تحریر : محمداعظم عظیم اعظم آخر کار یہ ٹھیک ہے کہ جیسے تیسے شاہراہ ایم اے جناح روڈ کو ایک ہفتے تک بلاک رکھنے کے بعد18 اکتوبر کو کراچی میں پی پی پی کا جلسہ ہو ہی گیا ہے مگر اَب یہ اور بات ہے کہ اِس کی کامیابی سے متعلق کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ پی پی پی کے لئے یہ جلسہ کتنا ناکام ثابت ہواہے یااُتنا کامیاب جس کی توقع کی جارہی تھی ابھی کچھ نہیں کہاجا سکتا ہے ،اِس مخمصے میں مبتلا ہونے کی ایک بڑی وجہ تو یہ ہے کہ اِسی مقام پر ماضی میں جس طرح دوسری جماعتوں (جن میں پاکستان پیپلز پارٹی بھی شامل ہے) کے ہونے والے جلسوں کی کامیابیوں سے متعلق دیکھتے ہی کہاجاتارہاہے کہ یہ کامیاب ہو گئے ہیں اور فقیدالمثال کامیابی سے ہمکنار ہوئے ہیں جبکہ معاف کیجئے گاسائیں آج ایسی کوئی بات پی پی پی کے جلسے میں نہ تو نظرآئی ہے اور نہ ہی محسوس کی گئی ہے بلکہ اَب تو ایسالگتاہے کہ جیسے اِس کا شدت سے احساس خود پی پی پی والوں کوبھی ہوگیاہوگاکہ اِن کی محنت وہ رنگ نہیں دکھاسکی ہے جس کے لئے دن رات ایک کئے گئے تھے، اور حکومت کے خزانے سے اربوں روپے لٹائے گئے تھے اور یہ بھی کہ اِن تمام باتوں کے باوجود جلسہ خود سیاسی اعتبار سے پی پی پی والوں کی نظرمیںحقیقی معنوں میں وہ مقاصد بھی حاصل نہیں کرسکاہے جس کے لئے یہ سب ڈرامہ رچایاگیاتھا…؟کیوں کہ بلاول بھٹوزرداری نے اپنی تقریرمیں کچھ نیانہیں کہاہے، جو عوام سُننے آئے تھے،اِس لئے بلاول کی تقریر کو تاریخی خطاب کہنے اور سُننے والوں کو مایوسی ہوئی اور وہ یوں ہی لوٹ گئے۔
بہر حال…!! پھر بھی سُنوسُنو..!آج پی پی پی اور ن لیگ والے قومی خزانے سے اپنے نوازے ہوئے اُن لوگوں کو جنہیں میرٹ کا قتل کرکے نوکریاں دی گئیںہیں اور جن پر دونوں نے اپنے ذاتی و سیاسی مقاصدکے لئے قومی خزانے کا منہ کھولاہے ( اور اِسی طرح سندھ اورپنجاب کے دوردراز گاؤں اور دیہات سے معصوم اور غریب ہاریوں کو صرف مٹھی بھرمیٹھاچاول کھلاکر اور لسی کاایک گلاس پلاکراور گاڑیوں میں بھر کر اوراِنہیں میلوں کا سفرکرواکر پنڈال میں جمع کریں اور یوں یہ کراچی اور لاہو رسمیت مُلک بھرمیں) لاکھ جتنے بھی جلسے(جلسی) کرلیں مگر اَب اِس حقیقت کوتو کوئی نہیں جھٹلاسکتاہے کہ اِس کے باوجود بھی ن لیگ اور پی پی پی کا سیاسی مستقبل جلد تاریک ہونے کو ہے ،کیوںکہ اَب قوم جاگ چکی ہے اور اَب اِسے ملتان کے ضمنی انتخاب کے بعد یہ یقین بھی ہوچلاہے کہ جہاں عمران و قادری کے گٹھ جوڑسے دونوں کی سیاسی پوزیشنیں مستحکم ہوئی ہیںتووہیں اَب عوام کو پاکستان تحریک انصاف کا سیاسی مستقبل بھی روشن نظرآنے لگاہے۔
