تحریر : محمد اشفاق راجا سابق بھارتی وزیر اور کانگریس کے سینئر رہنما پی چدمبرم نے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر بھارت کے ہاتھوں سے نکلنے کے قریب پہنچ چکا ہے کیونکہ مرکزی حکومت نے وہاں بدامنی کو دبانے کے لئے طاقت کا اندھا دھند استعمال کیا ہے اگر حکومت نے (مقبوضہ) کشمیر کے حوالے سے درست اقدامات نہ اٹھائے تو وادی کی صورتِ حال مزید بدتر ہو جائے گی اس حوالے سے 2010ء میں مَن موہن سنگھ کی کابینہ کی کمیٹی برائے سیکیورٹی نے جن اقدامات کی منظوری دی تھی ان سے کشمیر میں تشدد تیزی سے کم ہوا تھا۔ اس لئے ان اقدامات پر دوبارہ سے عمل درآمد کی ضرورت ہے۔ بھارتی حکومت کے جابرانہ اقدامات کی وجہ سے مقبوضہ کشمیر کے لوگ خود کو بھارت سے لاتعلق سمجھتے ہیں انہوں نے ان خیالات کا اظہار حیدر آباد دکن میں سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ یہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ کسی بھارتی سابق وزیر یا سیاستدان نے مقبوضہ کشمیر کی صورتِ حال پر اس انداز سے نظر ڈالی ہو، بہت سے بھارتی رہنما پہلے بھی اس سے ملتی جلتی باتیں کرتے رہتے ہیں اور مودی سرکار کو مخلصانہ مشورے بھی دیتے رہتے ہیں۔
ان میں ڈاکٹر فاروق عبداللہ جیسے کشمیر ی رہنما بھی شامل ہیں جن کی تیسری نسل اس وقت سیاست میں ہے خود وہ کئی بار وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں۔ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے والد شیخ عبداللہ کشمیر کے وزیر اعظم رہے، انہیں ان کے قریبی دوست جواہر لال نہرو نے سال ہا سال حوال زنداں کئے رکھا، ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے بیٹے عمر عبداللہ بھارت کی مرکزی حکومت میں وزیر مملکت رہے اور مقبوضہ کشمیر کے وزیر اعلیٰ بھی رہے اب جس خاندان کی کشمیری سیاست میں اتنی طویل خدمات ہوں ان کی بات توجہ سے سنی جانی چاہئے، ضروری نہیں ان کے تمام خیالات سے اتفاق کیا جائے اور کشمیر کے اندر ایسے لوگ موجود ہیں، جنہیں اس خاندان کی سیاست سے اختلاف رہا آج بھی ہوگا تاہم اگر وہ کشمیریوں کے مفاد میں کوئی بات کہتے ہیں تو بھارتی حکومت کا فرض ہے کہ اس پر غور کرے۔
پی چدمبرم کی یہ رائے منظرِ عام پر آتے ہی ان کو غدار قرار دینے والوں کی لائن لگ گئی ہے، خصوصاً ان کے اس خیال کو پسند نہیں کیا گیا کہ کشمیر بھارت کے ہاتھ سے نکل رہا ہے۔ اس پر جذباتی رائے بھی دی جا رہی ہے تاہم کشمیر جیسے سلگتے مسائل جذبات سے نہیں عقل و دانش سے حل ہوں گے۔ گزشتہ برس جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے طلباء نے یونیورسٹی میں کشمیر کے موضوع پر سیمینار کا انعقاد کیا تو بھی بھارتی حکومت سیخ پا ہو گئی تھی۔ سٹوڈنٹس یونین کے صدر پر غداری کا مقدمہ قائم کر دیا گیا جس وکیل نے عدالت میں ان کی جانب سے پیش ہونے کی کوشش کی ان پر حملہ کیا گیا طالب علم کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا لیکن کیا اس طرح کے اقدامات سے کشمیر میں حالات بہتر ہو سکے؟۔
Kashmir Violence
