تحریر : ڈاکٹر محمد ریاض چوھدری دُنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے دعویدار بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی تحریک کو کچلنے کے لئے مزید بھارتی فوجیں تعینات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ 17 میں سے 5 انڈین ریزرو بٹالینز مقبوضہ کشمیر میں، 4 چھتیس گڑھ میں، 3 جھاڑ کھنڈ میں، 3 اڑیسہ میں اور 2 بٹالینز مہاراشٹر میں تعینات کی جائیں گی۔ مقبوضہ کشمیر کے علاوہ دیگر ریاستوں میں آزادی کی تحریکوں کو کچلنے کے لئے بھرتیاں سکیورٹی ریلیٹڈ ایکسپنڈیچر سکیم کے تحت کی جائیں گی۔
بھارت نے انڈین ریزرو بٹالینز کی سکیم کا قانون 1971ء میں نافذ کیا گیا تھا، جس کے تحت بھارت اب تک 153 بٹالینز کو مختلف علاقوں میں تعینات کر چکا ہے، جن میں سے بڑی تعداد مقبوضہ کشمیر کے علاقے میں تعینات ہے۔ کشمیر میں اس وقت بھی 7 لاکھ کے قریب بھارتی فوج تعینات ہے، جو گزشتہ 60 برسوں سے کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہی ہے۔
بھارتی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے کہا ہے کہ بھارت پاکستان سمیت اپنے تمام پڑوسی ملکوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات کا متمنی ہے، لیکن دوستانہ تعلقات قائم کرنے کی آڑ میں مُلک کی سیکیورٹی کے ساتھ کوئی بھی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ بھارت سرحد پار سے چلائی جا رہی ہر قسم کی انتہا پسندی کا پوری قوت سے مُنہ توڑ جواب دے گا۔ سیکیورٹی فورسز کسی بھی حملے کا بھرپور جواب دینے کے لئے تیار ہے۔
Indian Army Violence in Kashmir
مقبوضہ کشمیر میں پہلے ہی سات لاکھ سے زائد بھارتی فورسز معصوم کشمیریوں پر ظلم و ستم ڈھانے میں مصروف ہیں۔قابض بھارتی فوج کی جانب سے کشمیریوں پر تشدد کے واقعات آئے دن رپورٹ ہوتے رہتے ہیں۔ سینکڑوں بھارتی فوجی کشمیری خواتین کی عصمت دری سمیت انسانیت کے مختلف جرائم میں بھی ملوث ہیں۔ادھر مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے قبضے کے خلاف مکمل شٹر ڈاؤن ہڑتال کی جا رہی ہے۔
یہ حقیقت تو اب پوری دُنیا پر منکشف ہو چکی ہے کہ قیام پاکستان کے بعد کشمیر کا تنازعہ خود بھارت نے پاکستان کی سالمیت کمزور کرنے کی نیت سے پیدا کیا تھا، جس کے حل کے لئے یو این سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی کی قراردادوں پر عمل درآمد کے بجائے بھارت نے وادئ کشمیر میں اپنی سات لاکھ افواج داخل کر کے اس پر اپنا تسلط جمایا اور پھر کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو کچلنے کے لئے ظلم و جبر کی انتہاء کر دی، مگر کشمیری عوام نے بھارتی فوجوں کی مزاحمت کر کے اور اپنے لاکھوں پیاروں کی جانوں کی قربانیاں دے کر جدوجہد آزادی میں اپنی استقامت کو بھی مثالی بنا دیا ہے۔ نتیجتاً آج پوری دُنیا کشمیریوں کے حق خودارادیت کو تسلیم کر رہی ہے اور مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجوں کے ظلم و جبر کے خلاف ہر عالمی فورم پراور انسانی حقوق کے ہر عالمی ادارے کے روبرو آواز بلند کی جا رہی ہے۔
اگر بھارت کی کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق مسئلہ کشمیر حل کرنے کی نیت ہوتی تو وہ یواین قراردادوں سے کبھی منحرف نہ ہوتا،مگر پاکستان کی شہ رگ پر اپنا خونیں پنجہ جمائے رکھنا ہی بھارتی پالیسی کا حصہ ہے،جس میں کوئی بھی بھارتی حکومت پیچھے نہیں رہی۔ بی جے پی تو شروع دن سے ہی پاکستان اور مسلم دشمنی پر مبنی ایجنڈے پر عمل پیرا ہے اس لئے اس کے دورِ اقتدار میں مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کی توقع رکھنا ہی عبث ہے،جبکہ وہ تو آزاد کشمیر پر بھی تسلط جمانے کی بدنیتی کا اظہار کرتی نظر آتی ہے۔
Kashmir Issue
اسی سازش کے تحت اب بی جے پی سرکار نے پٹھان کوٹ حملوں کی آڑ میں مقبوضہ کشمیر میں مزید بھارتی فوجیں تعینات کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس کا بھارتی وزیر داخلہ کے بیان سے واضح عندیہ بھی مل رہا ہے تاہم مودی سرکار کو اس امر کا ادراک ہونا چاہئے کہ بھارتی سات لاکھ افواج بھی کشمیری عوام پر ساٹھ سال سے ظلم و جبر کی انتہاء کر کے ان کی آزادی کی تحریک کو نہیں دبا سکیں اور وہ اب زیادہ جذبے کے ساتھ بھارتی فوجوں کی مزاحمت کررہے ہیں،جس کا ثبوت بھارتی یوم جمہوریہ پر کرفیو کے ماحول کے باوجود کشمیری عوام کے پُرجوش مظاہرے ہیں تو مقبوضہ کشمیر میں مزید فوجیں تعینات کرکے بھی کشمیری عوام کی آواز کو نہیں دبایا جا سکتا۔
اس کے برعکس کشمیری عوام سے یکجہتی کے اظہار کے لئے پورے بھارت کے اندر سے بھی آوازیں بلند ہو رہی ہیں، جبکہ ہندو انتہاء پسندی کے خلاف بھی تمام مکاتب زندگی کے بھارتی نمایاں باشندے اپنے اپنے انداز میں احتجاج کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اس تناظر میں اب ہمارے حکمرانوں کو بھی ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور اصل حقائق کا ادراک کرکے بھارت کے ساتھ دوستی اور تجارت کی یکطرفہ خواہشات ترک کر دینی چاہئیں۔ پاکستان دشمنی درحقیقت بھارت کی سرشت میں شامل ہے اِس لئے سانپ کو دودھ پلا کر اس کے ڈنک سے بچے رہنے کا تصور ہی بے معنی ہے۔