اوباما روس کو سنگین نتائج کی دھمکیاں

Ukraine

Ukraine

1991 ء میں یوکرائن نے سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد اس سے علیحدگی اختیار کی تھی۔ ملک کی 46 ملین آبادی میں ایک تہائی روسی نڑاد ہے اور روس سے قریبی تعلق رکھتی ہے ۔ اس کے علاوہ خود مختاری کے بعد مشرقی اور جنوبی یوکرائن کے اقتصادی حالات پہلے کے مقابلے میں ابتر ہوئے ہیں۔ اس لئے یہاں پر آباد لوگ فطری طور پر سوویت یونین کے زمانے کو یاد کرتے ہیں۔ لیکن علیحدگی کے موجودہ رجحان کو ہوا دینے میں گزشتہ ایک دہائی کے دوران یورپین یونین کی حکمت عملی نے خاص طور پر اہم رول ادا کیا ہے۔

آزادی اور جمہوریت کے نام پر جرمنی اور دیگر مغربی ممالک نے یوکرائن میں روس مخالف تحریکوں کی حوصلہ افزائی کی۔ اس کے علاوہ وہ اس ملک کو اقتصادی لحاظ سے اپنی منڈی بنانے کی خواہش بھی رکھتے تھے ۔ تاہم یوکرائن کے سابق صدر وکٹریانو کووچ نے نومبر میں یورپین یونین کے ساتھ دو معاہدوں پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا اور روس کے ساتھ اقتصادی معاہدہ کر لیا تھا۔ اس اقدام کے بعد یوکرائن کے دارالحکومت کیف میں مظاہروں اور دھرنوں کا سلسلہ شروع ہؤا۔ ان مظاہروں کو مغربی ممالک کی اعانت اور سرپرستی حاصل تھی۔تاہم اس بات کا امکان نہیں ہے کہ یہ سیاسی اور سفارتی تصادم کسی مسلح جدوجہد کی شکل اختیار کرے گا۔ اگرچہ یوکرائن کی عبوری حکومت نے عام بھرتی کرنے اور اپنی فوجوں کو تیار رہنے کا حکم دے رکھا ہے لیکن وہ روسی افواج پر حملہ آور ہونے کے لئے آمادہ نہیں ہوں گی۔ یوکرائن کی فوجی صلاحیت روس کی فوج اور وسائل کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ نیٹو یا امریکہ بھی مسلح تصادم کے لئے یوکرائن کی حوصلہ افزائی پر تیار نہیں ہوں گے ۔ اس کے باوجود سیاسی و سفارتی طور پر اس معاملہ کو عالمی قانون پر حملہ اور یوکرائن کی خود مختاری کے خلاف قرار دیا جا رہا ہے۔

یوکرائن کے صوبے کرائمیا میں روس کے ساتھ الحاق کے لئے ہونے والے ریفرنڈم کے بعد امریکہ اور مغربی یورپ نے سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے ۔ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران صدر باراک اوباما روس کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دیتے رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان سرد جنگ کے بعد مغرب اور روس کے درمیان یہ سنگین ترین تصادم ہے ۔کرائمیا کی صوبائی اسمبلی نے فروری کے شروع میں یوکرائن میں حکومت کی تبدیلی کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال میں روس کی مدد طلب کی تھی۔ اس کے ساتھ ہی اسمبلی نے یوکرائن سے علیحدگی کا اعلان کر دیا تھا۔ اس دوران ہزاروں مسلح افراد نے کرائمیا کی عمارتوں ، اسمبلی اور دیگر سرکاری دفاتر پر قبضہ کر لیا تھا۔

