تحریر : اختر سردار چودھری ماہرین ارضیات ہمیشہ اس کھوج میں رہے ہیں کہ سمندروں میں اتنا زیادہ پانی کہاں سے آتا ہے ۔جس کا جواب حال میں ہی ملا ہے کہ زمین کی گہرائیوں میں پانی کا بہت بڑا ذخیرہ دریافت ہوا ہے جس میں پانی کی مقدار کرئہ ارض پر تمام سمندروں کے پانی سے تین گنا زیادہ ہے (خیال رہے کرئہ ارض پر پہلے ہی پانی ،خشکی سے تین گنا زیادہ ہے ۔سمندروں کے اجتماعی پانی سے تین گنا زیادہ پانی زیر زمیں ہے )یہ پانی زیر زمین چٹانوں کی کئی پرتوں کے بعد 700 کلومیٹر گہرائی میںنیلی چٹانوں کے اندر موجود ہے ۔زمین کے اس اندرونی حصے کو مینٹل کہا جاتا ہے ۔ زیر زمین یہ پانی مائع ، برف یا بخارات کے بجائے ایک چوتھی شکل میں موجود ہے جس سے ہم آشنا نہیں ہیں ہماری زمین کے اندر پانی کی بہت بڑی مقدار پائی جاتی ہے ۔ سائنس دان یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ زمین کے اندر یہ پانی کہاں کہاں تک پھیلا ہوا ہے ۔ہر سال 8 جون کو دنیا بھر کے ممالک میں سمندروں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔
اس دن کو منانے کا مقصد انسان کے لیے سمندروں کی اس کے پانی کی ،آبی جانوروں کی اور سمندر سے جڑے ماحول کی اہمیت بیان کرنا ہے ۔ عوام الناس میں اس کا شعور پیدا کرنا کہ سمندری آلودگی سے نوع انسانی کو خطرہ ہے ،سمندری آلودگی جیسے آبی آلودگی کہنا چاہیے اسے کم کرنے کی مہم چلانا وغیراس مقصد کے لیے اس دن دنیا بھر میں سیمینار ،تقاریب،کانفرنسیں ،ٹی وی پر پروگرام ،اخبارات میں کالم و آرٹیکل لکھے جاتے ہیں ۔یہ دن 1992 میں ” ریوڈی جینرو” میں زمین کے نام سے منعقد کی جانے والی کانفرنس سے منانے کا آغاز ہوا۔ اقوام متحدہ کے تحت 2008 سے ہر سال سمندر کے تحفظ کا شعور اجاگر کرنے کے لئے منایا جاتا ہے۔ انسان کو سمندر سے 40 فیصد تازہ پانی ،50 فیصد سے زائد آکسیجن حاصل ہوتی ہے پانی اور آکسیجن پر تمام جانداروں کی زندگی کا انحصار ہے۔
سمندری علوم کے ماہرین زمین پر پھیلے وسیع و عریض سمندروں کو معدنی ذخائر کا بھی ایک بے بہا خزانہ سمجھتے ہیں۔ اس کے علاوہ دنیا کی 40 فیصد آبادی سمندروں کے نزدیکی ساحلوں پر رہتی ہے ۔یہ ساحل ان افراد کے لیے خوراک کا ذریعہ ہیں۔انسانوں کی آبادی کے ایک بہت بڑے حصے کو سمندر روزگار فراہم کرتے ہیں کروڑوں انسانوں کی روزمرہ کی ضروریات کا انحصار سمندری حیات اور اس سے وابستہ کاروبار پر ہے اس لیے سمندروں کا ماحول انسان اور اس کی بقا کے لیے انتہائی اہم ہے ۔سمندر ماحول پر ایسے بھی اثر انداز ہوتے ہیں کہ موسموں کا نظام سمندروں سے بدلتا ہے ،بارشیں سمندر کے دم سے ہوتی ہیں۔اس لیے سمندروں کی حفاظت اور اسے آلودگی سے پاک رکھنا سب کی قومی ذمہ داری ہے ۔کیونکہ جو آلودگی سیوریج پانی کے ذریعے دریائوں تک پہنچتی ہے وہی دریائوں سے سمندر کا حصہ بن جاتی ہے۔
Pakistan Ocean
