیر اعظم نواز شریف نے ڈرون حملوں کی بندش کا مطالبہ تو کر دیا لیکن اس ملاقات کو ابھی ایک ہفتہ ہی مکمل ہوا تھا کہ دو دن مسلسل ڈرون حملے کئے گئے، جن میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے امیر حکیم اللہ محسود بھی جاں بحق ہو گئے۔ یہ ڈرون حملہ اس وقت ہوا جب پاکستان طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لئے وفد بھیجنا چاہتا تھا وزیر داخلہ چوہدری نثار نے قومی قیادت سے رابطے کر انہیں مذاکرات کے حوالہ سے اعتماد میں لیا اور ہفتہ کو ایک وفد جانا تھا مگر حکیم اللہ محسود کی خبر آگئی جس کے بعد مذاکرات ہوں گے یا نہیں ابھی تک کچھ نہیں کہا سکتا۔امریکہ و انڈیا نہیں چاہتے کہ پاکستان میں امن ہو وہ وطن عزیز میں دہشت گردی و تخریب کاری ہی دیکھنا چاہتے ہیں۔

امریکہ خود تو افغان طالبان سے مذاکرات کر رہا ہے افغانستان میں نہتے افغانیوں سے سپر پاور امریکہ کی شکست اس کے لئے بہت بڑا دھچکا ہے اب 2014 میں افغانستان سے انخلاء کے لئے امریکہ محفوظ راستہ چاہتا ہے لیکن پاکستان میں امن کا خواہاں نہیں ہے پاکستان نے جب بھی طالبان سے مذاکرات کی بات کی امریکہ نے راہ میں روڑے اٹکائے، ماضی میں بھی مذاکرات پر راضی ہونے والے طالبان کمانڈوروں کو ڈرون کا نشانہ بنایا گیا۔ پاکستان کی امن کوششوں پر پہلا ڈرون حملہ اٹھارہ جون دو ہزار چار کو کیا گیا جب جنوبی وزیرستان میں ڈرون حملہ کر کے امن معاہدہ کرنے والے طالبان کمانڈر نیک محمد کو نشانہ بنایا گیا۔ دو ہزار نو میں ایک مرتبہ پھر مذاکرات کی کوششیں ہونے لگیں اس مرتبہ ڈرون حملے کر کے کالعدم ٹی ٹی پی سربراہ بیت اللہ محسود کو مار دیا گیا۔ 2013 میں نومنتخب حکومت نے مذاکرات شروع کرنے کا اعلان کیا جس پر تحریک طالبان کے اہم کمانڈر ولی الرحمان نے مثبت ردعمل کا اظہار کیا۔

س دن اقتدار منتخب نمائندوں کو منتقل ہو رہا تھا اسی روز میران شاہ میں ہونے والے ڈرون حملے میں ولی الرحمان مارا گیا۔ اب ایک مرتبہ پھر پاکستانی حکومت اور کالعدم تحریک طالبان کے سربراہ حکیم اللہ محسود نے مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی ہے اور وزیرستان ڈرون حملوں سے گونجنے لگا۔کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کو امریکہ اس سے قبل بھی 3 مرتبہ ڈرون حملوں کا نشانہ بنا چکا ہے۔ 23 اگست 2009ء کو بیت اللہ محسود کے امریکی حملے میں مارے جانے کے بعد حکیم اللہ نے طالبان کی قیادت سنبھالی تھی۔ 2 نومبر 2009ء کو پاکستانی حکام نے حکیم اللہ محسود کے متعلق اطلاع دینے والے کیلئے 5 کروڑ روپے انعام کا اعلان کیا تھا۔

