مبصریا تجزیہ نگار کا غیر جانبدار ہونا شرط ہے

Pakistan

Pakistan

میرا تعلق کسی ادارے ،سیاسی جماعت یا کسی شخصیت سے نہیں کہ میں اُس کا قصیدہ لکھوں ، اور کسی سے زاتی بنا پر نفرت ہے کہ ہجو لکھوں ،میرا مطالع روز مرہ کے زمینی حقائق جن سے میری براہ راست تعلق…!. ١٩٦٣ میں چند مضامین گمنانی میں روزنامہ امروز مرحوم میں شائع ہوئے جبکہ باقائدہ پہلامضمون ٢٩ جنوری ١٩٧٠ روزنامہ ندائے ملت ،لاہور میں شائع ہوأ ، ٩٠ کی دہائی میں لاہور کے تمام قومی اخبارات،میں بحثیت آزاد صحافی میری تحریریں موجود ہیں لیکن گمنام رہا ، تب ہاتھ سے لکھی تحریر پڑھی جاتی او ر پھر نام دیکھا جاتا ،مگر آج کمپوز تحریر پر پہلے نام دیکھا جاتا ہے یہ نہیں کہ کیا لکھا۔

ر بعہ صدی قبل جب کسی اخبار کے دفتر میں کسی سے خصوصاً ایڈیٹر سے ملنے میںکے لئے بھی آج کی طرح کوئی رکاوٹ نہیں تھی ،راستے میں کسی کو انٹر ویو د ینے کی ضرورت نہ تھی ،اُس زمانے میں بلا روک ٹوک جناب مجید نظامی صاحب سے بھی مل لیاکرتا تھا ،لیکن آج وہ زمانہ اک خواب ہے ،جب جنگ کے دفتر میں مرحوم و مغفور ارشاد احمد حقانی،اور جناب میر شکیل الراحمن،سے بھی ملنے میں کوئی امر مانع نہیں تھا۔، صرف ایک ہی شخصیت روز نامہ مشرق کے چیف ایڈیٹر مرحوم و مغفور عزیز مظہر اُ ن کے ساتھ اُن کے آخری وقت تک یاد اللہ رہی وہ شفیق اور محبت کرنے والے عظیم انسان تھے ٢٠٠٧ میں جب وہ حیات ابدی کے لئے سو گئے۔

مجھے شدید دھچکا لگا کہ انسان دوست محبت کرنے والے شفیق دوست سے محروم ہو گیااور یہ خلا آج بھی ہے..، اِس تمہید کا مطلب یہ ہے کہ ،میرا کوئی حلقہ احباب نہ تھا اور نہ ہے کسی سیاسی شخصیت سے اور نہ کسی پارٹی سے کوئی تعلق ، اسی لئے نصف صدی گمنامی میں گزر رہی ہے ۔آج ہی نہیں کل بھی ملک میں رائج جمہوریت اور آمریت زیر بحث تھی،مگر آج کل تو جناب عمران خان اور جناب ڈاکٹر طاہر القادری کے آنے سے جمہوریت کچھ زیادہ ہی زیر بحث ہے جو ن لیگ کے حامی یا حمائتی ہیں اُن کا سارا زور اِس پر ہے کہ ملک میں سیاست دان یا سیاسی جماعت صرف ن لیگ ہے جو ملک کو مسائل کی دلدل سے نکال سکتی ہے۔

جو پی پی پی کے حمائتی اور حامی ہیں اُن کا زور آج بھی اس پر کہ پی پی پی اب بھی ملک کے لئے ناگزیر ہے وہ آنکھیں بند کر کے لکھتے ہیں جبکہ مہنگائی اپنی انتہا کو پہنچ دی کہ آٹا جو غریب کی بنیادی ضرورت ہے جو اِس عہد میں ١٣ سے ٤٠ روپئے کلوتک، ملک اندھیرے میں ڈوبا ہے معیشت تباہ ہے ،اور جاتے جاتے پٹرولیم مصنوعات میں چار سے پانچ روپئے لیٹر کا اضافہ کر دیا پھر بھی پی پی پی کے گُن گا رہے ہیں جو، ق لیگ کے حامی و حمائتی ہیں وہ اسی کے قصیدے لکھ رہے ہیں اور پی ٹی آئی کے حامی بعض تجزیہ نگاراور خصوصاًملک کے نامی گرامی کالم نگار،کے تجزیہ کی تان میاںبردارن پر ٹوٹتی بلکہ وہ ان پر برستے ہیں۔

Politicians Pakistan

Politicians Pakistan

خان صاحب کی تعریف میں زمین و آسمان ایک کر رہے ہیں بے شک ان دونوں کے علاوہ اب تیسری قوت آئے، مگر خان صاحب کے صاتھ تو سب پی پی پی ،ن لیگ اور ق لیگ سے آئے پرانے گھاگ سیاست دان ہیں کیا یہ لوگ پی ٹی آئی میں آ کر فرشتے بن گئے ۔، حد سے بڑھ کر تعریف نے کسی حد تک سچائی کو بھی گہنا دیا ہے،اُن کے لکھے گئے قصیدے نے مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا ،کے اُس قصیدے میں ن لیگ سے نفرت کا شدید اظہار تھا ،جس میںحب علی نہیں بغض معاویہ کی جھلک تھی،ضرورت ہے کہ عوام کی زہنی تربیت کی جائے ،جس میں نہ تو کسی سے نفرت اور نہ محبت ، بلکہ غیرجانبداری نمایاں اور واضح ہو،اور فیصلہ عوام پر چھوڑ دیا جائے۔

