مقبوضہ کشمیر (جیوڈیسک) تحریک آزادی کے نوجوان کمانڈر برہان مظفر وانی کی شہادت کے بعد شروع ہونے والی احتجاجی لہر کو دبانے کے لئے بھارتی فوج کی کارروائیوں میں شہادتوں کی تعداد 23 ہوگئی جب کہ وادی میں کرفیو کا عالم ہے۔
جمعہ 8 جولائی کو مقبوضہ کشمیر میں شروع ہونے والے احتجاجی مظاہرے اب بھی جاری ہیں جب کہ قابض فوج کی فائرنگ سے زخمی ہونے والے مزید 2 افراد دم توڑ گئے جس کے بعد شہادتوں کی تعداد 23 ہوگئی۔ قابض حکومت نے کشمیریوں کی حق خودارادیت کی آواز کو دبانے کے لئے مقبوضہ وادی میں مزید فورسز کو تعینات کردیا جب کہ وادی میں کرفیو لگا رکھا ہے اور موبائل فون اور انٹرنیٹ سروسز بھی بند کردی گئی ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ اسپتالوں میں زخمیوں کی تعداد کے پیش نظر اور موبائل و انٹرنیٹ سروسز بند کیے جانے سے کشمیر میں ایمرجنسی جیسی صورت حال پیدا ہو گئی ہے۔
قابض حکومت نے جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے رہنما یاسین ملک کو سینٹر جیل میں قید کیا ہوا ہے جبکہ حریت رہنما میرواعظ عمرفاروق، شبیر شاہ اور سید علی گیلانی سمیت دیگر درجنوں رہنماؤں کو گھروں میں نظربند کر دیا گیا ہے۔ تحریک آزادی کے رہنماؤں کی جانب سے احتجاجی مظاہروں کی کال پر کشمیری عوام لبیک کہتے ہوئے سڑکوں پر آگئے جنہیں خوفزدہ کرنے کے لئے قابض فوج نے طاقت کا استعمال کیا جب کہ ہفتے کو ہی وزیراعلی محبوبہ مفتی نے اپنے بیان میں اعتراف کیا تھا کہ مظاہرین کے خلاف طاقت کا غیرمتناسب استعمال کیا گیا۔