سرینگر (جیوڈیسک) مقبوضہ کشمیر کی سابق وزرائے اعلیٰ محبوبہ مفتی اور عمر عبد اللہ کو گرفتار کر لیا گیا۔
بھارتی میڈیا کے مطابق بھارتی حکومت اوچھے ہتھکنڈوں پر اُتر آئی، پی ڈی پی کی رہنما اور سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی اور سابق وزیراعلیٰ عمر عبد اللہ کو نظر بندی کے دوران گرفتار کیا گیا۔
اس سے قبل برطانوی خبر رساں ادارے کو ایک انٹرویو کے دوران محبوبہ مفتی کا کہنا تھا کہ ہماری سیاسی قیادت، جنھوں نے دو قومی نظریے کو رد کرتے ہوئے 1947 میں انڈیا کے ساتھ ایک امید لیے الحاق کیا، اب ایسا لگتا ہے کہ ہم پاکستان پر انڈیا کو ترجیح دینے میں غلط تھے حتیٰ کہ پارلیمنٹ بھی جو انڈیا میں جمہوریت کا مندر ہے وہ بھی ہمیں مایوس کر رہی ہے۔ آج کا دن انڈیا کی جمہوریت کے لیے سیاہ ترین دن ہے۔
مقبوضہ کشمیر کی سابق وزیراعلیٰ کا مزید کہنا تھا کہ آج ایک مرتبہ پھر انڈیا نے ریاست کو فرقہ وارانہ بنیاد پر تقسیم کر دیا ہے۔ بھارت کو کشمیر کا علاقہ چاہیے،انہیں کشمیری عوام کی فکرنہیں۔ کوئی شک نہیں ہے کہ بھارتی حکومت کے عزائم ناپاک ہیں۔ یکطرفہ فیصلے کے برصغیر پردور رس اورتباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔ اس وقت ہر اس ادارے سے مایوس ہوں جس پر ملک کی اکثریت کی خواہشات اور ارادوں کے خلاف یقین تھا لیکن کشمیری قیادت اس کے خلاف جد وجہد جاری رکھے گی۔
آرٹیکل 370 کے خاتمے کے اعلان پر محبوبہ مفتی کا مزید کہنا تھا کہ یہ سن کر بہت دھچکا لگا۔ اب ہم کہاں جائیں گے۔ وہ لوگ کہاں جائیں جو اقوام متحدہ میں انصاف کیلئے گئے تھے۔ میرے خیال میں یکطرفہ فیصلے کے برصغیر پر دور رس اور تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔‘
پی ڈی پی کی رہنما کا کہنا تھا کہ مرکز کو کشمیریوں کو جن میں ریاست کی سیاسی جماعتیں، سول سوسائٹی اور شہری شامل ہیں اعتماد میں لینا چاہیے۔ بھارت وادی میں آبادیاتی تبدیلیاں چاہتے ہیں اور آج پھر انڈیا نے ریاست کو فرقہ وارانہ بنیاد پر تقسیم کر دیا ہے۔ اب اس میں ایک اور تقسیم آ گئی ہے۔ حکومت نے یونین ٹریٹریز کا نظام رائج کیا ہے، ان کا ارادہ بہت واضح ہے کہ زمین پر قبضہ کرنا اور مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنا چاہتے ہیں اور ہمیں مکمل بےاختیار کرنا چاہتے ہیں۔
کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کیے جانے کے سوال پر محبوبہ مفتی کا کہنا تھا کہ ہماری وادی اب کھلی جیل بنا دی گئی ہے۔ یہاں پر سکیورٹی فورسز کی بڑی تعداد میں اضافی تعیناتی کی گئی ہے حتیٰ کہ اختلاف رائے کا حق بھی چھین لیا گیا ہے۔ ہمیں جو خاص آئینی حیثیت دی گئی تھی یا اب بھی اگر ہے تو یہ کوئی تحفہ نہیں بلکہ ملک کی پارلیمان نے ہمیں آئینی ضمانت دی تھی۔
سابق وزیراعلیٰ کا مزید کہنا تھا کہ یہ اپنے عزائم میں کبھی کامیاب نہیں ہونگے۔ ہمیں دیوار کے ساتھ لگا دیا ہے۔ میرے خیال میں جموں و کشمیر کا ہی نہیں بلکہ پورے ملک کا مستقبل تاریک ہے۔ حکومت اقدام سے نہ صرف انڈیا کے مسلمانوں کو تنہا کر دے گی بلکہ خوفزدہ کر دے گی اور ایک تنبیہ کے طور پر استعمال کیا جائے گا کہ احکامات کو مانیں اور اگر کوئی اختلاف کرے گا تو اس کو سرعام ننگا کر دیا جائے گا یا اس کے وقار کو مجروح کیا جائے گا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ صورتحال بہت خوفزدہ ہے کیونکہ جن بوتل سے باہر آ گیا ہے۔ کچھ عرصہ بعد مودی سرکار کو نہیں علم ہو گا کہ اسے واپس بوتل میں کیسے بند کریں اور اس کا احساس انھیں کچھ عرصہ بعد ہوگا۔
محبوبہ مفتی کا مزید کہنا تھا کہ اس بارے میں سوچنا کہ ہمیں کیا کرنا ہے قبل از وقت ہے، ہماری ریاست کے تمام شراکت دار، تمام سیاسی جماعتیں، تمام مذہبی جماعتیں اور دیگر تنظیمیوں کو متحد ہونا ہے اور ایک ساتھ اسکے خلاف لڑنا ہے۔ کیونکہ اس اقدام نے کشمیر کا معاملہ مزید الجھا دیا ہے اس اب اس کا حل مشکل دکھائی دیتا ہے، اس واقعہ نے عالمی برادری کو بھی یہ جاننے کا ایک موقع دیا ہے کہ یہاں کیا ہو رہا ہے کیونکہ آئینی تعلق ناجائز قبضہ میں تبدیل ہو گیا ہے۔ ہم جدوجہد کریں گے۔