آج اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ عوام سیاسی طورپر بیدار ہوچکے ہیں اوراِن میں سیاسی شعورآگیاہے ، گو کہ پاکستان میں تبدیلی آگئی ہے اور اَب وہ دن دور نہیں ہے کہ جب عوام مُلک کو لوٹنے والوں کا احتساب خودکریں گے اور ایک ایک ظالم فاجر و فاسق کا گریبان پکڑ کراپنے اُوپر ڈھائے جانے والے ایک ایک ظلم وستم کا بدلہ لیںگے۔ آج یقینایہ پاکستانیوں کے لئے خوش آئندہ امر ہے کہ اَب عوام کو اپنا فیصلہ کرنا اور اِسے منوانا بھی آگیاہے ،اَب یہی دیکھ لو کہ16اکتوبرکو ملتان۔IIکے حلقہ این اے 149میں ہونے والے ضمنی انتخاب کے غیرسرکاری اور غیرحتمی نتائج کے مطابق تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاداُمیدوار ملک عامرڈوگر52321ووٹ حاصل کرکے کس طرح کامیاب قرارپائے ہیں۔
Aamir Dogar
بیشک یہ عوام کی تبدیل ہوتی سوچ اور جذبہ حب الوطنی اور جذبہ تبدیلی و نیاپاکستان کاہی جوش و ولوالہ ہے کہ عوام نے اپنے سیاسی شعوراور بیداری سے ملتان میںتختِ لاہوریوںاور روٹی کپڑااور مکان کا نعرہ لگاکر68سالوں سے اقتدارپر قابض ہونے والوں کی ضمانتیں ضبط کروادی ہیں اور اِن کا جوحشرکیا ہے.. ؟آج وہ بھی دنیا کے سامنے ہے ، اُمیدہے کہ عوام اپنے دل و دماغ کا استعمال کرتے ہوئے مُلک کو لوٹنے اور قومی خزانے کو خالی کردینے والوں کا اگلے عام انتخابات میں بھی اِسی طرح یا اِس سے بھی زیادہ بُراحشرکریں گے…اوراپنے اکابرین کے موجودہ پاکستان کو نئے انداز سے بنانے کی بنیاد رکھ دیں گے۔ اَب کیا ہوگا…؟؟آ ج یہ وہ سوال ہے جو 16اکتوبر کو ملتان کے ضمنی انتخاب میں شکست خوردہ (ن لیگ اور پی پی پی) کا ٹولہ آپس میں کرتاپھررہاہے ، کیوں کہ آج اِن کے جھوٹ اور فریب اور قوم کو بے وقوف بناکر مُلک کو لوٹ کھانے والے گھناؤنے عزائم کے سامنے عمران خان نیاپاکستان اور تبدیلی کا نعرہ لے کرسیسہ پلائی ہوئی دیواربن کر کھڑاہوگیاہے۔
آج ایسے میںیقینی طور پر عمران خان کو اپنے سامنے یوں کھڑاپاکردونوں(ن لیگ اور پی پی پی) کو اپناسیاسی وجودخطرے سے دوچار ہوتامحسوس ہورہاہے ، اور یہ ماتھے پر ہاتھ رکھ کر سوچوں کے سمندر میں غوطہ زن ہیں کہ اَب یہ کیسے…اپنے جھوٹ و فریب پر کھڑے سیاسی اور اقتداری امیج کوسمیٹیں اور کس کونے کُھدرے سے نکل بھاگیں بیشک…!