تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری سیاسی فرقہ باز، لسانی علاقائی، مسلکی دہشت گرد بھی سامراجی کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں مگر پوری دنیا میں اس “خِدمت عظیم” میں 95 فیصد غیر مسلم ہی پائے گئے۔ ہندو بنیے ہوں ،روسی ریچھ یا امریکی و یہودی کارندے یا ان کے ایجنٹ سبھی سامراجی بکھیڑے ہی ہیں ان کے چنگیزی مظالم برداشت نہ کرسکنے کے نتیجہ میں اسلامی ممالک کے اندر مخالفانہ تحریکیں بھی جنم لیتی رہی ہیں۔ پھر ایسی تحریکیں ظلم کو روکتے روکتے خود ظالم کا کردار ادا کرنے لگ گیئں۔ اس طرح لفظ سامراج کافی بڑی گالی بن چکا ہے۔
سامراجیوں نے پوری دنیا پر قابض ہونے کی خواہشوں کے تابع مخالفین کا جینا دو بھرکر رکھا ہے صرف امریکی یہودی سامراجیوں نے تقریباًدو صدیوں کے دوران 73ممالک کے ڈیڑھ ارب سے زائد افراد قتل کرڈالے ہیں کوئی ہی ملک بچا ہو گا جو ان کی غنڈہ گردی ،دہشت گردی اور پلید دست درازیوں کا شکار نہ ہوا ہو۔ان کا حال اس بھیڑیے کی طرح ہے جو ایک ندی پر پہنچاوہیں بھیڑ کا ایک بچہ پانی پی رہا تھابھیڑیے نے کہا کہ تم دیکھ نہیں رہے کہ میں پانی پی رہا ہوں اور تم پانی کو گدلا کر رہے ہومعصوم بچے نے کہا کہ پانی آپ کی طرف سے میری طرف بہہ رہا ہے میں اسے کیسے گدلا کرسکتا ہوں۔بدمعاش سامراجی بھیڑیا غصہ سے بولا اچھا تو تم نے پچھلے سال کیوں ایسا کیا تھا۔
Killing
بچے نے بتایا کہ اس کی عمر کم ہے وہ پچھلے سال پیدا ہی نہیں ہو ا تھا۔ظالم بھیڑیے نے کہااچھا تو وہ تمہارا بھائی ہو گا۔جھپٹا اور اسے ہڑپ کرڈالا۔سامراجیوں نے عراق پر حملہ کیا کہ وہاںمطلوبہ مخصوص اسلحہ یا ایٹمی مواد مو جود ہے۔1990سے اٹھارہ لاکھ انسان قتل کیے ۔دنیا بھر کی دہائیوں کے بعدصرف اتنا کہا کہ ہمیں غلط فہمی ہوئی تھی ۔کیا صرف ایک جملہ سے لکھوکھامسلمانوں کے قتلوں کا مداوا ہوسکتا ہے؟ہر گز نہیںبین الاقوامی عدالت ا نصاف سویو موٹو لے کر سامراجیوں کی طرف سے نا حق قتل کیے گئے کلمہ گو افراد کے جرم میں قرار واقعی سزا سنائے جو کہ کم ازکم سربراہ اور متعلقہ بیورو کریٹس کو تختہ دارپر لٹکانا ہونی چاہیے تاکہ جب ان کا دل چاہے کسی بھی کمزور ملک خصوصاً اسلامی ملکوں پر نہ چڑھ دوڑیں۔ مگر ان کی خود ساختہ عدا لتِ انصاف کیسے انصاف کرسکتی ہے اور اپنے ہی بندوں کو سزا سنا سکتی ہے۔عالم اسلام کے سربراہوں کو تمام فقہی ،مسلکی ،علاقائی ولسانی اختلافات بالائے طاق رکھ کر مل بیٹھنا ہو گاتو ہی قتل گاہیں سجنے سے رک سکتی ہیں۔وگرنہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا معاملہ چلتارہے گا اور ہمیں سامراجی گماشتے رونے تک کی فرصت نہ دیں گے اور مسلمانوں کی لاشیں یو نہی بے گور و کفن گہری کھائیوں میں مدفون ہوتی رہیں گی اور تیل کی وہ دولت جس پر ہمیں اتنا ناز ہے وہ بھی آہستہ آہستہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے غلیظ حربوں کی طرح بیرونی کاروباری ایجنسیوں کی ملکیت بنتی چلی جائیں گی اور ہم صرف دور کھڑے کف افسوس ملتے تماش بین ہی رہ جائیں گے۔
