تحریر :منشاء فریدی سماج کی سوچ پر چلوں کہ سماج کیلئے کوئی مثبت فکر عام کرنے کا مشن جاری رکھوں جس پر کہ معاشرہ اپنی سمت کا تعین کر سکے ۔۔۔؟ لیکن یہ تو وہی کام ہے جو برسوں سے جاری ہے۔۔۔ جس کے تحت میری کوشش رہی ہے کہ اجتماعی شعور جاگ پڑے ۔۔۔۔۔ اس بیداری میں ہر وہ منافقت اپنی موت آپ مر جائے جو معاشرتی بگاڑ کا باعث ہے ۔۔۔۔۔ یہی انتشار اور سوچوں میں خلل ہی ہے جو امن کے گھر کو مستقل جنگ میں تبدیل کیے ہوئے ہے۔ بقول شاعر : ” خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے ”
اب یہ درد جو شاعر کے دل میں تھا میرے قلب و جگر میں مستقل بنیادوں پر گھر کر چکا ہے کہ لوگ بیچارے بطور گدھا ” بارداری” کے کام آرہے ہیں اور خوبصورت انداز میں اپنے فرائض منصبی سر انجام دے رہے ہیں ۔۔۔ مجال ہے کہ یہ گدھے اطاعت سے انکار کریں ۔۔۔ ۔۔ ان کے فرائض میں شامل عجز و انکساری کے ساتھ اپنے فرائض کی انجام دہی ۔۔۔۔! اسی سبب یہ لوگ بڑے بڑے ذاتی مفادات حاصل کرتے ہیں ۔۔۔۔ ان کے مفادات بھی کیا مفادات ہیں ۔۔۔ ؟ اپنے اپنے گھر کے سامنے والی نالی کی صفائی محض ان لوگوں کے مفادات اور خواب ہیں ۔۔ جو کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتے ۔۔۔ اسی تعبیر کیلئے یہ بیچارے خواب در خواب دیکھتے رہتے ہیں ۔۔۔ یعنی ۔۔۔ خواب دیکھنا بھی ان کے نزدیک بہت بڑ کار نامہ ہے ۔۔۔ با قیوں کو تو یہ بھی نصیب نہیں ۔۔۔ کہ ۔۔۔ و ہ کوئی ایسا خواب دیکھ سکیں ۔۔۔ جس میں ان گدھوں کو دو وقت کا چارہ نصیب ہو ۔۔۔ میرا مقصد یہ ہر گز نہیں کہ پاکستانی عوام کی تذلیل و تحقیر ہو ۔۔۔ یہ تنقید ہے ۔۔۔ جو ایسے نظام پر کی جارہی ہے ۔۔ جس میں غریب پر عرصہ حیات تنگ ہے ۔۔۔ اسے جینے کا حق نہیں دیا جا رہا
Feeling
اور نہ ہی وہ زندگی کا حق چھین سکتا ہے یہاں کا طاقتور طبقہ غاصب کی شکل اختیار کر چکا ہے اور بھیڑ یے کے روپ میں کمزور اور نحیف ور لاغر جانوروں کا شکار کر کے ۔۔۔ اسے چیر پھاڑ کھا رہا ہے اس کے باجود بھی یہ کمزور جانور نما انسان ( فر مانبردارگدھا ) بغاوت پر آمادہ نہیں ہو رہا ۔۔۔ شاید اس کی نفسیات میں خوف گھر کر چکا ہے ۔۔۔ ورنہ خوف ایک بے وجود سے احساس کا نام ہے ۔۔۔ یہ نہ ہی کسی کو کو ئی نقصان پہنچا سکتا ہے ۔۔۔ اور ۔۔۔۔ نہ ہی کوئی فائدہ ۔۔۔۔! تو پھر اس امید پر کہ کسی غاصب طاقت کے خلاف آواز بغاوت کوئی نقصان کا باعث بنے گی ۔ اپنے اندر احساس بیداری پیدا نہ کرنا میرے تجربات و مشاہدات اور نظریات کی روشنی میں احساس بزدلی ہے ۔۔۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ طاقتور طبقہ کبھی نہیں چاہے گا کہ کمزور لوگ یعنی جو اس کیلئے زندگی کا سامان ہیں شعوری سطح پر ترقی کے مدارج طے کریں ۔ ۔۔۔! تعجب ہے جا گیر داروں پر ۔۔۔جو ۔۔۔ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ۔۔۔ خدائی وسائل ان کے قبضہ ٔ قدرت میں ہیں ۔۔۔جبکہ۔۔۔ ان کی قدرت کا کوئی وجود ہی نہیں ۔۔۔ ان کی اپنی سانسیں جسم اور روح ان کی قدرت وطاقت میں نہیں ہیں ۔۔۔ خاک کوئی دعویٰ کریں گے ۔۔۔ ؟ اس طرح کہ کھوکھلے دعوے اس وقت جھٹلائے جائیں گے ۔۔۔ جب بار برداری کیلئے کام آنے والے جانور ( گدھے) اپنے احساس اور فکر سے ”خوف” نام کا عنصر نکال دیں گے ۔۔۔!
دوستو ں کا کہنا ہے کہ منشاء فریدی صاحب اپنے کالموں میں منطقی استدلال کی بجائے حالت حاضرہ یا ان مو ضوعات پر لکھو جس سے خاطر خواہ نتائج اخذ ہوں ،، ان دلائل پر میرا جواب محض یہ ہوتا ہے کہ یار ! حالات حاضرہ پر تو لکھنے کا عمل جاری رکھے ہوئے ہوں ۔۔۔ اب آپ کالم ہٰذا کو دیکھ لیں ۔۔۔ اس میں بھلا وہ کون سی بات ہے ۔۔۔جو ۔۔۔یہ ثابت کرے کہ یہ مضمون / کالم حالات حضرہ سے ہٹ کر ہے ۔۔۔ٰ! حالات حاضرہ کی روشنی میں نظر آرہا ہے کہ بے چارے عوام فر مانبردار گدھے ہی تو ہیں جو ساری زندگی بار برداری کے طور پر ہی استعمال ہوتے ہیں۔ اب اگر یہی احساس غلامی اسی طرح ان بے چارے گدھوں کے دلوں اور احساس میں رہا تو کیا ممکن ہے کہ تبدیلی احساس ہو؟ نسل نو اس ضمن میں اپنا اپنا فریضہ سر انجام دے رہی ہے لیکن گزشتہ ذہن سازی ہے۔ کہ بدلنے کا نام نہیں لے رہی اب ان کیلئے ” فر مانبردار گدھے” کی اصلاح ہی سوفیصد درست ہے۔ بے چارے عوام جو ہوئے۔!