ایک وقت تھا جب اخبار اور اخبار نویس کا غیر جانبدار ہونا شرط اول تھی اگر کسی تجزیہ نگاراورمبصرکا جھکاؤکسی ادارے،سیاسی جماعت ،برادری،یاکسی شخصیت کی طرف ہو تو ،اُس سے غیر جانبدارانہ تجزیہ کی توقع نہیں کی جا سکتی ،بلکہ خود کو دھوکا دینا ہے۔لیکن آج کوئی ایک بھی اخبار یا اخباری کارکن،اور تجزیہ نگار ایسا نہیں کہ اُس کا کسی طرف جھکاؤ نہ ہو۔ اب کسی سیاسی پارٹی،یا شخصیت، اُس کے منشور کے ساتھ تعلق بحثیت ووٹر فطری ہے،اور اگر یہ تعلق ووٹر کی حد تک اور تعریف ہو تو اِس کے دوسروں تک مثبت نتائج نکلتے ہیں۔

اگریہ تعریف اپنی حدود سے آگے بڑھ جاتی ہے تو پھر اِس میں ملاوٹ واضح نظر آتی ہے ،میری اپنی رائے،ووٹر کی حد تک اب تیسری پارٹی کی طرف تھی ،مگر جس اندازاور جِس طرح اُس کی تریف کی جا رہی ہے اِس میں ملاوٹ واضح ہو ر ہی۔ کیوںکہ ہمارے یہاں زہر بھی ملاوٹ سے پاک نہیں اور ملک ملاوٹ میں خود کفیل بھی۔ ،غور کریں میٹرو بس منصوبہ قابل تعریف ہے مگر جس انداز میں تجزیہ نگار تعریف کر رہے ہیں میں بھی ملاوٹ واضح نظر آرہی ہے ،جہاں مثبت ہے وہاں منفی اِس کی شناخت کے لئے موجود ہے اگر تو عوام کی سفری سہولت کے کئے لئے سنجیدہ ہوتے تو پی آر ٹی سی کو تالا نہ لگاتے۔

Nawaz Sharif

Nawaz Sharif

مگر جب ضیاء مارشل لاء میں میاں نواز شریف وزیرخزانہ پنجاب تھے ،تو اُس وقت کروڑوں کی سبسیڈی روک دی گئی (لیکن آج محض میٹرو بس ٹریک پے ٣٠ ،ارب لگا دئے مگر اُس وقت پی آر ٹی سی کو ٣٠ کروڑ نہ دئے، ١٤ ہزار کارکنوں کو بے روزگار کردیا اِس کے کیا معنی …)مرگز میں بھی اِس کا واجب الادا حصہ نہ دیا گیا ،اور آخر ٩٧ء میں اسے تالا لگا دیا ،اِس کا کیا مطلب تھاکسی تجزیہ نگا ر نے اِس پرا ظہار نہیں کیا،اِس منصوبہ کی حقیقی تعریف تو آنے والا کل کرے گا۔کل میں بھی جناب مرحوم زلفقار علی بھٹو کا معتقد تھا لیکن وقت نے میری سوچ بدل دی۔

اگر بھٹو اپنے منشور اور نعرہ جو دیا کے ساتھ سنجیدہ ہوتے توآج بھی وہ ملک کے لئے نا گزیر ہوتے ،اسلامی سوشلزم کا نعرہ تو لگایا مگر اُسے نافذ کرنے میں غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ، کرپٹ نظام نے ا ُس سے انتقام لیا،اور آج بھی پی پی پی اُس منشور اور نعرہ کے
ساتھ سنجیدہ نہیں ،بلکہ کوئی جماعت بھی اپنے منشور اور نعرہ کے ساتھ سنجیدہ نہیں،سوائے سبز باغ جو بے وقو ف عوام کو صبح شام دکھایا جاتا ہے ،کل وقت یہ بتائے گا کہ عمران خان صاحب کہاں تک اپنے منشور و نعرہ کے ساتھ کمیٹڈاور سنجیدہ ہیں۔

آج جس طرح سیاست اور سیاستدان زیر بحث ہیں،پورے ملک میں ، اورالیکٹرانک میڈیا پر سیاسی طوفان ہے، جگہ جگہ مداری تماشہ ہو رہا ہے بچارا عام آدمی تذبذب کا شکار ہے اور کچھ بھی سمجھ نہیں پا رہا کہ وہ کس طرف جائے کون اُس کے مسائل حل کرے گا تجزیہ نگار اور مبصرین کی ڈیمانڈ تو بڑی بڑی ہونگی مگر عوام کی دیمانڈ تو تو بہت سادہ اور معمولی نوعیت کی ہیں اور تجزیہ نگا ر اپنی پسند کی جماعت اور لیڈر کے متعلق لکھتے ہیں کہ مسائل کے حل کی چابی صرف اور صرف اس کے پاس ہے آؤ اور آزماؤ،، اِ ن آوازوں میں زرد صحافت کی مہک کہہ لیں بشدت آرہی ہے ،زرہ سوج بوجھ رکھنے والا ووٹربھی تذبزب کا شکار ہے۔

Badar Sarhadi

Badar Sarhadi

تحریر : بدرسرحدی