پاکستان اور بھارت کی برطانوی تسلط سے نجات کے ساتھ کشمیر کے الحاق کا معاملہ اٹھا۔۱۹۴۹ء ،میں پہلی بار بھارت نے مقبوضہ کشمیر کا معاملہ عالمی سطح پر اٹھایا۔ اقوام ِ متحدہ نے بھارت کی ایماء پر کشمیر کے بارے میں قرارداد پاس کی جس کے مطابق کشمیریوں کو ان کی خواہش کے مطابق زندگی گزارنے کی آزادی دی گئی اور انھیں یہ حق دیا گیا کہ ایک ریفرینڈم کے ذریعے فیصلہ کریں کہ آیا وہ پاکستان یا بھارت کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں یا پھر آزادی کے ساتھ اپنی ریاست قائم رکھنا چاہتے ہیں ۔ لیکن بھارت نے یہ قرار داد منظور تو کر لی لیکن اپنی روایتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آج تک کشمیر میں آزادانہ ریفرنڈم نہیں کروایا بلکہ کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیا ۔ کشمیر پر اپنا تسلط قائم رکھنے کے لیے بھارت نے کثیر مقدار میں اپنی افواج کشمیر میں بھیجیں ۔ کشمیریوں نے حصول ِ آزادی ، پاکستان سے الحاق کے لیے جدوجہد کا آغاز کیا اور آج تک یہ جدوجہد جاری ہے۔
بھارتی مظالم کے اعداد و شمار پر نظر دوڑائیں تو دنیا کی نام نہاد جمہوریت کے ہاتھ مسلمانوں کے خون سے رنگے نظر آئیں گے ۔ دنیا میں ہونے والے مظالم میں مقبوضہ کشمیر کے باسیوں پر کئے جانے والے مظالم کسی کا دل دھلا دینے کو کافی ہیں ۔ سن ۱۹۸۹ء سے لے کر ۲۰۱۸ء تک ۹۵۰۵۰ افراد جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیںکو شہید کیا گیا ،۷۱۱۱ زیرِ حراست شہادتیں ہوئیں ، ۱۴۴۱۹۳ سویلین افراد کو زیر ِحراست لیا گیا ، ۱۰۸۸۲۲ عمارتیں تباہ ہوئیں یا جلا دی گئیں جن میں سکول اور لوگوں کے گھر بھی شامل ہیں ۔
تاریخ کے اواق کو پلٹنے سے اس بات کا باخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ تحریک آزادی کشمیر مختلف ادوار میں شدت اختیار کرتی رہی ۔جن میں ۱۹۸۰ء کے آخر اور اوائل ۱۹۹۰ء کا دور تحریک آزادی کشمیر کا سہنری دور کہلا سکتا ہے ۔ اس کے بعد کمزور پڑتی تحریک آزادی میں اس وقت تیزی نظر آئی جب بھارتی افواج نے اپنے روایتی طریقہ پر عمل کرتے ہوئے نوجوان حریت لیڈر کو شہید کر دیا۔نوجوان حریت لیڈر برہان وانی کی شہادت کے بعد کشمیر کی تحریک آزادی نے ایک نیا موڑ لیا اور اس میں شدت آئی ۔برہان وانی کی شہادت کی وجہ سے پوری وادی میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ۔ مجاہدین کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا اور اس کے ساتھ ہی بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خلاف مظاہروںکی تعداد میں اضافہ ہو گیا۔بھارت نے ان مظاہروں کو منتشر کرنے اور مظاہرین کے مزید اجتماع کو روکنے کے لیے طاقت کا وحشیانہ استعمال شروع کیا ۔ ۲۰۱۶ء میں مقبوضہ کشمیر میں پہلی بار پلٹ گنوں کا استعمال کیا گیا۔جن کی وجہ سے۸۴۲۴ کشمیریوں کی شہادت ، ۱۲۸بصارت سے محرومی ،۲۰۷ افراد کی ایک آنکھ کا ضائع ہونا شامل ہے ۔ ایسے نوجوان جن کی بصارت خطرے میں ہے ان کی تعداد ۱۰۲۰ تک جا پہنچی ہے ۔متاثر ہونے والوں میں بچے ، بوڑھے ، جوان ، عورتیں سبھی شامل ہیں ۔
