رمضان المبارک کی طاق راتوں میں شب برات کی تلاش کی جستجو اس سال حد سے زیادہ بڑھ گئی تھی۔ ایک زوق تھا جو شوق کی حدیں پھلانگ کر پندرویں روزے کے بعد جنون کی حدوں کو چھونے لگا تھا، طلب کی طنابیں کھنچ کر کمان بن چکی تھیں، یہ ایک ننھی سی خواہش تھی لیکن اس کی جستجو اتنی شدید تھی کہ یہ اس عظیم ترین خو اہش کی طرح اہم ہو گئی تھی جو ہر مسلمان کی دلی تمنا ہوتی ہے کہ مرنے سے پہلے ایک بار آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دیدار نصیب ہو جائے۔
ً شب برات کی تین نشانیاں ہیں ٠ منڈیرشریف سیالکوٹ کی جانب سے بولزانو ( اٹلی) میں مقرر شدہ خلیفہ رئیس الحسن جنید باری سٹریٹ کے چائینز کیفے میں بیٹھے رک رک کر بتا رہے تھے، انھیں یہ نشانیاں مرکز محبوب ذات کے ہونہار اور لاڈلے جانشیں شہزادہ سید احمد ابن اقبال نے بتائی تھیں، جن کے بارے میں صاحبزادہ پیر نیئر اقبال فرماتے ہیں کہ دور حا ضر میں خانوادہ محبوب ذات میں عبادت و ریاضت کے اعتبار سے شہزادہ ابن اقبال سب سے بڑھے ہوئے ہیں ، ٠ انھوں نے بات ب آگے بڑھائی ،موسم خواہ کیسا ہی ہو اس رات ہلکی ہلکی پھوار پڑنے لگتی ہے۔
ہر شے اپنے اپنے مقام پر ساکت و جامد ہو جاتی ہے، ماحول پر سناٹا چھا جاتا ہے، یو ں سمجھئے مظاہر قدرت میں کوئی ارتعاش ہی باقی نہیں رہتا۔ اور دوسری نشانی یہ ہے کہ ہر چرند پرند اور حیوان خاموش ہو جاتا ہے ، حشرات الارض کی زبانوں پر ان دیکھے قفل پڑ جاتے حتی کہ سر سرراہٹیں تھم کر بے نطق ہو جاتی ہیں ، شور کی حقیقت باقی نہیں رہتی ، قرب و جوار سے آنے والی اکا دکا آوازیں ایک سامع کیلئے ایسی کیفیت پیدا کرتی ہیں جیسے اونچائی سے گرنے والا،پانی میں ڈو بنے والا یا قومہ میں پڑا ہوا کوئی انسان اپنے ارد گرد سے آنے والی کسی آواز کو سن کر محسوس کرتا ہے۔ ٠خلیفہ صاحب چند ساعتوں کے لئے رکے، ان کے چہرے پر مکمل اطمنان تھا۔ سکون کی لہروں نے ان کی صورت کا احاطہ کر رکھا تھا۔کچھ ہی لمحوں میں بڑی بڑی آنکھوں پر سایہ فگن گھنی پلکوں کو نرمی سے ہولے ہولے جھپکاتے ہوئے وہ کسی اور دنیا میں جا پہنچے، ان کا جسم وہیں موجود تھا لیکن روحانی طور پر وہ منظر سے غائب ہو چکے تھے۔ میں نے بے چین ہو کر ادھر ادھر دیکھا، میرے بائیں جانب ایک معمر لڑکا زبیر محی الدین جو اپنی عمر سے پہلے ہی بوڑھا ہوچکا ہے ، کرسی پر بیٹھاتھا ۔اس کے علاوہ وہاں کوئی اور ہمارے درمیان موجود نہیں تھا۔ رات کا ڈیڑہ بجنے والا تھا، چائینز کیفے کی مالک انٹری گیٹ بند کر کے کب کی جاچکی تھی۔ ٠ اور تیسری نشانی ٠؟ سیماب صفت زبیر محی الدین سے ایک منٹ تینتالیس سیکنڈ سے زیادہ نہ رہا گیا ،اس نے اپنی آواز کے عمومی لیول سے زیادہ اوپر جاکر اونچی آواز میں سوال کر کے سکوت کو توڑ دیا۔
