تحریر : مقصود انجم کمبوہ تنازعہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی سینکڑوں قراردادیں پاس ہو چکی ہیں آخری قرارداد نمبر 307(1971) تھی جو سلامتی کونسل نے 1616ویں اجلاس مورخہ 21دسمبر1971 میںزیر بحث لائی۔ اس اجلاس میں 1971کی جنگ سے پیدا شدہ خراب صورتحال پر غور کیا گیا۔ اس صورتحال کو عالمی امن کے لیے خطرہ سمجھا گیا۔ جنرل اسمبلی کی قرارداد نمبر2793(xxvi) مورخہ دسمبر 1971کے علاوہ حکومت پاکستان کے جواب پر 12دسمبر1971 کو بحث ہوئی ۔ بھارت کے ڈپٹی وزیر اعظم اور وزیر خارجہ کے بیانات بھی سنے گئے ۔ اس قرارداد میں جنگ بندی اور افواج کی واپسی کا مطالبہ کیا گیا اور یہ کہا گیا کہ وہ کوئی ایسا عمل نہ کریں جس سے علاقے میں حالات مزید خراب ہوں ۔ متعلقہ ممالک کو کہا گیا کہ وہ جینوا کنونشن کے تحت انسانی جانوں اور مال کا تحفظ کریں۔ قرارداد میں مہاجرین کی بحالی کا بھی مطالبہ کیا گیا۔
سیکرٹری جنرل کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ ایک نمائندہ منتخب کرے جو علاقے میں انسانی مسائل کا حل تلاش کرے۔ سیکرٹری جنرل سے کہا گیا کہ وہ علاقے کے حالات کے متعلق کونسل کو آگاہ کرتا رہےاقوام متحدہ کے فورم پر یہ آخری قرارداد ہے اس کے بعد پاکستان اور بھارت نے اس مسئلہ کو اقوام متحدہ میں اٹھانے کی کوشش نہیں کی ۔ اس سلسلے میں دونوں ممالک نے شملہ معاہدہ میں تسلیم کیا ہے کہ وہ کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی بجائے آپس میں باہمی مشاورت سے مل کر کرنے کی کوشش کریں گے لیکن 67 برس گزرنے کے باوجود ابھی بھی مسئلہ جوں کا توں ہے ۔ یہ کہنا مسکل ہے کہ ابھی اس مسئلے کو حل کرنے میں کتنے سال اور لگ جائیں گے ۔ یہ امید ضرور ہے کہ قربانیاں ضرور رنگ لائیں گی اور کشمیر آزاد ہو کر رہے گا۔ انشاء اللہ
اب پھر سے کشمیریوں نے آزادی کے لیے اپنی مہم تیز کر دی ہے ۔ بھارتی ظلم و جبر، جنسی زیادتیوں اور قتل و غارت گری جیسی بہیمانہ فوجی کاروائیوں کے خلاف کشمیری نوجوان ڈٹ گئے ہیں اب کوئی لمحہ ایسا نہیں گزرتا جب کشمیری نوجوان میدان میں نہ اترتے ہوں ۔ کشمیری نوجوانوں کی آزادی کے لیے کی جانے والی جدوجہد سے نہ صرف بھارتی حکمرانوں کی نیندیں حرام ہو گئی ہیں بلکہ متعدد فوجیوں کی نفسیاتی امراض میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔7 لاکھ بھارتی افواج کشمیری نوجوانوں کی آزادی ء جدوجہد کے سامنے بے بس دکھائی دیتی ہے۔ سینکڑوں کشمیریوں کی شہادت ضرور رنگ لائے گی انشاء اللہ
Kashmir Rally
گزشتہ روز بھارتی فوج کی بربریت کے خلاف آزاد کشمیر سمیت ملک بھر میں ریلیاں نکالی گئیں۔ تقریبات منعقد کی گئیں اور سرکاری ملازمین نے بازئوں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر کشمیریوں کی سیاسی اخلاقی اور سفارتی حمائت کا اظہار کیا۔ دنیا بھر میں پاکستانی سفارت خانوں میں خصوصی تقریبات منعقد ہوئیں۔ مذہبی اور سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی اور کشمیری تنظیموں کی جانب سے مختلف مقامات پر مظاہرے اور ریلیاں نکالی گئیں۔ کشمیری عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کا بھر پور مظاہرہ کیا گیا ۔ کشمیر کسی طور بھی بھارت کا اندرونی معاملہ نہیں ہے ۔ پاکستانی قوم عالمی ضمیر جھنجھوڑنے کے لیے سراپا احتجاج رہے گی ۔ ہر محاذ پر کشمیریو ں کا مقدمہ لڑیں گے ۔ اب مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے پاس شکست تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں۔حق خود ارادیت کا مطالبہ دہشت گردی نہیں بھارتی مظالم کا معاملہ عالمی فورمز پر اٹھانے کا عزم کیا گیا ہے۔
کشمیریوں کو بھارتی سفاکانہ جبر سے آزادی دلوانے تک پاکستان کی جدوجہد جاری رہے گی۔یہ ہو نہیں سکتا کہ ہم پاکستانی اپنی شہ رگ بھارتی درندوں کے ہاتھوں میں رہنے دیں۔ بھارتی حکمرانوں کو اب یہ بات مان لینی چاہئے کہ وہ کشمیریوں کو زیادہ دیر تک غلام نہیں بنا سکتے اور نہ ہی پاکستان 1971والا پاکستان ہے جو وہ ڈرا دھمکا کر پاکستان کو چپ رہنے پر مجبور کر دیں گے ۔بھارتی میڈیا بھی عقل کے ناخن لے۔ یورپین برادری، امریکہ اور برطانیہ بھی مظلوم کشمیریوں کا ساتھ دے دنیا کا ہر فرد اس بات کا علم رکھتا ہے کہ کشمیر سلگتا ہوا مسئلہ ہے اور بھارتی درندے اس کی کھال نوچ رہے ہیں۔ اس مسئلے کو دنیا معمولی مسئلہ تصور نہ کرے۔ اس معئلے پر تین چار جنگیں ہو چکی ہیں۔ اقوام متحدہ کو بھی اس موقع پر بھر پور کردار ادا کرنا چاہئے۔
اس معئلے پر چوتھی عالمی جنگ چھڑ سکتی ہے ۔ بلکہ ایٹمی جنگ کا بھی خطرہ ہے ۔ بھارتی فوج جس نوع کے مظالم کشمیریوں پر ڈھا رہی ہے اس سے خود کش دھماکوں کا سلسلہ بھی شروع ہو سکتا ہے جس سے بین الاقوامی امن خطرے میں پڑ سکتا ہے کشمیریو ںکی جدوجہد کو جس انداز میں روکا جا رہا ہے وہ راستہ خون خرابے کی طرف جا رہا ہے۔یہی وہ وجوہات ہیں جو کشمیریوں کو خود کش دھماکوں پر مجبور کر سکتی ہیں ۔ ہم سب کو اس حقیقت کو سمجھ لینا چاہئے کہ ہم پہلے ہی حالت جنگ میں اور خود کش دھماکوں کی زد میں ہیں اور یہ سب کچھ بھارت کا کیا دھرا ہے ۔ بہتر ہے کہ بھارت مذاکراتی راستہ اختیار کرکے کشمیریوں کو بیچ میں بٹھا کے معاملے کو سلجھائے۔اب وقت ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے ۔ مزید تاخیر بھارت کے حق میں نہیں۔