سری نگر (جیوڈیسک) بھارت کے زیر انتظام مقبوضہ کشمیر کے گرمائی دارالحکومت سری نگر میں طلبہ نے سکیورٹی فورسز کی تعلیمی اداروں میں چھاپا مار کارروائیوں کے خلاف احتجاجی مظاہرے جاری رکھے ہوئے ہیں اور پولیس نے پتھراؤ کرنے والے طلبہ پر فائرنگ کی ہے۔
سیکڑوں طلبہ نے سوموار کے روز سری نگر کی شاہراہوں پر بھارت کے خلاف شدید احتجاج کیا ہے۔وہ بھارت کے خلاف اور آزادی کے حق میں نعرے بازی کررہے تھے۔انھوں نے شہر کے مرکزی لال چوک میں اکٹھے ہوکر سخت احتجاج کیا ہے اور وہ ’’ ہم آزدی چاہتے ہیں‘‘ اور ’’ بھارت واپس جاؤ‘‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔
فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کے رپورٹر نے اطلاع دی ہے کہ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے براہ راست فائرنگ کی ہے،واٹر کینن کے ذریعے پانی اور اشک آور گیس کے گولے پھینکے ہیں۔لال چوک میں دکان داروں نے تشدد سے بچنے کے لیے اپنی دکانیں بند کردی تھیں۔ سری نگر اور وادی کے دوسرے شہروں میں گذشتہ ہفتے طلبہ اور بھارتی سکیورٹی فورسز کے درمیان مسلح جھڑپوں کے بعد تعلیمی ادارے بند کردیے گئے تھے اور ایک ہفتے کے بعد آج ہی تعلیمی ادارے کھلے تھے۔
ایک پولیس افسر نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ چند ایک طلبہ کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ پتھراؤ سے آٹھ پولیس اہلکار اور تین کیمرامین زخمی ہو گئے ہیں۔ پرتشدد مظاہروں میں متعدد طلبہ بھی زخمی ہوئے ہیں۔
ادھر پلوامہ میں نامعلوم مسلح افراد نے ریاست کی حکمراں جماعت پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایک بھارت نواز سیاست دان عبدالغنی کو گولی مار دی ہے۔انھیں شدید زخمی حالت میں اسپتال منتقل کیا گیا تھا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لا کر چل بسے ہیں۔
واضح مقبوضہ وادیِ کشمیر میں 17 اپریل کو احتجاجی مظاہروں کے دوران میں سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپوں میں ایک سو سے زیادہ طلبہ زخمی ہوگئے تھے اور اتنی ہی تعداد میں سکیورٹی اہلکار زخمی ہوئے تھے۔
مقبوضہ وادی کے صدرمقام سری نگر میں سیکڑوں طلبہ نے جنوبی ضلع پلوامہ میں 15 اپریل کو بھارتی سکیورٹی فورسز کی ایک کالج میں چھاپا مار کارروائی کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیے تھے۔ سری نگر کی کشمیر یونیورسٹی کی کالعدم طلبہ یونین نے وادی کے تمام کالجوں اور جامعات میں اس واقعے کے خلاف احتجاجی مظاہروں کی اپیل کی تھی۔
سری نگر سے شروع ہونے والے طلبہ کے احتجاجی مظاہرے وادی کے دوسرے شہروں اور قصبوں تک بھی پھیل گئے تھے جس کے بعد ریاستی حکام نے ایک ہفتے کے لیے اسکول ،کالج اور یونیورسٹیاں بند کردی تھیں۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں 9 اپریل کو ضمنی انتخاب کے موقع پر تشدد کے واقعات کے بعد سے صورت حال کشیدہ ہے۔اس روز بھارتی فورسز نے فائرنگ کرکے آٹھ کشمیری مظاہرین کو شہید کردیا تھا۔
دریں اثناء ریاست جموں وکشمیر کی وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات کی ہے اور ان سے مقبوضہ کشمیر کی تازہ صورت حال کے بارے میں تبادلہ خیال کیا ہے۔انھوں نے ریاست میں تشدد کے خاتمے کے لیے مذاکرات کی ضرورت پر زوردیا ہے۔
انھوں نے نئی دہلی میں مودی کی اقامت گاہ کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’ ہماری پہلی ترجیح صورت حال پر قابو پانا ہے کیونکہ گولیاں چلنے اور پتھر پھینکنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے تو اس صورت میں کوئی بات چیت نہیں ہوسکتی‘‘۔
واضح رہے کہ محبوبہ مفتی کی عوامی جمہوری پارٹی نے ریاست میں 2015ء میں انتخابات میں کامیابی کے بعد مودی کی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت بنائی تھی۔اس کے بعد سے ان کی مقبولیت میں بڑی تیزی سے کمی واقع ہوئی ہے۔