خلیفہ صاحب کے جسم میں یکدم ارتعاش پیدا ہوا، بجلی کا ایک کوندہ لپکا اور انھوںنے ایک جھتکے سے جھر جھری لیکر آنکھیں کھول دیں۔ وہ بیگانوں کی طرح انجانی نظروں سے ہم دونوں کو ایک ایک کر کے دیکھنے لگے۔ ہمیں چپ لگ گئی، مگر اگلے ہی لمحے ایک دلآویز مسکراہٹ ان کے لبوں پر مچلنے لگی،اور وہ گویا ہوئے ٠تیسری ن نشانی یہ کہ درخت سجدے میں جھک جاتے ہیں ٠ ۔ زبیر محی الدین اسم با مسمہ ہے ، وہ سچے عاشق رسول،یورپ کے معروف صحافی اور اٹلی میں جیو کے نمائندے ڈاکٹر جاویدکنول کاصاھبزادہ ہے ، اگر اٹلی کے کامیاب اور محنت کش نوجوان تارکین وطن کی ایک فہرست بنائی جائے تو وہ فہرست سعادت مند، محنتی اور جفاکش زبیر محی الدین کے زکر کے بغیر یقینی طور پر نا مکمل رہے گی، اس کا نام رکھنے کا قصہ بھی بڑا دلچسپ ہے،صاھبزادے دنیا میں تشریف لائے تو والد صاحب پھولے نہ سمائے،نام رکھنے کا وقت آیا تو فکر مند ہوئے اور اپنے پیر و مرشد جناب معصوم (کھاریاں پنجاب ) سے رابطہ کیا، اعلحضرت نے حال احوال معلوم کیا اور پھر مبارکباد دی بعد ازاں پوچھا ٠ زہیر کا کیا حال ہے ٠ ؟ڈاکٹر صاحب ، کشمکش میں پڑ گئے اور دل ہی دل میں سوچنے لگے۔
کون زبیر،میں تو مرشد یا مریدین کی طرف سے کسی زبیر کو نہیں جانتا، کچھ لمحے اسی شش وپنج میں مبتلارہے پھر فورا سنبھل گئے، اور مرشد کا اشارہ پا گئے، حکم کی رمز قلب کے راستے زہن کے پردے پر ابھر آئی، خوش ہوگئے،اور مطمئن ہوکر بس اتنا عرض کیا ٠ جو حکم سرکا ر ٠۔ اپنی عمر سے زیادہ سوچنے اور کرنے کے باعث زبیر تھک سا گیا ہے، تھکاوٹ اس کی آنکھوں سے صاف چھلکتی ہے، اس کے باوجود وہ ہر وقت کام میں جتا رہتا ہے، ہفتے میں ایک دن کھل کر سونا اس کی واحد خواہش اور تفریح ہے۔ یورپ کے کسی ملک میں فیملی کے ساتھ رہنے والا سترہ سال کا کوئی پاکستانی نوجوان پڑھتا ہے یا گھومتا ہے، خواب دیکھتا اور ان کے تعبیر کے لئے صرف منصوبہ بندی کرتا ہے ، کیونکہ اسے فیملی سپورٹ ہوتی ہے، مگر زبیر محی الدین نے لڑکپن کی اس کچی عمر میں خاندانی کفالت کی کاٹھی کس کر اپنے کندھوں پر باندھ لی تھی۔
Wasim Raza
سڑکوں پر نوکری کی تلاش میں نکل آیا تھا۔ تب سے آج تک سرپٹ دوڑ تا ہی چلا جا رہا ہے۔ اس کی اداس آنکھوں میں تنہائی کے سائے اتنے گہرے ہیں کہ آج تک کوئی جان ہی نہیں پایا کہ اسے کیا دکھ ہے، ،کوئی پیار سے بات کر لے تو لگتا ہے ابھی رو دے گا۔ دوسروں کو دکھ میں نہیں دیکھ سکتا، ضرورت مند کی مدد کر کے خوش ہوتا ہے اس کی سوچ ہے کہ انسانیت بھی تو کوئی چیز ہے ،اور سب سے بڑ ھ کر آخرت اور اس کا حساب۔ زبیر شادی سے پہلے ہی باپ بن گیا تھا ، کنوارہ باپ،ایک ایسا باپ جس نے اپنے بہن بھائیوں کو ہی اپنے بیٹے بیٹیاں بنا لیا تھا، ایک بار کہنے لگا ٠ میں نے ا پنی جوانی اور مستقبل اپنے بہن بھائیوں پر قربان کر دیا، اگر میں خود غرض بن جاتا تو آج میرے پاس