مغربی ممالک کا مؤقف ہے کہ روس نے اپنی فوج کرائمیا میں بھیجی ہے ۔ تاہم روس نے مسلسل اس الزام کو مسترد کیا ہے ۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ مسلح فوجی دستے کرائمیا کے شہری رضا کار ہیں جو اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے مستعد ہوئے ہیں۔فروری کے دوران ہی ایک غیر معمولی قرارداد میں روس کی پارلیمنٹ نے روسی صدر کو کرائمیا پر حملہ کرنے اور فوجی مداخلت کی اجازت دے دی تھی۔ صدر پیوٹن نے البتہ فوج بھیجنے کا اعلان نہیں کیا تھا۔ انہوں نے یہ ضرور واضح کیا تھا کہ روس یوکرائن کے روسی بولنے والے باشندوں کے تحفظ کے لئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرے گا۔ اس دوران روس میں صدر پیوٹن کی مقبولیت میں زبردست اضافہ بھی ہؤا۔ مغربی مبصرین کے نزدیک روسی صدر اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے روس کا کھویا ہوا وقار بحال کرنا چاہتے ہیں۔تین ہفتے قبل کرائمیا کی حکومت نے 16 مارچ کو ریفرنڈم منعقد کروانے کا اعلان کیا تھا۔ اس ریفرنڈم کی دنیا بھر میں مخالفت کی گئی۔ امریکہ اور مغربی ممالک نے اسے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا اور روس کو مشورہ دیا کہ وہ اس غیر قانونی عمل کا حصہ نہ بنے ۔ مغربی اقوام کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایک علاقائی حکومت کی طرف سے اس قسم کے ریفرنڈم کا انعقاد یوکرائن کے آئین کی بھی خلاف ورزی ہے۔

Crimia Referendum

Crimia Referendum

تاہم کرائمیا کی حکومت یا روس نے ان دھمکیوں کی پرواہ کئے بغیر کل ریفرنڈم منعقد کروایا۔اس ریفرنڈم میں مغربی اخبارات کی قیاس آرائیوں کے برعکس 80 فیصد سے زائد لوگوں نے حصہ لیا اور حکومت کے اعلان کے مطابق 97 فیصد لوگوں نے کرائمیا کو روس کا حصہ بنانے کی حمایت کی ہے ۔ جبکہ 3 فیصد لوگوں نے دوسرے آپشن کے لئے ووٹ دیا جس میں کرائمیا یوکرائن کی فیڈریشن میں ایک خود مختار اکائی بن سکتا تھا۔ کرائمیا کی حکومت اس ریفرنڈم کے بعد باقاعدہ طور سے روس سے اس صوبے کو روس کا باقاعدہ حصہ تسلیم کرنے کی درخواست کر چکی ہے۔ البتہ روس کی طرف سے اس بارے میں کوئی مؤقف سامنے نہیں آیا ہے ۔صدر ولادیمیر پیوٹن کل قوم سے خطاب کریں گے ۔ جس میں وہ کرائمیا کے بارے میں اپنی حکمت عملی کا اعلان کریں گے ۔ صدر پیوٹن نے آج صدر باراک اوباما سے فوج پر رابطہ بھی کیا ہے اور یوکرائن کے ساتھ بات چیت کے آپشنز بھی کھلے رکھے ہیں۔ اس پر مغربی مبصرین یہ قیاس کر رہے ہیں کہ روسی صدر شاید کرائمیا کو روس کا صوبہ بنا کر مغرب اور امریکہ کو مزید مشتعل نہیں کریں گے۔ بلکہ اس کامیابی کو اپنی سیاسی و سفارتی پوزیشن مضبوط کرنے اور یوکرائن میں رسوخ بڑھانے کے لئے بروئے کار لائیں گے۔

