” اس پر فٹ بال کا جنون ہر وقت طاری رہتا ہے”۔ ” اس کو جوتوں کا حد سے زیادہ شوق ہے”۔ “وہ لازماً جھوٹ بولتا رہتا ہے”۔ ہم یہ الفاظ ان لوگوں کے لئے استعمال کرتے ہیں جو کچھ عادات یا حرکات باربار کرتے رہتے ہیں، حالانکہ دوسروں کو ان کے اس رویے کی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔عام طور سے یہ عادت مسئلہ نہیں بنتی اور کچھ کاموں میں یہ مددگار بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ مگر، کسی کام کو بار بار کرنے کا یا کسی سوچ کو بار بار دماغ میں لانے کا تقاضہ زندگی پہ تکلیف دہ حد تک حاوی بھی ہو سکتا ہے۔
اگر :
آپ کے ذہن میں تکلیف دہ خیالات بار بار آتے ہیں، حالانکہ آپ کوشش کرتے ہیں کہ یہ خیالات آپ کے دماغ میں نہ آئیں، یا
آپ کے دل میں بار بار تقاضہ ہوتا ہے کہ آپ کسی چیز کو بار بار چھوئیں، چیزوں کو بار بار گنتے رہیں، یا کسی کام کو بار بار کریں مثلاً ہاتھ بہت بار دھوئیں ، تو آپ کو آبسیسو کمپلسیو ڈس آرڈر (او سی ڈی) ہو سکتا ہے۔
او سی ڈی کے مریضوں کو کیسا محسوس ہوتا ہے؟
(عائشہ) “مجھے ڈر لگتا رہتا ہے کہ مجھے دوسروں سے کوئی بیماری لگ جائے گی ۔ میں گھنٹوں اپنے گھر کو بلیچ سے صاف کرتی رہتی ہوں تاکہ جراثیم مر جائیں ، اور اپنے ہاتھ دن میں بہت دفعہ دھوتی ہوں۔ میں کوشش کرتی ہوں کہ کسی بھی کام کے لیے مجھے گھر سے باہر نہ جانا پڑے۔ جب میرے میاں اور بچے گھر آ جاتے ہیں ، تو میں ان کے جوتے گھر میں داخل ہونے سے پہلے ہی اتروا دیتی ہوں۔ میں ان سے تفصیل سے پوچتی ہوں کہ وہ کہاں کہاں گئے تاکہ پتہ چلے کہ کہیں وہ کسی گندی جگہ مثلاً اسپتال وغیرہ تو نہیں گئے تھے۔ میں ان کو گھر آنے کے بعد مجبور کرتی ہوں کہ وہ فوراً کپڑے بدلیں اور اچھی طرح نہائیں۔ مجھے احساس بھی ہوتا ہے کہ کہ میرے یہ اوہام احمقانہ ہیں۔ میرے گھر والے اس عادت سے تنگ آ چکے ہیں، مگر میں اتنے عرصے سے یہ سب کچھ کر رہی ہوں کہ میں اب اپنے آپ کو روک نہیں سکتی۔