Hakimullah Mehsud

Hakimullah Mehsud

یکم ستمبر 2010ء کو امریکہ نے حکیم اللہ کو خصوصی عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کیا اور ایف بی آئی نے انکے سر کی قیمت 50 لاکھ ڈالر مقر کی ہوئی تھی۔ حکیم اللہ محسود کے نشانہ بننے کے بعد اب حکومت پاکستان طالبا ن کے ساتھ جو مذاکرات کرنے جا رہی تھی وہ کس سمت کو جائیں گے؟سوالیہ نشان بن چکا ہے کونکہ ماضی میں بھی طالبان نے اپنے کمانڈروں کے مرنے کے بعد مذاکرات سے انکار کر دیا تھا اور اس کے بدلے میں پاکستان کو انتقام کا نشانہ بنایا گیا۔ امریکہ بھی یہی چاہتا کہ پاکستان غیر مستحکم ہو۔ ڈرون حملوں کے نتیجے میں بم دھماکوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

تخریب کاری کی آگ بھڑک اٹھتی ہے جسے روکنا کسی کا بس میں نہیں ہوتا اور اس آگ کو لگانے والا”امریکا” ہے جس کے ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اتحادی بنے ہوئے ہیں اور اس جنگ میں ہمارا بہت نقصان ہو چکا ہے۔ 50 ہزار سے زائد لوگ اس جنگ کا نشانہ بنے جبکہ 90 ارب ڈالر اس جنگ میں جھونک دیئے گئے جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ پاکستان آج خود غیر محفوظ بن چکا ہے ایک طرف پاکستان میں مساجد، مدارس سمیت دیگر عبادت گاہیں، بازار محفوظ نہیں تو دوسری طرف امریکہ ہماری سالمیت کو روند رہا ہے۔ ڈرون حملوں کے ذریعہ پاکستان کی خود مختاری کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں دوسری طرف ملک کا دفاع کرنے والے حکمران ڈرون حملوں کی مذمت تو کر رہے ہیں لیکن انکو گرانے کا اعلان نہیں کیا جا رہا۔ایر چیف کہہ چکے ہیں کہ پاکستان ڈرون گرانے کی صلاحیت رکھتا ہے اب نواز شریف صاحب امریکی صدر اوباما کی بھی منت کر چکے ہیں کی ڈرون بند کئے جائیں مگر اس منت کے ایک ہفتے بعد ڈرون آنا شروع ہو گئے، جماعة الدعوة پاکستان نے ڈرون حملوں کے خلاف ملک گیر احتجاج بھی کیا لاہور، کراچی، اسلام آباد، ملتان، پشاور، کوئٹہ، مظفر آباد، رحیم یار خان، فیصل آباد، چکوال، شیخوپورہ سمیت ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے کئے گئے۔

جماعة الدعوة کے امیر پروفیسر حافظ محمد سعید نے ڈرون حملوں پر حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ عوام نے حکمرانوں کو ملک کے دفاع کا مینڈیٹ دیا ہے اگر وہ دفاع نہیں کر سکتے تو کرسی چھوڑ دیں ڈرون حملے پاکستان میں دہشت گردی کا باعث ہیں۔حکومت امریکہ سے صاف کہہ دے کہ وہ خطہ سے محفوظ انخلاء چاہتا ہے تو ڈرون حملے روک دے اور اگر اس کے باوجود ڈرون طیارے پاکستانی حدود میں گھستے ہیں تو انہیں گراد یاجائے گا۔ڈرون حملوں کے بعد حکومت کا امریکہ سے اب کوئی معاہدہ باقی نہیں رہا۔پہلے ڈرون حملہ کے بعد ہی امریکہ کے سٹریٹیجک پارٹنر ہونے کے تمام معاہدے ختم ہو گئے تھے۔ ان حملوں کے بعد نیٹو کا کوئی ٹرک پاکستان کی سڑکوں سے نہ گزرنے دیا جائے۔ صرف باتوں اور نعروں سے کچھ نہیں ہوتا۔ مرکزی حکومت ڈرون طیارے گرانے کا حکم دے اور نیٹو سپلائی بند کی جائے۔اگر ڈرون طیارے نہ گرائے تو قوم میں مایوسیاں پھیلیں گی۔ جماعة الدعوة ان شاء اللہ پورے ملک میں زبردست تحریک چلائے گی اور اس تحریک کو ملک کے کونے کونے میں منظم کیا جائے گا اور زبردست اتحاد قائم کر کے پاکستان کے دفاع کا فریضہ سرانجام دیں گے۔ امریکہ طالبان کے ساتھ حکومت پاکستان کے مذاکرات کو ناکام بنانا چاہتا ہے۔