اعلی تعلیم اور بہتر جاب ہوتی،لیکن میرے بہن بھائی اعلی تعلیم،اچھی خوراک اور بنیادی ضرورتوں سے محروم رہ جاتے ٠ ۔ وہ سیلف میڈ ہے اپنی زات کے لئے کسی سے کچھ مانگنا اپنی توہین سمجھتا ہے لیکن فیملی اور بہن بھائیوں کی ضرورت کا معاملہ ہوتو تڑپ اٹھتا ہے وہ اپنی انا کچل کر دوست و احباب سے لین دین کرنے سے زرا نہیں ہچکچاتا۔ زبیر کے بھائی اس کے کندھے سے آ لگے ہیں کبھی کبھی ان کی تربیت و اصلاح کے لئے ان کو بلا کر اتنا ضرور کہتا ہے ٠ جب کوئی میرے بارے میں کہتا ہے کہ وہ جاوید کنول کا بیٹا جا رہا ہے تو میرا سینہ فخر سے چوڑا ہوجاتا ہے، میں چاہتا ہوں تم، اتنی ترقی کرو کہ لوگ کہیں یہ دانش کا بھائی جا رہا ہے ، جس دن ایسا ہو میں سمجھوں کا مجھے میری محنت کا پھل مل گیا ،بس مجھے کچھ اور نہیں چاہیئے ٠ زبیر نے جس کام میں ہاتھ ڈالا اس کی انتہا کو چھویا، دنیا کی مزدوری کی تو ایسی کہ جس نے دیکھا اس نے کہا مزدوری کرنی ہو تو زبیر جیسی کرو، انتھک اور مسلسل محنت، چوبیس گھنٹوں میں اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کام۔اور جب اللہ کی مزدوری کا ارادہ کیا تو اللہ کا نام لوگوں کے دلوں اتارنے کے لئے دن رات ایک کردیا۔
انگلینڈ والے پیر بابرصاحب کے سامنے زانوئے تلمذطے کیا تو بولزانو اور گردونواح میں مختصر عرصے میں سیفی سلسلہ کے جھنڈے گاڑ دیئے، مرشد سے روحانی قربت کا یہ عالم تھا کہ تھوڑے ہی دنوں ساتوں ازکار جاری ہوگئے، سیفی محافل میں اللہ اللہ اللہ کی ضرب پڑتی، تو وہ مرغ بسمل کی مانند تڑپتا،عشق کا یہ عالم تھا کہ ہر محفل کی جان ہوتا، بھاگ دوڑ کے علاوہ وسائل بھی خرچ کرتا، پیر بھائیوں کا بہت بڑا حلقہ تیار کرنے میں ا سکا کردار سب سے اہم تھا، مرشد کا ا حترام اور استقبال جیسا زبیر نے کر کے دکھایا کوئی اور نہ کر کے دکھا سکا، ریش مبارک،اور پابندی نماز کے تحائف اسے اپنے مرشد کی نظر کرم سے ہی عطا ہوئے، پیر بابر صاحب نے زبیر کو اعلی روحانی منازل طے کروانے کے لئے منتخب کر لیا تھا انھیں خلیفہ مقرر کرنے کا عندیہ بھی دے دیا تھا، یہ سب اس کی ریاضت کا نتیجہ تھا، خلیفہ رئیس الحسن جنید دشت سناسی کے بھی ماہر ہیں، ایک بار انھوں نے زبیر کا بھی ہاتھ دیکھا تھا ۔