آج یہ عمران خان کے ہر قسم کے کھوٹ سے پاک صاف وشفاف نظریہء تبدیلی اور نئے پاکستان کا عزم ہی توہے کہ جس نے عوام کو بیدارکیا اور اِس نے عوام میں سیاسی شعورپیداکیاہے کہ عوام اپنا فیصلہ خودکرنے لگے ہیں جس کی ایک بے نظیرمثال ملتان کا ضمنی انتخاب ہے جس میں عوام نے ن لیگ کے درپردہ حامی اُمیدوار جاویدہاشمی( المعروف باغی )کو بُری طرح سے داغی کرکے اپنا فیصلہ دے دیاہے اور نہ صرف یہ بلکہ جہاں ملتان کے ضمنی انتخاب نے نواز لیگ کے ریت کے گھروندے مسمارکرکے اِس کی خیالوں میں بنی بلند پوزیشن کوزمین بوس کردیا ہے تووہیں تحریک انصاف کے حمایت یافتہ عامرڈوگر کی کامیابی نے ن لیگ اور پی پی پی کے رہنماؤں کی ساری سیاسی بھرم بازی کی بھی قلعی کھول دی ہے اور آج جس طرح ن لیگ کے حامی جاویدہاشمی کے 38373اور پیپلز پارٹی کے ڈاکٹرجاویدصدیقی کے 6326ووٹوں کے مقابلے میں تحریک انصاف کے حمایت یافتہ عامرڈوگر52ہزار321ووٹ لے کر کامیاب ہوئے ہیں اِس سے ن لیگ کے سیاسی گلوبٹوں اور پی پی پی کے نئے پرانے جیالوں کے اعصاب پر ایسی کاری ضرب لگی ہے کہ وہ چکراکر رہ گئے ہیں اِنہیں اپنا سیاسی مستقبل تاریک نظرآنے لگاہے۔
اَب ایسے میں وزیراعظم نوازشریف اور سابق صدرآصف علی زرداری اور پی پی پی کے برطانیہ پلٹ نومولود چیئر مین بلاول بھٹوزرداری اپنا چاہیں جتناگلاپھاڑلیں اور جتنی بار چاہیں ایک ایک پاکستانی کے کان میں اپنے یہ جملے اُنڈیلتے رہیںکہ ”استعفیٰ نہیں دوں گا، استعفیٰ مانگنے والے اتنے لوگ تو لائیں، کروڑوں عوام کامنتخب نمائندہ ہوں، (یہ کس طرح کے منتخب نمائندے ہیں سب جانتے ہیں)، چندہزارلوگوں کو لانے پر استعفیٰ کیوںدوں،منافق سیاستدان نہیں ہوں(یہ تو سب جانتے ہیں کہ آپ کتنے منافق سیاستدان ہیںاَب ایساتو مت کہیں) جوآج کل سیاست کررہے ہیں،قوم کا دردہے توائیرکنڈیشنزکنٹینر میں نہ بیٹھو،نیاپاکستان کا دعویٰ کرنے والے پہلے خیبرپختونخواہ کو تونیاخیبرپختونخواہ بنائیں،پاکستان منفی سیاست کا متحمل نہیںہوسکتا،میں احتیاط سے بات کرتاہوں(ہاں قوم نے اوباما سے ملاقات کے دوران دیکھ لیاکہ آپ کتنی احتیاط سے بات کرتے ہیں کہ آپ جو باتیں اُوباما سے کررہے تھے وہ بھی پرچی پہ لکھی ہوئی تھیں…کیوں کہ آپ خودجو جعلی اور بوکس پرچیوں/ووٹوں سے مقامِ عظمیٰ تک پہنچے ہیں)،چھکے چوکے نہیںمارتا،(آپ اور آپ کے بھائی تو لوگوں کوجان سے جو مارتے ہیں بھلاآپ کو چھکے چوکے کیا اچھے لگیں گے ،جناب آپ لوگوں کو تو اِنسانوں کو مارنے سے فرصت ہوتو آپ کو چھکے چوکے بھلے لگیں)کچھ لوگوں کی چوکاچھکالگانے کی عمرنہیں، پھر بھی چھکالگاتے ہیںاور کیچ ہوجاتے ہیں”اور اِسی طرح پی پی پی والے یہ کہتے نہیں تھکتے ہیں کہ” پاکستان پیپلز پارٹی عوام کے دل کی آوازہے” (جناب پہلے کبھی ہواکرتی تھی مگر اَب ایسانہیں ہے جیساکہ آپ لوگ فرماتے ہیں)۔
