انااعطینک الکوثر

Allah

Allah

تحریر۔۔۔ڈاکٹر ساجد خاکوانی
اﷲ تعالی نے نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تسلی دیتے ہوئے قرآن مجید کی سورة کوثر میں یہ آیت نازل کی کہ”اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم نے آپ کو کوثر عطا کردیا”۔کوثر سے مرادخیرکثیر یعنی کثرت ہے۔قرآن مجید کی یہ آیت اپنے اندر معانی و مفاہیم کا بے عمیق سمندر لیے ہوئے ہے۔قرآن مجید کاایک اسلوب بیان ہے کہ وہ عام اور خاص سے بحث کرتاہے،یعنی عام حکم بیان کر اس میں کچھ مستثنیات کو علیحدہ کر دیتا ہے۔

مثلاََ پہلے یہ عام حکم دیا گیاکہ ”لا الہ”یعنی کوئی بھی معبود نہیں ہے، پھراس حکم میں سے خاص کو الگ کردیا کہ ”الا اﷲ”یعنی سوائے اﷲ تعالی کے اسی طرح ایک جگہ عام حکم لگا دیا کہ ”ان الانسان لفی خسر”کہ سب کے سب انسان ،خواہ ایمان اورعلم و عمل کے کسی بھی درجے سے متعلق ہوں نقصان میں ہیں،بعد میں اس حکم میں تخصیص کر دی کہ نہیں ان چار خواص کے حامل انسان اس نقصان سے بچ جائیں گے۔جب کہ سورة کوثرکی اس آیت میں اﷲ تعالی نے اپنے نبی علیہ السلام کو دی گئی خیرکثیر میں کوئی تخصیس نہیں کی،پس کل دنیا بلکہ کائنات بے کنارکی معلوم و نامعلوم کل دنیاؤں کی کل کثرتیں ،خالق مطلق کی طرف سے گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں بغیر کسی تخصیص و تحدیدکے پیش کر دی گئی ہیں۔

اس آیت کو اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات بابرکات سے منسلک کر دیا جائے تو سیرة طیبہ کاایک لمحہ اپنی کل کثرتوں کے ساتھ آج تک موجود و محفوظ ہے۔جتنی کثرت سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معمولات زندگی کوقلمبندکیاگیاہے اس کی مثال انسانوں کی کل تاریخ عالم میں ناپید ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قرآن مجید نے ”سراجاََمنیرا”(چمکتا ہوا سورج)کہا ہے اور ذات پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آفتاب کی کرنیں آج بھی اسی کثرت و برکت کے ساتھ انسانوں پر ضوفشاں ہیں جس طرح حیات طیبہ کے زمانے میں تھیں بلکہ صدیوں کی تحقیق و جستجواور علوم معارف اس پر مستزاد ہیں اور اس کثرت میں تاقیامت اضافہ ہی ہوتا رہے گا کہ قادر مطلق نے اس کثرت کی کوئی تحدید و تخصیص نہیں کی۔ایک انسان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ کے معمولات کو محفوظ و مامون کرنے کے لیے کم و بیش ساڑھے پانچ لاکھ افراد، جنہوں نے ان احادیث کی روایات میں کوئی بھی کردار ادا کیا ہو

ان سب کی کل حیات پرمشتمل جملہ معلومات آج تک کتابوں میں درج ہیںبلکہ اب کمپیوٹر کے حافظہ میں بھی منتقل کی جاچکیں ہیں۔ایک انسان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاطر اتنی کثرت سے انسانوں کا ایک عظیم کام میں جت جانا کسی بھی اور مثال سے خالی ہے۔اور تب سے اب تک اور اب سے قیامت تک ان گنت تعدادمیں انسانوں کی کثرت قال قال رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وابسطہ ہے ،اورنعت گوشاعر،نعتیہ مجموعے اورنعت خوان حضرات و خواتین کی کثرت کی تو کوئی انتہا ہی نہیں ہے ۔

اس آیت کو اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل و ذریت کی کثرت سے منسلک کردیاتو بھی جوکثرت و برکت آل رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نظر آتی ہے اس سے دنیابھراور کل انسانی تاریخ کا کوئی بھی اور قبیلہ و خاندان عاری ہے۔اگرچہ دیگرانبیاء علیھم السلام کی ذریت میں بھی پھیلاؤ دیکھنے میں آیالیکن تاریخ کے طالب علم نے جس سرعت سے عترت ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وسعت کو مشاہدہ و روایت کیاہے وہ سواہے۔کربلا کامیدان آل رسول کو ختم کرنے کی ایک ناپاک کوشش تھی لیکن جس آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کثرت کا فیصلہ اﷲرب العزت نے کیا ہواسے دنیا کے یزیدکہاں مٹاسکتے ہیں۔محض دو نواسوں، حسنین، کریمین، شفیقین سے چلنے والی نسل نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آج دنیاکے ہر کونے میں موجود ہے ،ہر خطے میں اور ہر زبان بولنے والوں میں موجود اہل بیت کی نسل مقدس ،سے وقت کے فرزندان اسلام فیض ہدایت حاصل کرتے رہے ہیں

