تحریر: سید انور محمود بھارت کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہروسے لیکر موجودہ بھارتی وزیراعظم نریندرمودی تک کے دماغوں میں صرف ایک بات رہی ہے کہ ہم نے پاکستان کو تسلیم نہیں کرنا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان آزادی کے بعد سے بہت سے مسائل ایسے رہے ہیں جس کی وجہ سے پاک بھارت کشیدگی مسلسل چلی آ رہی ہے اور کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ دونوں ملکوں نے ایک دوسرئے کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہو، دونوں ممالک کے درمیان سب سے بڑا مسئلہ بھارت کا مقبوضہ کشمیر پرناجائز قبضہ ہے۔ کشمیری عوام ہمیشہ سے بھارت سے آزاد ہوکر پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے لیکن بھارت جو اپنے آپ کو جمہوریت کا چیمپین کہتا ہے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرنے کو تیار نہیں۔ تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی نہتے کشمیریوں کے خلاف ظلم و ستم کی کارروائیاں جاری ہیں۔ بھارت کشمیری عوام کے جمہوری فیصلے کو تسلیم کرنے کے بجائے اپنی سات لاکھ فوج کشمیر میں رکھ کرمقبوضہ کشمیر کے لوگوں پر صبح و شام ظلم ڈھارہا ہے۔ 1989 سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں آزادی کی نئی لہر شروع ہوئی ، مقبوضہ کشمیر کے عوام اپنی آزادی کےلیے قابض بھارتی فوجیوں سے مسلسل لڑرہے ہیں جس کی وجہ سے قابض بھارتی فوج کی کاررائیوں کے نتیجے میں ابتک 70 ہزار سے زائد کشمیری جاں بحق ہو چکے ہیں۔
گزشتہ برس آٹھ جولائی کو حریت پسند نوجوان برہان الدین وانی کی بھارتی فوجیوں کی گولیوں سے شہادت کے بعد سے بھارتی کشمیر میں حالات پہلے سے بہت زیادہ کشیدہ ہیں۔ برہان وانی کا تعلق ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ خاندان سے تھا، اس کے والد ایک سرکاری اسکول میں استاد ہیں۔ برہان وانی کی شہادت کے بعد سے شروع ہونے والے مظاہروں کا سلسلہ کسی نہ کسی شکل میں ایک سال سے ابتک جاری ہے، گذشتہ ایک سال میں 133 افراد ہلاک اور 20 ہزار زخمی ہوگئے۔ زخمیوں میں 1247 ایسے ہیں جن کی آنکھوں میں آہنی چھرے یعنی پیلیٹس لگی ہیں۔ پانچ ہزار افراد کو گرفتار کیا گیا جن میں سے 300 کو سنگین الزامات کے تحت جیل بھیج دیا گیا۔اس عرصے میں عوامی احتجاج کی شدت میں زبردست اضافہ ہوا۔ نئی دہلی مخالف مظاہروں کے علاوہ حریت پسندوں اور بھارتی فوج کے مابین تصادم میں کئی سو افراد مارے جاچکے ہیں جبکہ ہزاروں افراد گولیوں اور چھروں سے زخمی ہوگئے ہیں۔ احتجاجی لہر کے دوران کشمیر کے اسکولوں اور کالجوں کے طلبہ و طالبات بھی سرگرم ہوگئے اور کئی ماہ سے وہ بھارت مخالف احتجاج کررہے ہیں۔ حکومت اکثر اوقات اسکولوں اور کالجوں کو بند رکھنے کا اعلان کرتی ہے۔
کشمیر میں احتجاجی تحریک کوایک بار پھر عوامی قبولیت حاصل ہوگئی ہے اور لوگ اسے اہمیت دے رہے ہیں۔ سیاسی سطح پر بھارت نواز خیمے کی عوامی ساکھ تقریباً ختم ہوچکی ہے۔ اپریل میں سری نگر میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں صرف سات فیصد لوگوں کا ووٹ ڈالنا اس امر کا آئینہ دار ہے کہ کشمیری عوام اب بھارت سے چھٹکارا چاہتے ہیں، اب تمام احتجاجی گروپ ایک ہی چھتری کے نیچے جمع ہوگئے ہیں۔ لوگوں کے دل سے موت کا خوف نکل گیا ہے اور وہ مسلح افواج کے سامنے حیران کن طریقے سے احتجاج کرتے ہیں، اور ہر ایسے واقعہ میں ہلاکتیں ہوتی ہیں اور اگلی بار پھر یہی ماحول ہوتا ہے۔ایک طرف آزادی کے لیےاحتجاجی تحریک چل رہی ہےتو دوسری طرف سے کشمیروں کو بھارتی حکمرانوں کی طرف سے متعصب اورشرانگیز پیغامات دیے جارہے ہیں، مثال کے طور پر حال ہی میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے جنرل سیکریٹری رام مدہاو کی طرف سے یہ بیان سامنے آیا کہ اگر حکومت کشمیر کے لوگوں کے خلاف ہوتی تو وہ وادی کے لوگوں کو گلا گھونٹ سکتی تھی۔ اس بیان پر بہت سے مقامی لوگ نے کہا تھا کہ یہ حکومت کے غرور اور تکبر کی عکاسی کرتا ہے۔ 2 اپریل2017کو بھارتی وزیراعظم نریندرمودی نے مقبوضہ کشمیر میں ایک ہائی وے سرنگ کا افتتاح کرتے ہوئے کشمیری نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ ’’ٹیررازم یعنی دہشتگردی کی بجائے ٹُورازم یعنی سیاحت اور ترقی کو چُنیں‘‘۔کشمیریوں کی اکثریت نے مودی کے اس بیان کو کشمیریوں کی ایک طویل جدوجہد کے مذاق اڑانے کے مترادف قرار دیا۔
بھارت کی سول سوسائٹی کے کچھ ارکان کا خیال ہے کہ کشمیر میں گڑ بڑ کی ذمہ داری اسلام آباد پر عائد کر کے نئی دہلی خود کو بے قصور نہیں ٹھہرا سکتا۔ شہری حقوق کی متعدد تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو چاہیے کہ وہ وادی میں تعینات فوج کی تعداد کو کم کریں اور وہاں کے مقامی افراد کو اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے دیں۔کشمیری نوجوان جو شدید احساس محرومی کا شکار ہیں اور کسی حد تک بے پرواہ بھی وہ اب انڈیا کے خلاف علیحدگی کی تحریک کی قیادت کر رہے ہیں۔ کشمیر میں کُل آبادی کا 30 فیصد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے جن کی اکثریت شدید غم و غصے اور ابہام کا شکار ہیں۔ مبصرین کہتے ہیں کہ اس احتجاجی لہر کے دو پہلو ہیں، کشمیر اور نئی دلی۔ جہاں کشمیر میں حریت پسندوں کا موقف سخت ہوگیا ہے وہیں انڈین حکومت بھی کسی طرح کی رعایت دینے پر آمادہ نہیں ہے۔ ایک ڈیڈ لاک ہے اور اس ڈیڈ لاک کو یوں ہی جاری رہنے دیا گیا تو علیحدگی پسند رہنما یٰسین ملک کے بقول پھر کشمیر کو شام بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
آج آٹھ جولائی 2017 ہے اور مقبوضہ کشمیر میں برہان وانی شہید کی پہلی برسی منائی جارہی ہے، سری نگر اور جنوبی کشمیر میں کرفیو نافذ ہے، انٹر نیٹ کی سہولیات بھی بند کردی گئی ہیں، پوری وادی میں پاکستانی پرچم لہرارہے ہیں۔کشمیری حریت قیادت نے 7 سے 13 جولائی تک ہفتہ شہادت منانے کا اعلان کیا ہے،برہان وانی کے آبائی گاؤں ترال کی جانب آج مارچ کیا جائے گا۔ لیکن اس سے پہلے ہی بھارتی فورسز نے اس موقع پر احتجاج روکنے کے لیے گرفتاریاں شروع کردی ہیں۔حال ہی میں نریندر مودی کے دوروزہ امریکی دورئے سے قبل ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت نے کشمیری حریت پسند رہنما سید صلاح الدین کو عالمی دہشتگرد قرار دیدیا، تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا صلاح الدین کو عالمی دہشتگرد قرار دینا دراصل نریندر مودی کو خوش کرنا ہے۔ امریکہ کے اس غلط فیصلے کے بعد کشمیر کے لیے امریکہ کی حمایت حاصل کرنا اب ناممکن ہے۔ پاکستانی دفتر خارجہ نے حزب المجاہدین کے سپریم کمانڈر اور متحدہ جہاد کونسل کے سربراہ سید صلاح الدین پر امریکی پابندی کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ کشمیر کے حریت پسندوں کو دہشتگر د قرار دینا منظور نہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کی حکومت امریکہ حکومت کے فیصلے کو بلواسطہ تسلیم کرچکی ہے۔
کیا اب ہمیں بھارت کے سامنے بھی جھکنا پڑے گا؟ یہ سوال آج ہر پاکستانی کے ذہن میں ہے۔مانا کہ نواز شریف اور ان کی حکومت پانامہ لیکس کی وجہ سے بہت دباو میں ہیں لیکن کیا بھارت کے دباو میں بھی آنا ضروری ہے، ہر گز نہیں ، اگر نواز شریف حکومت نے اب بھی اپنی سوچ نہ بدلی تو بھارتی افواج کےمظالم اس قدر بڑھ جاینگےکہ مظلوم کشمیریوں کا جینا بہت مشکل ہوجایگا۔انسانیت کے ناطے کسی بھی پاکستانی کو بھارت سے دوستی پر اعتراض نہیں ہے لیکن کس قیمت پر۔ دوستی ضرور کرینگے لیکن پہلے مسئلہ کشمیرکو حل ہونا چاہیے۔