پاکستان کا ساحل سمندر 1050 کلو میٹر پر پھیلا ہوا ہے ۔ پاکستان ہر سال سمندر سے حاصل ہونے والی کروڑوں روپے کی آبی اشیاء بیرون ممالک فروخت کرتا ہے ۔ اس کے علاوہ 45لاکھ سے زائد افراد ماہی گیری کے پیشے سے منسلک ہیں۔ پاکستان کے سمندری حدود میں آلودگی کی سب سے بڑی وجہ جہازوں اور لانچوں کا بہنے والا گندا تیل اور بغیر صفائی کے فیکٹریوں سے آنے والا فضلہ،زہریلے کیمیکل وغیرہ ہے ۔پاکستان کی صنعتوں اور رہائشی علاقوں کا استعمال شدہ نصف سے زائد پانی سیوریج کے ذریعے ندیوں ،دریائوں سے ہوتا ہوا سمندر میں بہایا جاتا ہے ۔جس سے سمندر آلودہ ہوتے ہیں سمندری آلودگی سے آبی حیات بری طرح متاثر ہوتی ہے، خاص طور پر سمندرسے حاصل ہونے والی خوراک، مچھلیاں ، جھینگے ، کیکڑے وغیرہ اس کے علاوہ سمندری نباتاتی حیات پر بھی منفی اثر پڑتا ہے۔ الغرض آلودہ سمندروں سے کرئہ ارض کے ماحولیاتی توازن میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے جس کے براہ راست منفی اثر ات انسانی حیات پر بھی پڑتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ماحولیاتی ادارے (یو این ڈی پی) کے مطابق بحری آلودگی کی 80 فیصد وجہ زمینی ذرائع ہیں یعنی دریائوں کی ا لودگی،شہروں اور صنعتوں سے خارج ہوتا گندا پانی وغیرہ ہے ۔سمندر نمکین پانی کے ایک بڑے پھیلاؤ کو کہتے ہیں ۔ یہ بعض اوقات کسی (عموماً نمکین) جھیل کیلئے بھی استعمال ہوتا ہے جس سے پانی کے اِخراج کے لئے کوئی راستہ میسّر نہ ہو۔دنیا میں پانچ بڑے سمندرپائے جاتے ہیں ۔جن کے بارے میں مختصر معلومات یہ ہیں۔”بحر الکاہل” دنیا کا سب سے بڑا سمندر ہے ۔ اسے یہ نام پرتگیزی جہاز راں فرڈیننڈ میگلن نے دیا تھاجس کا مطلب” پرسکون سمندر” ہے ۔بحر الکاہل زمین کے کل رقبے کے ایک تہائی حصے پر پھیلا ہوا ہے جس کا کل رقبہ 179.7 ملین مربع کلومیٹر (69.4 ملین مربع میل) ہے۔ “بحر اوقیانوس “دوسرا بڑا سمندر ہے جو سطح زمین کے 5/1 حصے کو گھیرے ہوئے ہے ۔ اس کا انگریزی نام اٹلانٹک اوشن یونانی لوک کہانیوں سے لیا گیا ہے ۔ اٹلانٹک کا مطلب “اطلس کا بیٹا” ہے ۔”بحر ہند “دنیا کا پانی کا تیسرا بڑا ذخیرہ ہے۔
اس میں دنیا کا تقریبا 20 فیصد پانی ذخیرہ ہے ۔”بحرمنجمد جنوبی” دنیا کا چوتھا سب سے بڑا بحر ہے ۔ اس نے چاروں طرف سے براعظم انٹارکٹکا کو گھیرا ہوا ہے ۔” بحر منجمد شمالی” دنیا کے 5 سمندروں میں سب سے چھوٹا اور کم گہرا ہے ۔ حالانکہ بین الاقوامی تنظیم برائے آبی جغرافیہ (آئی ایچ او) اسے بحر تسلیم کرتی ہے لیکن ماہرین بحریات اسے بحیرہ آرکٹک کہتے ہیں۔ قطب شمالی اسی سمندر میں واقع ہے ۔بات کہاں سے کہاں نکل گئی ہم تو سمندروں کے عالی دن کے حوالے سے لکھ رہے تھے ۔یہ کہنا تھا کہ نسل انسانی کے لیے سمندروں کی کیا اہمیت ہے اس سے صاف پانی،آکسیجن ،خوراک ،روزگار،معدنی ذخائر حاصل ہوتے ہیں ۔سمندر وں سے موسم تبدیل ہوتے ہیں ۔یہ بھی کہنا تھا کہ سمندری آلودگی سے انسانوں کو ہی نقصان پہنچ رہا ہے ،سمندری آلودگی انسان کی وجہ سے پھیل رہی ہے اور اسے کم کرنے کے لیے انسانوں کو ہی کوشش کرنا ہوگی۔