کررہے ہیںاورکرتے رہیں گے ،انشاء اﷲ تعالی۔اس بڑی کربلا کے بعد بھی آل رسول پربہت سی کربلائیں اپنی شدت و قوت کے ساتھ ٹوٹیں لیکن تاریخ کے یزید ہمیشہ مٹتے رہے جبکہ کثرت کا خدائی فیصلہ ہمہشہ جاری و ساری رہا۔اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امتی بھی جس کثرت سے موجود ہیں وہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے۔اگرچہ فی زمانہ مسیحی دنیا اپنی کثرت کا دعوی کرتی ہے لیکن یہ محض کذب بیانی ہے کیونکہ مغرب کی اکثریت اپنے آپ کو سیکولرگردانتی ہے اورحضرت عیسی علیہ السلام سے ان کاعلامتی و واجبی تعلق 25دسمبر رات بارہ بجے شروع ہوتاہے اور اگلی رات بارہ بجے ختم ہوجاتاہے۔اس کے مقابلے میں بہت گیاگزرامسلمان بھی ختم نبوت کے عقیدہ پر کسی طرح کی مفاہمت یاسمجھوتے کے لیے تیارنہیں ہوتا۔

Humanity

Humanity

اس آیت مبارکہ کے مطابق اعلی انسانی اقدارکی وہ عددیات جو قلت کی وجہ سے باعث تفاخر ہیں،ان کی کثرت بھی محسن انسانیت ۖکی حیات طیبہ میں ہی میسر ہے۔مثلاََدنیابھر میں اور کل تاریخ عالم میں جتنے بھی انقلابات روپزیر ہوئے ان میں سب سے کم ترین تعداد میں جوانسان کام آئے وہ انقلاب نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے،اور اس کے مقابلے میں دنیامیں تمام انقلابات میں دوررس کثرت اثرات کاحامل بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہی لایا ہوا انقلاب ہے۔ریاست مدینہ کے دورنبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں جتنے علاقے فتح ہوئے اور اس کے لیے جتنی جنگیں لڑی گئیں اور ان جنگوں میں مسلمان اور کافر ہردوقسم کے جتنے انسان مارے گئے وہ دنیاکے کسی بھی اور مفتوحات میں کم ترین تعدادہے۔

بادی النظرمیں وہ تعداد مبالغہ یا مضحکہ لگتی ہے یعنی کم و بیش دس لاکھ مربع میل کے علاقے کی فتح میں کل ایک ہزار چوبیس افراد لقمہ اجل بنے۔جبکہ گزشتہ صدی میں سیکولرازم کی دو بڑی عالمی جنگوں، انقلاب فرانس، روسی انقلاب اورتقسیم ہند سمیت ہر تاریخی موڑپر کروڑہا انسانوں کاخون رائگاں گیا اور سوائے تباہی و بربادی کے کچھ حاصل وصول نہ ہوا۔اتنی کم ترین افرادکی لاگت سے اتنے کثیر ترین نتائج کی برآمدگی اس کثرت فیض کا نتیجہ ہے جو بارگاہ ایزدی سے جناب رسالت ماب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو”کوثر”کی صورت میں مرحمت کیاگیا۔

قرآن مجید جیسا زندہ معجزہ بھی اسی ”کوثر”کااعجاز ہے۔یہ کتاب جتنی کثرت سے پڑھی جاتی ہے،جتنی کثرت سے سنی جاتی ہے،جتنی کثرت سے لکھی جاتی ہے اورجتنی کثرت سے شائع کی جاتی ہے وہ اس ”کوثر”کاایک اور تابندہ پہلو ہے۔یہ پہلو تو بہت ہی کم حد تک لیکن پھر بھی دوسری کتب کے ساتھ موجود تو ہیں جبکہ قرآن مجید کی کثرت حفظ تو ایسا وحدانی معجزہ ہے کہ اس کی کوئی مثال ہی اس آسمان کی چھت کے نیچے اور زمین کے سینے پر موجود ہی نہیں۔سات آٹھ سال کاایک بچہ مدرسے جاتاہے اور دوتین سالوں میں کل قرآن مجیدحلق سے نیچے اتارکر واپس آجاتاہے۔اس ایک کتاب کی جتنی کثرت تفاسیرلکھی گئیںاس کی بھی کوئی مثال عنقاہے۔صدیوں کے بعد جنم لینے والے بڑے بھاری بھرکم دماغ ،مسلمان یاغیرمسلم،اس کتاب پر قلم اٹھانے کی جسارت کرتے ہیں۔

یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے ذہن میں قبل از تاریخ سے بعد ازتاریخ کی کل انسانیت محفوظ ہوتی ہے لیکن اس سب کے باوجود قرآن مجید کی ہرہرآیت ہر ہرنئے لکھنے والے کے سامنے اپنے نئے نئے رازوںسے پردے ہٹاتی چلی چلی جاتی ہے، اوریوں کثرت مطالب و کثرت مفاہیم کا سمندر ہے جو اس کتاب کے طالب علم کے سامنے امڈتا چلاآتاہے اور جو اس کتاب میں ڈوبتے ہیں نہ جانے کیسے کیسے قیمتی یاقوت ومرجان سے بھی عمدہ تر ہیرے جواہرات لے کر نکلتے ہیں۔”کوثر”کاایک اوررنگ قرآن مجیدکی قرات میں نظر آتاہے، دنیا بھر میں اور قرآن مجید کی شروع دن کی تاریخ سے آج تک ،کیافرشتے، کیا جنات، کیا مقدس روحیں اور کیسے کیسے انسان کن آوازوں میںاورکن کن طریقوں سے اورکسی کیسی عقیدتوں سے اورانفرادی و اجتماعی طورپر اس کتاب کی خوش الحانی سے اس حد تک کثرت تلاوت و قرات کرتے ہیں اہل ایمان کی روحیں وجد میں آجاتی ہیں۔

المختصریہ کہ اﷲتعالی نے اس کائنات کو” احدیت ”سے ”اکثریت ”کی طرف وجود بخشا، یعنی پہلے اﷲتعالی اکیلایکہ وتنہا تھا، کچھ بھی نہ تھا بجزذات باری تعالی کے، پھر قدرت خداوندی نے عدم سے اس کائنات کو وجود بخشا اور کیا شان کہ کثرت وجود بخشا، ستاروں کی کثرت، سیاروں کی کثرت، اجرام فلکی کی کثرت، فرشتوں کی کثرت، جنات اور انسانوں کی کثرت اور اس زمین پر حشرات الارض کی کثرت، پرندوں اور جانوروں کی کثرت، درختوں، پودوں اور ان پر پھلوں اور پتوں کی کثرت، سمندری مخلوق کی کثرت، پانی کے قطروں کی کثرت، ریت اور مٹی کے ذرات کی کثرت غرض کہ کرہ ارض کے کل درخت قلمیں بن جائیں اور کل سمندروں کاپانی سیاہی بن جائے تب بھی اس کثرت مخلوق کا احاطہ تحریر ممکن نہیں ہے

Children

Children

ان کی گنتی انسانی قدرت سے کہیں باہر ہے۔اور یہ سب کثرت کے بارے میں اس کثرت کے خالق نے کہا کہ ”انا اعطینک الکوثر”کہ یہ سب کثرت ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا کردی ہے۔ ماں باپ کتنی محبت کرتے ہیں لیکن اﷲ تعالی نے اپنے ماں باپ نہیں بنائے، بہن بھائی کتنے عزیز ہوتے ہیں لیکن ذات خداوندی کے بہن بھائی بھی نہیں ہیں، اولاد آنکھوں کانور ہوتی ہے لیکن خالق کائنات نے اپنے لیے اولاد کو بھی پسند نہیں فرمایا جبکہ ”محبوب”کی ذات ایسی ہے جس کے بغیر خدائی بھی نامکمل ہے۔ محبوب کو بنایا اور کیا خوب بنایا کہ بقول حسان بن ثابت ”کانک قد خلقت کما تشائ”محبوب کو ایسا بنایا جیسا کہ محبوب خود چاہتا تھا۔ محبوب سے محبت کو اپنی سنت بنایا اور کل انسانوں کو حکم دیاکہ میری سنت کے مطابق میرے محبوب سے ہی محبت کرواوراس کے طریقے کے مطابق زندگی گزار کر آؤ گے تو عذاب دوزخ سے نجات اور جنت میں داخلہ ملے گا۔
کی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں یہ جہاں چیزہے کیالوح و قلم تیرے ہیں

تحریر۔۔۔ڈاکٹر ساجد خاکوانی