سیکیورٹی فورسز نے وادی میں ظلم و ستم کی جو قابل نفرت روایات قائم کی ہیں پیلٹ گنوں سے کشمیری نوجوانوں کی آنکھوں میں فائر کئے گئے جس سے ان کی بینائی زائل ہو گئی، ہزاروں لوگ زخمی ہو گئے زخمیوں کو ہسپتالوں سے نکال دیا گیا۔ جنازے کے جلوسوں پر اندھا دھند فائرنگ کر کے کشمیری نوجوانوں کو شہید کیا گیا۔بھارتی حکومت کا خیال تھا کہ کشمیر کی تحریک کو بیرونی امداد حاصل ہے بڑے نوٹوں کی بندش کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ اس طرح بیرونی امداد بند ہو جائے گی اور تحریک ٹھنڈی پڑ جائے گی لیکن ظلم و ستم کے ہتھکنڈوں اور بزعم خویش نوٹ بندی جیسے اقدامات کے باوجود تحریک بدستور توانا ہے۔ ان حالات میں بھارت کی مرکزی حکومت نے بی جے پی کے رہنما کی قیادت میں ایک کمیشن کشمیر بھیجا جس نے رپورٹ پیش کی کہ کشمیر کے مسئلے کا واحد حل مذاکرات ہیں اور مذاکرات میں جتنی تاخیر ہو گی اس کا نقصان بھارت ہی کو ہوگا۔ یہ وفد مودی کے مخالفوں نہیں، حامیوں پر مشتمل تھا۔بی این پی کے مطابق اب چدمبرم نے جو بات کی ہے اس کو اگرچہ ایک مخالف سیاسی رہنما کے خیالات کہہ کر ٹالا جا سکتا ہے لیکن خود نریندر مودی کو معلوم ہے کہ کشمیر کے حالات کس جانب جا رہے ہیں۔
کشمیری نوجوانوں کی تحریک میں جو لوگ شامل ہیں وہ کوئی اجنبی نہیں ہیں نہ وہ کہیں باہر سے گئے ہیں وہ مقامی کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طالب علم ہیں ان کے خاندانوں کا پتہ ہر کسی کو ہے برہان وانی شہید کے والد کشمیر کے محکمہ تعلیم میں سرکاری افسر تھے۔ وہ اب بھی حیات ہیں اور اپنے بیٹے کی شہادت پر فخر کرتے ہیں ان حالات میں کشمیر کی آزادی کی تحریک کو باہر سے گئے ہوئے لوگوں کی تحریک قرار دے کر وہاں کے حالات سے آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں۔ چدمبرم نے اپنے دورِ حکومت کی جس کابینہ کمیٹی کے اقدامات کا ذکر کیا ہے ان کے ذریعے اگرچہ وقتی طور پر حالات بہتر ہو گئے تھے تاہم 2010ء کے بعد سے کشمیر کے حالات بالکل بدل چکے ہیں اب کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کے لئے کشمیریوں کی خواہشات کو مقدم رکھنا ہوگا۔ بدلے ہوئے حالات کے تحت نتیجہ خیز اقدامات کی ضرورت ہے لیکن مودی سرکار تو وہ کچھ بھی نہیں کررہی جو ڈاکٹر من موہن سنگھ کی حکومت کر رہی تھی۔نریندر مودی تو الیکشن جیت کر یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ انہیں اگر دہلی کے تخت پر بٹھا دیا گیا ہے تو یہ ان کی کسی عقل و دانش کا کرشمہ ہے چنانچہ انہوں نے کشمیر میں ہندو وزیر اعلیٰ بنانے کا خواب دیکھا، لیکن ریاستی الیکشن میں ان کی پارٹی کو منصوبے کے مطابق کامیابی نہ ہوئی تو پھر انہوں نے ریاست میں ہندوؤں کو باہر سے لا کر بسانا شروع کر دیا تاکہ مقامی لوگ اقلیت میں تبدیل ہو جائیں۔
ریاستی قوانین کے مطابق کوئی غیر کشمیری ریاست میں جائیداد نہیں خرید سکتا اب سابق فوجیوں کے لئے بڑی تعداد میں کالونیاں بنائی جا رہی ہیں جن سے یہ مقصد حاصل کرنا مقصود ہے کہ ایک تو ان سابق فوجیوں کے ذریعے ریاست کو چھاؤنی میں تبدیل کر دیا جائے اور دوسرے مقامی آبادی کو اقلیت میں تبدیل کیا جائے لیکن بھارت کے اندر ان کے ایسے منصوبوں کو کوئی پذیرائی نہیں مل رہی بلکہ ان پر زور دیا جا رہا ہے کہ وہ ہٹ دھرمی کو خیر باد کہہ کر کشمیر کا مسئلہ مذاکرات کے ذریعے حل کریں اور وادی میں سیکیورٹی اقدامات سے زیادہ امیدیں وابستہ نہ کریں کیونکہ ماضی میں بھی ان کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا اور اب تو حالات میں جوہری تبدیلی رونما ہو چکی ہے۔