جب ماضی حال اور مستقبل کی ساری پرتیں کھول کر بتا چکے تو پوچھا اب آپ بتائیں اگر آپ کوئی خاص بات پوچھنا چاہتے ہیں ،اس دن اس نے نے جو بات پوچھی اس سے زبیر کی شخصیت کے اندر چھپا ہو اصل انسان کھل کر سامنے آیا، زبیر نے صرف اتنا پوچھا ٠ میرا ہاتھ دیکھ کر بتائیں تصوف و روحانیت کا جو عروج مجھ پر ماضی میں آیا تھا کیا وہ پھر وہ کبھی لوٹ کر واپس آئے گا ٠ ؟ روحانیت کی یہ جو کمی زبیر کے اندر رہ گئی ہے شائد یہی اس کے اداس و تنہا رہ جانے کی اصل وجہ ہے۔ شب برات کو پانے کی تیاریاں میں نے اٹھائیس رمضان المبارک کو علی الصبح ہی شروع کردی تھیں ، اسی لئے سحری کے بعد اپنے سمارٹ فون پر موسم کا حال جاننے کی آپشن تلاش کرنے لگا، یورپی ممالک کے محکمہ ہائے مو سمیات کی پیشین گوئیاں ناقابل یقین حدتک درست ثابت ہوتی ہیں، بھول چوک کا امکان بہت کم ہوتا ہے،اس روز ، دن اور رات کی موسمی پیش گوئی پر نظر پڑی تودل بجھ بھی گیا،ساری کی ساری تیاری دھری کی دھری رہ گئی،دن کو چمکتے سورج اور رات کے نیم گرم ہونے کی پیشن گوئی کی گئی تھی ، میرے دل میں آیا کہ اگر اس بار انتیس روزے ہوئے تو کیا جولائی 2014میں شب برات کے حصول کا میرا خواب ادھورا ہی رہ جاے گا ؟ میں نے اھتیاطا ریموٹ کنٹڑول پکڑا اور موسم کا حال ٹیون اپ کیا،ٹی وی پر بلکل ویسی ہی پیشن گوئی کی گئی تھی، میرے جزبات مکمل طور پر سرد پڑگئے،ریموٹ کنٹرول کو بے بسی سے تقریبا پھینکنے کے انداز میں ٹیبل پر رکھا اور صوفے پر گر کر ٹیک لگاتے ہوئے آنکھیں موند لیں، اشتیاق نے دم توڑا تو زہن ہر طرح کے خیالات سے یکسر خالی ہو گیا، اور ناجانے کب میری آنکھ لگ گئی۔
بولزانو قدرتی حسن سے مالا مال ہے،مظاہر قدرت کی نیرنگیاںہر سو جلو ہ گر ہیں، یہ ایک چھوٹا سا شہر ہے جو سبزے سے لدے بلندوبالا پہاڑوں کے حصار میں مقید ہے، گھرسے باہر جھانکیں تو سب سے پہلے جس شے پر نظر پڑتی وہ ہر سو پھیلے ہوئے پہاڑہیں،اس صبح بھی یہی ہواچند گھنٹوں کی نیند کے بعد بیدار ہوا ،اور شیشے سے باہر نظر پڑی تو سامنے ایک عظیم الجثہ پہاڑ کھڑا تھا اس سے پہلے کہ میری نگا ہ و اپس لوٹتی میرے حواس کو ایک جھٹکا سالگا ،میری نظروں نے جو کچھ دیکھا وہ دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ ولولہ انگیز بھی تھا، میں نے دیکھا کی دور دور تک پھیلے ہوئے پہاڑوں کے نشیب و فراز میں کہیں کہیں سفید سفید بادلوں کی ٹولیاں ڈیرے جمائے بیٹھی تھیں، چمکدار روشن دن میں بادل اور سورج ایک دوسرے کے مقابل تن کر کھڑے تھے،سورج رفتہ رفتہ اپنی حدت بڑھا کر اور بڑے بڑے ڈیل ڈول والے بادل جھوم جھوم کر اپنی پیش قدمی کا احساس دلا کر ایک دوسرے کو کھلا چیلنج دے رہے تھے، مقابلے کے پہلے راؤنڈ میں موسم کی پیشین گوئی کے بر عکس بادلوں کامیدان میں نکال آنا اور ڈٹ جانا ان کے حق میں مثبت فیصلہ کروا چکا تھا، اس کے باوجود فریقین ایک دوسرے کو للکار رہے تھے،میرے زہن میں عامر خان کی لگان کا کلائمکس سین گھوم گیا، کپتان کی ناامید اور بے بس ٹیم کی