پلیٹ گنوں کے استعمال کے ساتھ ساتھ بھارتی افواج کی گاڑیوں کو پتھرائو سے بچانے کے لیے کشمیری نوجوانوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا ہے ۔ کسی بھی کشمیری نوجوان کو فوجی جیپ کے ساتھ باندھ دیا جاتا ہے اور پھر وہ جیپ ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جائی جاتی ہے تاکہ مشتعل ہجوم اس جیپ پر حملہ آوار نہ ہو سکے ۔
تصویر کا بھیانک ترین رخ مقبوضہ کشمیر میں افسپا ء (Armed forces Special Act) اور (Jammu and Kashmir Public Safety Act) جیسے کالے قانون کا رائج ہونا بھی ہے ۔بھارت کے اس کالے قانون سے کون واقف نہیں ؟ یہاں تک کہ خود بھارت میں اس قانون کے خلاف نہ صرف لکھا گیا بلکہ عالمی سطح پر اس کو معطل کرنے کے لیے باقاعدہ سفارش بھی کی گئی ۔ یہ قانون مقبوضہ وادی کے علاوہ بھارت کے دیگر علاقوں میں بھی رائج ہے ۔ اس قانون کے مطابق سیکیورٹی فورسز کو اجازت ہے کہ وہ کسی شک کی بنا پر بھی یا کسی بھی ایسے انسان کے خلاف جو حکومت کے خلاف بات کرے اس پر کسی بھی نوعیت کا تشدد کیا جاسکتا ہے یہاں تک کہ صرف شک کی بنا پر کسی کو جان سے بھی مار سکتے ہیں۔ قانون کے مطابق فوج ، پیراملڑی ، پولیس ، سیکیورٹی کے دیگر ملازمین کو قانون ہر طرح کی ڈھال فراہم کرتا ہے ۔قانون کی رو کے مطابق اگر افسپا ء رائج شدہ علاقوں میں قتل تک کی سزا نہیں دی جا سکتی اور نہ ہی یہ فیصلہ بھارت کے کسی کورٹ میں چیلنج کیا جا سکتا ہے ۔ فوجی عدالتیں بھارتی افواج کے مظالم اور بھارتی افواج کے خلاف انصاف کی فراہمی میں باقاعدہ رکاوٹ بن چکی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج اس قانون کا استعمال کرتے ہوئے آئے روز وادی کے مختلف علاقوں میں کاروائیاں کرتی رہتی ہے یہاں تک کہ جنازوں میں بھی ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے گولی کا استعمال عام ہے ۔ اس قانون کی آڑ میں مقبوضہ کشمیر میں عورتوں اور نوجوان لڑکیوں کی عصمت دری عام ہے ۔ پچھلے چند برس میں ۱۱۰۷۷ خواتین کی عصمت دری کی گئی ۔ یہاں تک کہ کشمیر میں کوئی بھی محفوظ نہیں ، چاہے وہ بچہ ہی کیوں نہ ہو ۔
عالمی اداروں ، این جی اوز، انسانی حقوق کے اداے بھارت کے خلاف اور کشمیری مسلمانوں کے حق میں قراردادیں پاس کرتے رہتے ہیں لیکن بھارت کے کان پر جوں تک نہ رینگی ۔ اقوام ِمتحدہ کی قراردادیں بھی اس ضمن میںصرف کاغذ کا ایک ٹکڑا ہی ثابت ہو پائی ہیں ۔اس سلسلے میں اقوام متحدہ کے ادارے ۔ ادارہ برائے انسانی حقوق۔ نے ایک تفصیلی رپورٹ بھی شائع کی ہے جس میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کی جانب سے کئی جانے والے مظالم کی تفصیلات ، کشمیریوں کی نسل کشی کی مضموم سازش، تحریک ِ آزادی کشمیر میں شدت اور بھارت کی ہٹ دھرمی کے ثبوت پیش کیے گئے ہیں ۔
کشمیری نوجوان خواتین اور متوسط طبقے کے نوجوانوں کا تحریک آزادی میں شامل ہو جانا کشمیر کی تحریک آزادی کی کامیابی کا ضامن بن سکتا ہے ۔ خصوصا خواتینکی شمولیت نے تحریک آزادی کو تقویت دی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے بھارت اب ہٹ دھرمی اور ظلم کی پالیسی کو خیر آباد کہہ دے ، پاکستان ، بھارت اور کشمیر کے راہنما مل بیٹھ کر یہ مسئلہ حل کریں ۔ عالمی برادری کو بھی چاہیے کہ بھارت پر دبائو ڈالے اورمقبوضہ کشمیر کے طویل مدت حل طلب مسئلہ کو کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق حل کرکے کشمیری مسلمانوں کے قتل ِ عالم کو رکوائے۔