پاکستان میں تخریب کاری، دہشت گردی کی لہر کو جاری رکھ کر انتقام کا نشانہ بنانا چاہتا ہے ۔انڈیا کے مقاصد پورے کرنے کے لئے امریکہ کردار ادا کر رہا ہے۔اوباما کے ڈرون حملے روکنے سے انکار کے بعد بھی اگر ڈرون نہیں گرائے جاتے تو یہ قومی سطح پر غفلت ہو گی۔ وزیر اعظم نواز شریف کی اوبامہ سے ملاقات کے بعد میران شاہ میں (ظفر ٹائون) کی شہری آباد پر ڈرون حملہ پاکستان کیلئے بہت بڑا جنگی چیلنج ہے اور پاکستان کیلئے پیغام ہے کہ ہمارے نزدیک تمہاری باتوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ امریکہ جماعتوں میں اختلافات چاہتا ہے۔ حکومت اس مسئلہ پرسب کو اکٹھا کرے اور متحدہو کر مضبوط آواز بلند کی جائے۔ تحریک انصاف نے بھی اعلان کیا ہے کہ اگر ڈرون مذاکرات میں رکاوٹ بنے تو نیٹو سپلائی بند کر دی جائیگی۔اب حکیم اللہ محسود کے نشانہ بننے کے بعد لگ رہا ہے کہ مذاکرات نہیں ہوں گے اور مذاکرات میں رخنہ ڈالنے والا امریکہ ہے تو ایسی صورتحال میں حکموت کو جراتمندانہ فیصلے کرنے چاہئے۔امریکہ کو ڈٹ کر جواب دینا چاہئے اب کوئی بھی ڈرون آئے تو اسے گرانا چاہئے اگر انڈیا کے ڈرون کو پاکستان واپس بھیج سکتا ہے تو امریکہ کے ڈرون کو کیوں نہیں؟پاکستانی قوم میں ڈرون حملوں کے حوالہ سے موجودہ حکومت کے صرف مذمتی بیانات سے مایوسیاں پھیل رہی ہیں عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ 24 اکتوبر کو کو لندن میں میڈیا سے گفتگو میں وزیراعظم نواز شریف نے اْمید ظاہر کی تھی کہ ”ڈرون حملوں کا سلسلہ اب رک جائے گا، وہ جو کہتے ہیں کرکے دکھاتے ہیں”۔ میرانشاہ میں ہونے والے ڈرون حملوں کے بعد یہ واضح ہو گیا ہے کہ امریکا ڈرون حملوں کی پالیسی پر نظر ثانی کو تیار نہیں اور پاکستانی حکام کے دعوے صرف دعوؤں سے بڑھ کر کچھ نہیں ہیں۔حکومت کو فیصلے کرنے ہوں گے ہمیں پاکستان محفوظ چاہئے۔پاکستان کا دفاع ضروری ہے۔دشمن نشانہ لگا کر بیٹھے ہیں ۔ڈرون گرانا امریکہ سے جنگ نہیں بلکہ پاکستان کا دفاع ہے تمام محب وطن پاکستانی میاں صاحب سے یہ توقع کئے بیٹھے ہیں کہ کب میاں صاحب ”شیر” بنیں گے اور ڈرون آئے گا تو سہی مگر واپس نہیں جا سکے گا۔

میاں صاحب شیر بنیں اور پاکستانی قوم جس نے آپ کو مینڈیٹ دیا اور وزارت عظمیٰ کی کرسی تک پہنچا دیا انکے جذبات کی لاج رکھیں اور پاکستان میں تخریب کاری و دہشت گردی کرنے و کروانے والوں سے دوستی کی بجائے ڈرون گرائیں۔

Mumtaz Awan

Mumtaz Awan

تحریر: ممتاز اعوان
برائے رابطہ :03215473472