محرومیوں کو امید کی ایک اور کرن نظر آنے پر ڈھول پر جو ولولہ انگیز تھاپ پڑی تھی، بالکل ویسی ہی گونج کی آواز کے زبردست نقارے مجھے اپنے کانوں میں بجتے ہوئے محسوس ہونے لگے، میں نے موبائل پر ویدر آپشن اور ٹیلویژن پر موسم کا حال دوبارہ چیک کیا لیکن دونوں جگہ سورج کی حکمرانی کے چرچے تھے، میری امید پھر ٹوٹ گئی، مگر ناجانے کیوں دل کے کسی کونے میں ایک ہلکی سی آس اب بھی زندہ تھی اور مچل مچل کر کسمسا رہی تھی۔
Ramadan
کچھ نہ کچھ ہونے والا تھا، اور وہی ہوا، ا ٹھائیسویں رمضان المبارک کی سہ پہر تک بولزانو میں ہر سو جل تھل چکی تھی، طوفان باد باراں کے ساتھ اتنی شدید بارش برسی کہ گزشتہ کئی سالوں سے اتنی موسلا دھار بارش نہ ہوئی تھی، محکمہ موسمیات کی پیشین گوئی غلط ثابت ہوچکی تھی، فطرت نے اپنی قدرت کے مسلم ہونے اور انسانی ا ختیار کا نیچر اور فطرت کے مقابلہ میں محدود ہونے کا ثبوت دے کر ٹیکنالوجی کو ایک بار پھر متنبہ کر دیا تھا، کالے سیاہ بادلوں نے آسمان کو ڈھانپ رکھا تھا، شام چھ بجے کے قریب برسات پوری طرح رک چکی تھی ،رات کے آثار پیشگی نمایاں ہونے شروع ہوگئے،بادل چھٹ گئے،اور آسمان بالکل صاف ہوگیاتھا، لیکن پھر اچانک وقفے وقفے سے ہلکی ہلکی پھوار پڑنی شروع ہو گئی، نہ بادل نہ بارش پھر یہ پھوار کیسی ؟ میں کچھ کچھ سمجھ رہا تھا آج رات کچھ ہونے والا تھا،آثار گواہی دے رہے تھے میں نے پھر شب برات کو پانے کی تیاری شروع کر دی،میرا دل فرط جذبات سے بلیوں اچھلنے لگا۔ اس وقت رات کے آٹھ بج رہے تھے ، میں نے خود کو جان بوجھ کر کمرے میں قید کر کے معمولی کاموں میں مصروف کر رکھا تھا،باہر کی فضا کی کیفیت کا مجھے کوئی علم نہیں تھا، ابتہ ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے نصف سے زیادہ شب بیت چکی ہے، میرے اندازے کی بنیاد یہ تھی باہر سے شوروغل کی کو ئی آواز نہیں آرہی تھی،ویسے تو عمو ما بارش کے بعد رات کو اکثر لوگ گھروں میں دبک جاتے ہیں ،عورتیں اور بچے تو بلکل باہر نہیں نکلتے، چرند پرند اور جانور بھی گھونسلوں اور محفوظ پناہ گاہوں میں گھس کر اونگھنے لگتے ہیں ،لیکن ہنستے بستے شہر میں رات کے آٹھ بجے سناٹا چھا جانا میری سمجھ سے بالاتر تھا ۔ میں نے کرسی سے ٹیک لگا کر بسم اللہ کیہ کر درود ابراہیمی پڑھا اور اول الزکر لا الہ الاللہ کو ورد شروع کر دیا،رفتہ رفتہ لا الہ کے زیروبم میں اضافہ ہونے لگا، کیف بڑھا تو میں کچھ دیر بعد دنیا و مافیا سے بے خبر ہوگیا،ناجانے کتنا وقت گزر گیا،زکر اللہ کا چڑھتا دریا سمندر کی تندو تیز لہروں کی مانند ٹھاٹیں مار رہا تھا،جزب و مستی کی کیفیت میں کچھ کمی ہوئی تو دھیان چاروں اسم اعظم پڑھنے کی جانب چلا گیا،میں ایک ایک کر کے اسم اعظم کا زکر کرنے لگا، یا حئی یاقیوم،یا ارحام الراحیمین،یا ذولجلال ولاکرام،یا رحمتہ للعالمین۔ یہ اذکار باوا جی سرکار کو ودیعت ہوئے تھے،جن کا ورد آج بھی ان کی خری آرامگاہ پر دن رات جاری رہتا ہے۔