امریکہ کے پالتو بھیڑیے اسرائیل نے1948سے لیکر آج تک ساٹھ لاکھ سے زائدمسلمانوں کو لقمہ اجل بنا ڈالا ہے۔اور مسلمان صرف “شہیدکی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے” کے نعرے لگانے پر اکتفا کیے ہوئے ہیں۔نہ ملت اسلامیہ اکٹھی ہو اور نہ یہود و نصاریٰ کا مقابلہ کرنے کی اہلیت وہیبت جنم لے۔1945میں امریکنوں نے بم گراگر 85ہزار سے زائد جاپانیوں کو اٹھاون سکینڈ میں آخرت کی نیند سلا ڈالاکسی طاقت نے اس کو ایسا کرنے سے نہ رو کا اور نہ ہی بعد میں کوئی احتساب ہوا۔جس خونخوار درندے کو خون پینے کی عادت پڑ جائے پھر وہ کہاں رکتا ہے۔ بندوںکاہلا ک کرنا اس کا مشغلہ بن جاتا ہے ویت نام کے مظالم تو رہتی دنیا تک یا د رہیں گے۔
World War
کمیونسٹوں نے بھی مظالم کرنے میںکوئی کسر اٹھانہیں رکھی۔روسی حکمران لینن نے کمیونزم کی آڑ میں مزدور کسان راج قائم کرنے نیز پرولتاری ڈکٹیٹر شپ قائم رکھنے کے لیے ساڑھے چھ کروڑ انسان اس نئے نظریے کے نفاذ کی بھینٹ چڑھا ڈالے ۔انسانی خون دریائوں نالوں کی صورت بہتا رہا ۔دنیا دبک کر رہ گئی پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے دوران قیامت صغریٰ برپا کرڈالی گئی ان مہلک ترین جنگوں میں بالترتیب اڑھائی کروڑ اور ساڑھے چھ کروڑ انسا ن ذبح کر ڈالے گئے۔بقیہ سبھی ممالک دانتوں کے نیچے زبان دبائے گگھیاتے رہے۔کسی نے اس کو نتھ تو کیا ڈالنی تھی۔اتنی بڑی دہشت گردیوں پر رونے تک کی بھی فرصت نہ تھی ۔ڈکٹیٹرہٹلر نے ڈیڑھ کروڑ لاشیں بھسم کرڈالیں اور خود شیطانی ہنسی ہنستے ہرطرف شیطنت کے ظلم کے راج کا ڈنکا بجا ڈالا۔ سیاسی اختلافات رکھنے مخالفین کودبانے اپنی دہشت و وحشت و بر بریت کو چمکانے کے لیے آمرانہ لیڈرشپ جمہوری غنڈہ گردی کو جنم دیتے ہیں۔سامراجیت کی یہ انوکھی قسم مخالفین کو تہہ تیغ کرکے ہی” نام نہاد مقبولیت” پاتی اور اِس پراَتراتی ہے۔
صرف کراچی میں چند سالوں کے اندر سیاسی اکھاڑ پچھاڑ سے29ہزار مظلوم و بے قصورافرا دوسری دنیا کوسدھار چکے ہیں ۔برمی مسلمان بربریت کا شکار ہوئے35ہزار قتل اور کئی نے بھاگ کر پنا گاہیں ڈھونڈیں۔1979میں روسی ریچھ افغانستان پر چڑھ دوڑا۔9سال میں ہلاکتوں کی تعدا د 17لاکھ تک جاپہنچی اور اسی ہزار پاکستان میں آج تک پناہ گزین ہیں۔1994میں تین ماہ کے اندر رونڈا میں 13لاکھ افراد سیاسی غنڈہ گردی کا نشانہ بنے اور چھ لاکھ بچیوں کی عصمت دری بھی ہوئی۔1992سے بو سنیا میںڈیڑھ لاکھ مسلمانوں کا قتل،تیس ہزر خواتین کی عصمت دری ہوئی لاکھوں ہجر ت کر گئے۔
برطانوی راج کے دوران چر چل نے مصنوعی قحط کے ذیعے لاکھوں بنگالیوں کو ہلاک کر ڈالاکمبوڈیا میں ظلم کی تاریک رات نے بسیراڈالا 24 لاکھ افراد قتل کر ڈالے گئے۔سری لنکا میں سیاسی مخالفتوں کی بھینٹ چڑھنے والے ڈیڑھ لاکھ افراد ہیں جو حکومتی مشینری اور باغیوں کی آپس کی جنگ میں نشانہ بنے۔پاکستان بننے پر لاکھوں مائوں ،بہنوں، نوجوانوں کی قربانیوں کو کس طرح نظر انداز کریں۔مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی اور راء کے مظالم رو نگٹے کھڑے کیے دیتے ہیں بھارتی غنڈے اٹھائیس ہزر بچیوں کو اغوا کر کے لے گئے 52ہزار کے قریب ان غنڈوں سے جھگڑوں سے شہادتیں پاگئے۔کریمیا کے شہر پر قیامت ڈھائی گئی تین لاکھ افراد اٹھا کر سمندر برد کر دیے گئے عراق و مصرآج بھی خوں میں نہارہے ہیں اور سامراجی مسلمانوں کی آپس کی قتل و غارت گری پر خندہ زن ہیں ۔چونکہ خدائی احکامات کی خلاف ورزیوں کا راج قائم ہے اس لیے ہر جگہ ظلم ہی ظلم نظر آتا ہے خدا کی حکومت قائم ہو جائے تو دنیا میں امن وسکون ہو گا اور ظالم سامراجی کیفر کردار کو پہنچیں گے۔انشاء اللہ۔