Bilawal Bhutto
آج کراچی کے 18اکتوبر کے جلسے نے بتادیاہے کہ اَب پی پی پی صرف سندھ میں ہی چند مٹھی بھر لوگوں کے دل کی آوازبن کر رہ گئی ہے پورے پاکستان کی تو بات ہی چھوڑدیں اور اَب پی پی پی والوں کو اِس بات کا بھی یقین ہوجاناچاہئے کہ پی پی پی کا عوام کے دلوں کی دھڑکن بننے والاگھمنڈبھی چکناچورہوگیاہے اور اَب کوئی بھی اِن کی باتوں میں نہیں آئے گا، ملتان کے ضمنی انتخاب کانتیجہ آنے کے بعدیہ بہت ضروری ہوگیاہے کہ عوام اُٹھتے بیٹھتے ، سوتے جاگتے، چلتے پھرتے بس یہی نعرے لگائیں کہ ” گونوازگو” گونوازگو”اور” بس رہنے دو زرداریوںرہنے دو”” بس رہنے دو زرداریوںرہنے دو””حکمرانوںقوم کو بے وقوف بناچھوڑواور اپنا بوریابستراسمیٹو اور چلتے بنو”کیوں کہ اَب عمران خان آگیاہے اوراَب نوازشریف کا اقتدا ر سے اور زرداریوں کا سیاست سے جاناناگزیرہوگیاہے اور اَب اِسی میں ہی پاکستان اور قوم کی بہلائی اور بقاو سلامتی ہے۔
اَب آخرمیںمجھے دانشورومٹھن مری کا یہتاریخی جملہ یادآگیاہے میںچاہوں گاکہ اِسے اپنے پڑھنے والوں کے لئے پیش کروں اور اُن لوگوں کو سمجھاؤں اَب جو ایساکررہے ہیںجیساکرنے کے لئے سائیں مٹھن مری نے منع فرمایاتھا سائیں مٹھن مری کے کہے کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ”اگر جوکربن کر یاجوکروںجیسالباس زیب تن کرکے لوگوں کو ہنسانے والے عام زندگی میں بھی اپنایہی روپ دھارلیں تو اِن کی سنجیدہ زندگی بھی معاشرے میں مذاق بن کررہ جائے گی”مگرآج افسوس ہے کہ جیسے ہمارے حکمرانوںاور سیاستدانوں نے خود کو جوکروں کے کردارمیں ڈھال لیا ہے اوراِسے اپنی حقیقی زندگیوں کا حصہ بنالیاہے آج یہی وجہ ہے کہ اِن کی عملی زندگیوں کا ہر ہر عمل اور اقدام بھی جوکروں کے قول وفعل جیساہوگیاہے، جن میں حقائق سے زیادہ بناوٹ اور جھوٹ وفریب غالب آچکاہے،اور اِنہوں نے ساری قوم کو جوکربنادیاہے کیونکہ آج یہ خود جوکربن کر سیاسی مسخرے بن گئے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ساری قوم اِن کی دی ہوئی تکالیف اور مسائل میںگھرکر بھی ہنستی رہے گی تو جنابِ محترم اَب ایسانہیں ہے کیوں کہ پاکستانی قوم اور پاکستان عوام سیاسی طور پربیداراور باشعورہوگئے ہیںاور آج عوام نے ن لیگ اور پی پی پی والوں کا دیاہواجوکروںوالالباس اُتارپھینکاہے اور عوام اپنافیصلہ اپنے صرف دل سے نہیں بلکہ دماغ و دل کے مشورے سے کرنے لگے ہیں جس کی تازہ ترین مثال ملتان کے ضمنی انتخاب میں نظرآئی ہے۔