فلاح و بہبود کے مرکز دارالبرکت و دنیا میںاپنی نوعیت کے منفرد زخیرہ قرآن،قرآن محل، فری آئی کیمپ،اور درجنوں فلاح منصوبوں کے روح رواں صوفی برکت علی المعروف باواجی سرکار(فیصل آباد) فوج میں اعلی عہدے پر فائز تھے، زہنی رجحان اور میلان طبع قدرتی طور پر تصوف اور روحانیت کی جانب مائل تھا، جب طبیعت نے بہت زور مارا تو فوج سے استعفی دے کر راہبر کی تلاش میں بھٹکنے لگے۔ اللہ والوں کی درگاہوں اور مزاروں پر حاضریاں دیتے دیتے راہبر کو پا لیا، سال ہا سال کی عبادت و ریاضت اور مرشد کی نظر کرم سے گوہر مقصودہاتھ لگ گیا،اور روحانیت کے اعلی مقام پر فائز ہوگئے، ایک روز اپنی کٹیا میں آگ جلانے کے لئے تنکے اکٹھے کر رہے تھے اخبار کا ایک ٹکڑا ہوا کے زور پر اڑتا ہوا ان کے پاؤں سے آکر لپٹ گیا،اخبار اٹھایا تواس پر چھپی ہوئی تصویر دیکھ کر آنکھوں میں آنسو آگئے تصویر میں ان کے رینک کے ایک افسر جو اب فل جنرل بن چکے تھے لوگوں میں انعامات تقسیم کر رہے تھے ایک لمحے کے لئے اپنی کم مائیگی کا احساس ہوا ، کہاں فقیر کہاں سپہ سالار، دل میں آیا کہ اگر فوج نہ چھوڑتے تو آج فوج کے جنرل ہوتے، اس خیال کا زہن میں آنا ہی تھا کہ اللہ کی عظمت نے جوش مارا ٠ بندہ میرا ہو اور دنیاوی توقیر دیکھ کر غم کھائے٠ قلب پر فورا حکم اترا ٠ اپنے اردگرد دیکھ٠ باوا جی سرکار نے جاروں طرف نظر دوڑائی تو دور دور تک ہیرے جوہرات کے ڈیر لگے تھے،پاؤں کی جانب دیکھا تو پییروں میں لعل و یاقوت رل رہے تھے، اللہ کے ولی کے دل کو ڈھارس بندھی، وسوسوں پر اللہ سے توبہ کی اور خوش ہو کر تنکے چگنے میں مصروف ہوگئے، اپنی نامور تصنیف ٠مکالات حکمت٠ میں لکھتے ہیں یہ چاروں اسم اعظم بار تعالی نے خصوصی طور پر انھیں عطا کئے ،ان کا ورد ہر روحانی و جسمانی مرض کا علاج ہے۔ ان کا ایک مقولہ بڑا مشہور ہے ٠وہ دن دور نہیں جب پاکستان کی ہاں اور نہ میں اقوام عالم کی فیصلے ہوا کریں گے٠ رات کے ساڑھے بارہ بجے تھے،میں اچانک اٹھا اور آہستہ آہستہ کھڑکی کی جانب بڑھنے لگا کھڑکی کے دروازے سختی کے ساتھ بند تھے۔ میرا وجدان کیہ رہا تھا کہ آج باہر میں جس فضا کو دیکھنے کا متمنی ہوں مجھے بلکل ویسا ہی ماحول ضرور دیکھنے کو مل جائے گا، ٠لیکن اگر ایسا نہ ہوا تو ٠؟ اس خدشے کے سر اٹھاتے ہی میرے زکرو ازکار میں شدت اور تیزی آگئی،اب میں کھڑکی کے بلکل نزدیک پہنچ چکا تھا،خدشات و امکانات کی جنگ جاری تھی ، اسی کشمکش کے دوران میں نے کھڑکی کے دونوں ہینڈلز کو تھاما اور اور اندر کی جانب تیزی سے یوں کھول دیا کہ میرے دونوں بازو دائیں اور بائیں بلکل سیدھ میں پھیل گئے، تازہ ہوا کا ا یک تیز جھونکا پوری قوت سے میرے چہرے کے ساتھ ٹکرایا ،ہوا میں عجیب سی خوشبو رچی تھی، ہوا کا جھونکا میری سانسوں کے زریعے کچھ اس طرح سے جسم میں داخل ہو ا کہ میری روح ایک جھر جھری لیکر کھل اٹھی۔