اس دوران امریکہ اور یورپ کی طرف سے واویلا کرنے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ کرائمیا کے بعد روس کو مشرقی یوکرائن کے ان دیگر علاقوں پر قبضہ کرنے سے باز رکھا جا سکے جہاں روسی النسل لوگ آباد ہیں۔ روس اپنے طور پر یہ واضح کرتا رہا ہے کہ وہ کسی قسم کے توسیع پسندانہ عزائم نہیں رکھتا۔ لیکن مغربی ممالک اس بات کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اسی لئے ریفرنڈم کے نتائج سامنے آنے کے بعد امریکہ نے روس کے متعدد اعلیٰ افسروں اور یوکرائن کے سابق صدر پر سفری پابندیاں عائد کرنے کے علاوہ ان کے اکاونٹ بھی منجمد کرنے کا اعلان کیا ہے ۔یہ سطور لکھنے تک یورپین یونین کے ملکوں کا ردعمل صرف زبانی اعلانات اور بیانات تک محدود تھا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ہے کہ یونین میں شامل بیشتر ممالک کے روس کے ساتھ تجارتی روابطہ ہیں۔ اس لئے وہ روس کو براہ راست ناراض کرنے کا خطرہ مول لینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ یورپی مصنوعات کی برآمدات کے علاوہ جرمنی سمیت دیگر مغربی ممالک روسی گیس پر انحصار کرتے ہیں۔ اس لئے یورپ کو روس کے ساتھ معاملہ طے کرنے کے لئے نہایت سوچ بچار سے کام لینا ہو گا تا کہ معاملات مزید مشکل اور گنجلک نہ ہو جائیں۔

فروری کے شروع میں یہ مظاہرے اچانک خوں ریز ہو گئے اور دو دنوں میں ایک سو سے زائد لوگ مارے گئے جن میں 2 درجن کے قریب پولیس کے اہلکار بھی شامل تھے۔ اس صورتحال میں یورپ اور روس کی مداخلت سے ایک معاہدہ طے پایا جس کے تحت صدر یانوکووچ نئے انتخابات کروانے اور صدارتی اختیارات محدود کرنے پر آمادہ ہو گئے تھے۔ تاہم صدر کے مخالفین کو پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل ہو چکی تھی۔ اس لئے پارلیمنٹ نے صدر یانوکووچ سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر دیا۔ اس موقع پر یورپ جان بوجھ کر خاموش تماشائی بنا رہا۔ صدر یانوکووچ کو ملک سے فرار ہو کر روس میں پناہ لینا پڑی۔ جس کے بعد روس کے زیر اثر کرائمیا میں روس نواز قوتوں نے علیحدگی کا اعلان کر دیا۔
یہ صورتحال مغربی ممالک کی طرف سے مسلسل غلط پالیسیوں کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہے۔ یورپین یونین یوکرائن کی مارکیٹ تو حاصل کرنا چاہتی ہے لیکن اس کو اپنی یونین میں شامل کرنے اور اس ملک کے 45 ملین غریب لوگوں کی کفالت کرنے کے لئے تیار نہیں ہے ۔ اسی طرح نیٹو ممالک روس کی توسیع پسندی پر شور و غل تو مچا رہے ہیں لیکن آگے بڑھ کر یوکرائن کی امداد کا اعلان کرنے سے قاصر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صدر پیوٹن نے سیاسی اور سفارتی کامیابی حاصل کی ہے۔

اب اس مسئلہ کا قابل قبول حل تلاش کرنے اور یوکرائن کی سلامتی کو برقرار رکھنے کے لئے یورپ کو اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کرتے ہوئے اپنی غلطیوں کا ادراک کرنے کی ضرورت ہے ۔ وہ اگر روس سے یوکرائن میں مداخلت نہ کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں تو انہیں خود بھی یوکرائن میں مغرب نواز سیاسی حلقوں کی سرپرستی سے باز رہنا چاہئے ۔ ان حالات میں مناسب ہو گا کہ روس ہی نہیں مغربی ممالک بھی نعرے بازی اور الزام تراشی کی بجائے مصالحت کا راستہ اختیار کریں اور یوکرائن کے لوگوں کو آپس میں مل کر اپنے ملک کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کی آزادی دیں ۔ بصورت دیگر یورپ اور امریکہ مل کر روس کو مشرقی یوکرائن میں پاوں جمانے اور اپنی قوت اور اثر و رسوخ میں اضافہ کرنے سے نہیں روک سکتے۔

Arif Nonari

Arif Nonari

تحریر:سیدعارف نوناری