اوباما شام فوج بھیج کر وہاں کی خانہ جنگی میں الجھنا نہیں چاہتے: جان کیری

John Kerry

John Kerry

واشنگٹن (جیوڈیسک) امریکی وزیر دفاع کہتے ہیں کہ سعودی عرب، ترکی اور فرانس سمیت کئی ممالک شام پر امریکی حملے کے حامی ہیں۔ وزیر خارجہ جان کیری کا کہنا ہے کہ دمشق کیخلاف کارروائی نہ کی تو ایران اور شمالی کوریا کو غلط پیغام جائے گا۔ واشنگٹن میں شام کی صورت حال پر غور کیلئے سینیٹ کی خارجہ امور کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں وزیر خارجہ جان کیری اور وزیر دفاع چک ہیگل نے ارکان کو بریفنگ دی۔

جان کیری کا کہنا تھا کہ اگر امریکا شام کیخلاف فوجی کارروائی کرنے میں ناکام رہا تو ایران، حزب اللہ اور امریکا کے دیگر دشمنوں کو خطر ناک پیغام ملے گا یا کم از کم وہ امریکی عزائم کا غلط مطلب نکال سکتے ہیں۔ انھوں نے واضح کیا کہ صدر اوباما کا ایسا کوئی ارادہ نہیں کہ امریکی بری فوج شام میں داخل ہو کر وہاں کی خانہ جنگی میں الجھے۔ انھوں نے کانگریس سے بشارالاسد کی کیمیائی ہتھیاروں کی صلاحیت کو کم کرنے اور اس کے استعمال سے باز رکھنے کا اختیار مانگا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ کی تقریرکے دوران مظاہرین نے ہنگامہ آرائی بھی کی، ان کا کہنا تھا کہ امریکا کونئی جنگ شروع نہیں کرنی چاہیے۔

اجلاس کو بریفنگ میں چیرمین آف جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارٹن ڈیمسی نے بھی جان کیری کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ شام پرحملہ حکومت کی تبدیلی نہیں بلکہ بشارالاسد کی کیمیاوی حملوں کی صلاحیت کو گھٹانا ہوگا۔ وزیر دفاع چک ہیگل نے دعوی کیا کہ فرانس، ترکی، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سمیت کئی اتحادی ممالک شام کیخلاف کسی بھی قسم کی فوجی کارروائی کی حمایت کیلئے تیار ہیں۔

دوسری جانب امریکی تھنک ٹینک پیوریسرچ سینٹر کی جانب سے کرائے گئے سروے میں اڑتالیس فیصد امریکیوں نے شام پر فضائی حملے کی مخالفت کی ہے جبکہ انتیس فیصد افراد نے حمایت کی۔ ایک امریکی ٹی وی کے سروے میں دس میں سے چھ امریکیوں نے میزائل حملوں کی مخالفت کی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کی مبینہ کیمیائی حملے پر رپورٹ غیر جانبدار ہوگی۔ شام پر فوجی کارروائی اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق ہونا چاہیے۔