کھڑکی کے باہر کی دنیا کا نظارہ ہی کچھ اور تھا ، رات گہری ہونے کے باوجود مکمل ا ندھیرا نہیں تھا، ہر شے نکھری نکھری تھی ، جس چیز پر نظر پڑتی وہ حسن و جمال کا پیکر بنی کھڑی تھی۔ ملگجی اندھیرے کے اوپر نور کی چادر تنی تھی، جس کے اندر سے سارا منظر اپنے تمام تر خدوخال کے ساتھ نمایاں ہو رہا تھا، پہاڑ اپنے ہیولوں سمیت اتنے واضح نظر آرہے تھے جیسے پہاڑوں کی چوٹیوں پر ہلکے واٹ کی فلڈ لائٹس نصب کر دی گئی ہوں ، یوں گمان ہو رہا تھا پہاڑوں کے عقب میں آگ کے بڑے بڑے ا لاؤ روشن ہیں جن کی روشنی سے پہاڑوں کی اونچائیاں،گولائیاں اور ان کے بارڈر پوری طرح سے واضح ہو رہے تھے،دور کے پہاڑ قریب آگئے تھے ، قربت کے باعث لگ رہا تھا جیسے ادب سے جھک گئے ہیں،ہر شے پر سکوت طاری تھا، سناٹا اتنا گہرا تھا کہ چھو کر محسوس کیا جاسکتا تھا، گاڑیوں کے شور ، چرند پرنداور حشرات الارض کی آوازوں کو خاموشی نے اپنی مٹھی میں جکڑ لیا تھا، پالتو جانور سہم کر یوں چپ ہوگئے تھے جیسے ان کو کسی نے ہپنا ٹائز کر رکھا ہے، دور کہیں سے سائرن کی آواز سلوموشن میں آتی ہوئی محسو س ہو رہی تھی، پوری فضا کو کسی غیر مرئی قوت نے اپنی گرفت میں لیکر اس پر سحر پھونک دیا تھا۔ زمین و آصمان بے بس ہو کر ساکت و جامد کھڑے تھے، وقفے وقفے سے ہلکی پھوار جاری تھی، رات جوں جوں ڈھل رہی تھی فضا معطر ہوتی جارہی تھی،یہ رات عام راتوں جیسی بلکل نہیں تھی ،یہ رات اپنی تمام تر لطافتوں اور برکتوں کے ساتھ ایک خاص رات ہونے کا ببانگ دہل اعلان کر رہی تھی۔ اچانک میری نظر درختوں پر پڑی ،قربب وجوار اور دور پہاڑوں پر اگے درختوں پر، میری حیر ت گم ہوگئی، جس جس درخت پر نظر پڑی وہ خم کھا کر جھکا کھڑا تھا، چیڑ اور کرسمس کے لمبے لمبے درخت چوٹیوں کی جانب سے واضح طور پر سجدے میں جھکے ہوئے تھے ،تمام نشانیاں پوری ہوگئی تھیں ، ہر اشارہ اپنی جولانیوں پر متمکن تھا، آج یقینا شب برات تھی جو مجھے مل گئی تھی۔ اب مانگنے اور پا لینے کا وقت آگیا تھا، میں اپنی قمیض کی آستینیں چڑھاتا ہوا وضو کے لئے واش روم کی جانب بھاگ اٹھا۔
محبوب زات سید احمد حسین شاہ زبیر محی الدین خلیفہ رئیس الحسن جنید شہزادہ سید ا حمد ابن اقبال صوفی برکت المعروف باوا جی سرکار ڈاکٹر جاوید کنول وسیم رضا صاحبزادہ ہ نیئر اقبال، منڈیر شریف سیداں سیالکوٹ پاکستان