چودہ سال پہلے 12 اکتوبر 1999 کے روز اس وقت کے فوجی سربراہ پرویز مشرف نے منتخب جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ وزیراعظم نواز شریف کو جلا وطن کر دیا گیا جبکہ پرویز مشرف اگلے نوسال ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بن گئے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان کارگل کے محاذ پر جنگ کے بعد اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف اور آرمی چیف و چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل پرویز مشرف کے درمیان شدید اختلافات پیدا ہو گئے۔ 12 اکتوبر کو وزیراعظم نواز شریف نے پرویزمشرف کو اس وقت برطرف کر دیا جب وہ سری لنکا کے دورے سے واپسی پر وطن آ رہے تھے۔
جنرل مشرف کی جگہ ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹننٹ جنرل ضیا الدین کو فوج کا نیا سربراہ مقرر کیا گیا۔ جنرل مشرف کے طیارے کو کراچی میں لینڈنگ سے روک کر اس کا رخ نواب شاہ کی طرف کرنے کا حکم جاری کیا گیا۔ تاہم کور کمانڈر کراچی کے حکم پر ایئرپورٹ کا کنٹرول فوج نے سنبھال لیا اور پرویز مشرف کا طیارہ بالاخر لینڈ کر گیا۔ فوج نے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے سرکاری ٹیلی ویژن، ریڈیو اور تمام ہوائی اڈوں کا کنٹرول سنبھال لیا۔
وزیراعظم ہاس پر بھی فوجی دستے تعینات کر دیئے گئے۔ 14 اکتوبر کو پرویز مشرف نے آئین معطل کر کے ملک میں ایمرجنسی کا اعلان کر دیا اور ایک عبوری آئینی حکمنامہ جاری کیا گیا۔ پرویز مشرف نے ملک کے چیف ایگزیکٹیو کے عہدے کا چارج سنبھال لیا۔ قومی اسمبلی، سینیٹ اور چاروں صوبائی اسمبلیاں تحلیل کر دی گئیں۔ تاہم اس وقت کے صدر رفیق تارڑ اپنے عہدے پر برقرار رہے۔
جنوری 2001میں نواز شریف کو ایک معاہدے کے تحت جلا وطن کر دیا گیا۔ پرویز مشرف نے 2002 میں عام انتخابات کرائے تاہم سول انتظام بحال ہونے کے باوجود جنرل پرویز مشرف 2008 تک ملک میں سیاہ و سفید کے مالک رہے۔