تحریر : سردار اصفہان شوکت تھوراڑوی 5 اکتوبر یوم شہدا تھوراڑ ہر سال آتا ہے لیکن اُس ملی جذبے کے ساتھ منایا نہیں جاتا جس طرح دیگر دنوں کو منایا جاتا ہے کیونکہ اس دن 36 شہدائوں نے اپنی تھوراڑ کی عظیم سرزمین پر اپنی جانوں کا نظرانہ پیش کیا ۔ کیونکہ اس دن کی مناسبت سے اس طرح کا جوش و خروش پایا نہیں جاتا جسطرح باقی دنوں میں نظر آتا ہے ۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس میں حکومت کی بڑی بے حسی ہے ۔ کیونکہ جس طرح یہ دن منانے کا حق ہے اُس طرح یہ دن نہیں منایا جاتا اور حکومتی سطح پر کوئی سرکاری تعطیل کا اعلان نہیں ہے تھوراڑ کی سرزمین کو یہ اعزاز حاصل ہے5 اکتوبر 1947 کو ڈوگرہ سامراج اور ہندو فوج ساز و سامان کے ساتھ تھوراڑ پہنچی جس کے مقابلے میں تھوراڑ کے عظیم شہدائوں اور مجائدوں نے ڈٹ کر مقابلہ کیا اور دشمن کی فوج کو دندان شکن شکست دی اگر ڈٹ کر مقابلہ نہیں کیا جاتا تو ڈوگرہ فوج کا جو پروگرام تھاکہ منگ کی عظیم دھرتی میاں سردار سبز علی خان اور سردار ملی خان نے 1832 ء میں اپنے ساتھیوں سمیت زندہ کھالیں کھنچوا کر تحریک آزادی کشمیر کا آغاز کیا اور پھر یہ پروگرام تھا کہ مسلمانوں کو گھروں میں نظر بند کر کے زندہ جلا یا جائے گا لیکن تھواراڑ کے مقام پر مجاہدین اور 36 شہدا نے ڈٹ کر مقابلہ کیا جس کی وجہ سے ہندو فوج پسپائی پر مجبور ہوئی یوں تو 5 اکتوبر کی شام تک 36 آدمی اپنی جانوں کا نظرانہ قوم کے لیے پیش کر چکے تھے جن میں ایک خاتون مائی حسین بی بی بھی شامل تھی لیکن جب حوالدار باقر خان نے شہادت کا رتبہ حاصل کیا تو اس کی جسدخاکی کو دیکھ کر ہندو فوج شش و پنج میں پڑھ گئی یہ تو پختون لباس میں ملبوس ہے اس کے بعد حوالدار باقر کی ایک ٹانگ اور گردن کاٹ کر اپنے انڈین کمانڈر کے پاس لے گے یہ دیکھو یہ تو پٹھان ہیں ان سے ہم مقابلہ نہیں کر سکتے۔
مورہ سنگھ نے تھوراڑ سکول کی سرکاری عمارت کے ساتھ غار میں چھپ کر بہت سے مسلمانوں کو شہید کر ڈالا ۔5 اکتوبر کی شام کو 36 آدمی تھوراڑ کی سرزمین پر شہید ہو چکے تھے زیادہ تر ہندوئوں کو مسلمانوں نے شہید کر ڈالا کیونکہ ڈوگرئوں نے مسلمانوں سے ہتھیار چھین لیے تھے اور اس کے بعد یہ پروگرام تھا کہ مسلمانوں کو گھروں میں بند کر کرکے زندہ جلایا جائے گا مگر یہ منصوبہ کامیاب نہ ہو سکا آدھی رات کو جب کیپٹن حسین خان کا خط ڈی آر کے ذریعے مولانا عبدالعزیز تھوراڑوی کے پاس پہنچا تو اُنہوںنے وہ خط پڑھ کر لوگوں کو سنایا جس میں لکھا تھا کہ ڈوگروں اور ہندوئوں کی فوج جدید ہتھیاراور امینیشن سے لیس ہے جسکا مقابلہ ہم سامنے سے نہیں کر سکتے نہ ہمارے پاس اتنے جدید ہتھیار ہیںاور نہ ہی کسی قسم کا اسلحہ لہذا تھوراڑ سے آگے جہاں تک یہ جا سکیں اُنھیں جانے دیں کچھ آدمی اُن کی طرف فائر کرتے رہیں تاکہ وہ یہ نا سمجھیں کہ یہاں پر کوئی نہیں ہے ۔
5 اکتوبر کی صبح کے قریب جب ڈوگرہ فوج چِل کے مقام پر پہنچی تو ویری لائٹ تھوراڑ کیطرف لگائی تو اُن کو شہید گلہ تھوراڑ کے مقام پر کچھ لوگ نظر آئے اُسکے بعد مولانا عبدالعزیز تھوراڑوی نے یہ اعلان کیا کہ اگر کوئی یہاں رہنا چاہتا ہے تو رہے اور پے درپے فائرنگ کرتا رہے باقی لوگ منگ میں لفٹینٹ محمد افسر سے مل جائیں تو جب یہ اعلان ہوا تو وہاں سے لوگ مولانا صاحب کے اعلان پر لبیک کہ کر ادھر اُدھر ہو گئے اسکے بعد وہاں صرف چار آدمی رہے ۔ ہندو فوج نے پھر ویری لائٹ جلائی تو یہ چار آدمی نظر آ گئے جب وہ کلنگ زون پر پہنچے تو اُنھوں نے فائرنگ شروع کر دی جس سے حوالدار باقر خان شہید ہوا اور دوسرا آدمی میرا نانا غازی محمد قاسم خان ولد ہنس خان (کھمنی،شمالی کانچری) زخمی ہو گئے اور فائرنگ بند ہونے کے چند لمحوں بعد ڈوگرہ فوج وہاں پہنچ گئی حوالدار باقر کی لاش وہاں پڑی تھی اُس کو دیکھ کر ہندو فوج نے کہا کہ ہم ان پٹھانوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے ثبوت کے طور پر اُس کی ٹانگ اور گردن لے گئے اور اپنے کمانڈر کو بتایا کہ ہم ان پٹھانوں کے ساتھ مقابلہ نہیں کر سکتے اللہ کے فضل و کرم سے ہندو فوج کے عزائم کمزور ہو گئے اور وہ واپس جانے پر مجبور ہو گئے اور اُنہوں نے واپسی کا رُخ کر لیا ہندو فوج آگے بھاگتی رہی اور مسلمان مجاہدین اُن کا تعاقب کرتے رہے لیکن وہ پیچھے کہیں بھی مڑ کر لڑائی کا فیصلہ نہ کر سکے جب تک کیپٹن حسین خان زندہ رہے ہندو فوج کیپٹن حسین کے ڈر سے بھاگتی رہی جب کیپٹن حسین خان شہید ہوئے تو دشمن کو خبر ملی تو وہ وہاں ہی رُک گئے آج بھی وہاں پر رکے ہوئے ہیں ۔
جسے لائن آف کنڑول کہتے ہیں یوں تھوراڑ کی اس عظیم دھرتی پر 36 مردوں اور ایک خاتون مائی حسین بی بی نے جام شہادت نوش کیا اس سب میں مائی حسین بی بی کا بڑ اکردار ہے جو مجاہدین کو کھانے پینے کے ساتھ ساتھ زخمیوں کو پانی پلاتی اور اسلحہ بھی فراہم کرتی رہی لیکن یہ سب ہونے کے باوجود تھوراڑ کی عظیم دھرتی کو ڈوگرئوں اور دشمنوں سے آزاد تو کرا لیا گیا اور تھوراڑ کے لوگوں پر جو قرض تھا وہ انکے شہداوں اور غازیوں نے اتار دیا لیکن آج بھی شہیدوں اور غازیوں کی سر زمین کو بنیادی سہولیات سے محروم رکھا گیا ہے تھوراڑ کی عظیم دھرتی کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک برتاجا رہا ہے جیسے شہیدوں اور غازیوں کی سر زمین کہتے ہوئے فخر محسوس ہوتا ہے ۔ آج بھی ہمیں ان جیسے لوگوں کی ضرورت ہے جو 1947 میں اپنے جانوں کو اپنی دھرتی ماں کے لیئے پیش کرتے تھے۔
لہذا میری حکومت آزاد ریاست جموں و کشمیر سے اپیل ہے کہ تھوراڑ کے اس عظیم دن یوم شہدائے تھوراڑ کے نام سے عام تعطیل کا اعلان کیا جائے تاکہ اسکو جس طرح بنانے کا حق حاصل ہے اسکو اسی طرح منایا جائے اور سب جماعتوں کو چاہیے کہ وہ اپنے تمام نظریات کو بالائے طاق رکھ کر عظیم و شان دن منائے جیسا کہ اس کا حق ہے ۔
جو لوگ شہید ہوئے ان میں تھوراڑ سے حوالدار باقر خان ولد سجاول خان ، سپاہی شاکر خان ولد سجاول خان ،سپاہی سیدل خان ولد پہند ا خان ،سپاہی سردار خان ولدخان ولی خان، سپاہی موصول خان ولد سنگی خان ،مسماة حسین بی بی زوجہ گلا ب خان، سپاہی محمد ارشادولدمہدی خان ،سپاہی صلابت خان ولد محمد عالم خان ،سپاہی میر محمدولد حسین خان ،حوالدار مختار خان ولد سمندر خان ۔سپاہی شاہ محمد خان ولد محمد عالم خان ،سپاہی محمد اکرم خان ولدمظفر خان ،لانس نائیک مکھن خان ولد سردار خان ، نڑ سے جو لوگ شہید ہوئے ان میں حوالدار قابل خان ولد ناصر خان ،حوالدار محمد قاسم خان ولد فتح علی ، نائیک شیر احمد ولددفتر خان، سپاہی مٹھا خان ولدغلام خان ،حوالد افسر خان ولد محمد شیر خان،سپاہی ہنس خان ولد پہندا خان ،نائیک فیروز خان ولد مصاحب خان ،نائیک اختیار خان ولد فیروز خان، سپاہی محمد خان ولدنواب خان ،سپاہی سخی محمد خان ولد حشمت خان، سپاہی محمد شیریف خان ولد ٹھو ٹھوں خان ۔ اندروٹ سے جو لوگ شہید ہوئے ان میں سپاہی ہاشم خان ولدحشمت خان،سپاہی حسن خان ولد حیدر خان ۔ سپاہی قاسم شاہ ولدملک شاہ،نائب صوبیدار نواب شاہ ولد حسن شاہ ،پاچھیوٹ سے جو لوگ شہید ہوئے ان میں سپاہی قاسم خان ولد فضل خان ،سپاہی فتح عالم خان ولد صفدر علی خان ،سپاہی لطیف خان ولدفرمان علی شاہ ،سپاہی بگھو خان ولد عبداللہ خان ،لانس نائیک پیر محمد خان ولدمدا خان،نائیک رحمت خان ولدخان محمد خان (رہاڑہ)، نائیک خان محمدولدسمندر خان (ٹائیں )،سپاہی طلح محمد خان ولد غریب خان (بلاڑی )ان میں بعض ایسے بھی ہیںجو گمنام سپاہی کی مانندہیں۔
غم نہیں مجھ کو اپنے بجھنے کا بجھ رہاہوں میں روشنی دے کر