تحریر : رانا آصف خورشید وہ ایک زندہ جاگتا شخص تھاجسے آگ کے سرخ شعلوں نے لپیٹ رکھا تھا اس کی چیخوں سے شاید پتھر سے بھی ذیادہ سخت دل رکھنے والوں کو موم کر دیتی لیکن بھرے مجمع میں کوئی بھی ایسا نہیں تھا جو اسے آگ سے بچا لیتا اس کے ارد گرد پولیس کا بھی ایک ہجوم تھا تاہم وہ سب خاموش کھڑے تماشا دیکھ رہے تھے بلکہ شاید وہ اس منظر سے لطف اندوز ہو رہے تھے انسانیت اس منظر کو دیکھ کر شرما رہی تھی تھوڑی ہی دور کچھ لوگ دوکانوں اور گھروں کو لوٹ کر انہیں نذر آتش کر رہے تھے یہ بدنصیب بھی شاید اسی بستی کا مکین تھا جسے نذر آتش کیا جا رہا تھا ،اس کا جسم جل کر سیاہ ہو رہا تھا ، مجمع میں سے شاید کسی کو اس پر رحم آگیا کہ ایک آواز آئی ”اس پر پانی ڈالو” یہ آواز تھی کہ ایک دم سب خاموش ہو گئے لیکن اسی خاموشی کو توڑتے ہوئے ایک اور آواز آئی ”کوئی پانی نہیں اس کے لیے اسے مرنے دو”۔ آگ لگی بستی میں سے ایک اور نوجوان آگ سے بچنے کے لئے باہر نکلتا ہے اور وہاں سے فرار ہونے کی کوشش کرتا ہے لیکن ہجوم اسے قابو کر لیتا ہے
آگ لگی بستی میں سے نکلنے کے جرم کی سزا مارنے اور پیٹنے کی شکل میں ملتی ہے جب مار مار کر ہجوم تھک جاتا ہے تو ایک بدھ بھکشو آگے بڑھتا ہے اس کے ہاتھ میں تلوار ہے اپنا پورا زور لگاتے ہوئے وہ تلوار سے کئی وار کرتا ہے اور بدحال نوجوان کی سانسیں اس کا ساتھ چھوڑ دیتی ہیں جب ہجوم کو یہ تسلی ہو جاتی ہے کہ اس نوجوان میں زندگی کی سانسیں باقی نہیں رہیں تو وہ تسلی کے ساتھ یوں آگے بڑھ جاتے ہیں جیسے کسی درندے کو ختم کیا ہو۔اس نوجوان کا یہ انجام دیکھ کر بہت سے لوگ آگ میں ہی زندہ جل گئے ان چیخیں آہستہ آہستہ اس ہجوم کے نعروں میں دب گئیں ، آپ سوچ رہے ہوں گے کہ شاید یہ کسی فلم کا منظر ہے نہیں ہر گز نہیں یہ اسی دنیا کا ایک حقیقی منظر ہے جہاں میڈیا آزاد ہے ، انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سینکڑوں این جی اوز کام کر رہی ہیں ، انسان تو بہت دور کی بات ہے اگر کہیں جانوروں پر بھی ظلم ہو تو دنیا بھر میں مظاہرے شروع ہو جاتے ہیں ان کے تحفظ کے لئے دنیا کی تمام تنظیمیں سڑکوں پر آجاتی ہیں
جب تک انہیں یہ یقین دہانی نہ کروائی جائے کہ ان کو مناسب سہولتیں دی جائیں گی یہ لوگ گھروں کو واپس نہیں جاتے۔ لیکن اس انسانیت سوز پر نہ تو عالمی تنظیموں کی جانب سے کوئی آواز بلند ہوتی ہے نہ میڈیا میں ان کو جگہ ملتی ہے ۔یہ مناظرکسی دنیا کے کسی ایسے خطے کے نہیں بلکہ سب سے بڑی سیکولر ریاست بھارت ، بنگلہ دیش اور تھائی لینڈ کے بیچ میں ایک چھوٹی سی ریاست برما جسے اب میانمار کہا جاتا ہے میں رونما ہوئے ان باسیوں کا قصور صرف یہ ہے کہ یہ مسلمان ہو کربدھ مت کے پیروکاروں سے اپنی الگ شناخت الگ شہریت کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ الگ شناخت کا یہ مطالبہ اس قدر گراں گزرا کہ اب میانمار کے ارد گرد کا علاقہ ”تیرتی لاشوں ” سے بھرا پڑا ہے یہ ان لوگوں کی لاشیں ہیں جو بحری جہازوں میں جگہ نہ ہونے کے باعث چھلانگیں لگانے پر مجبور ہو گئے۔
Pakistan
آئیے اب دوسرا منظر دیکھتے ہیں یہ ایک ہوٹل ہے جس کے ٹھنڈے ہال میں کچھ افراد بیٹھے مکالمہ کر رہے ہیں کہ بین المذاہب ہم آہنگی کیسے ممکن ہے مسلم ریاست بالخصوص پاکستان میں عیسائی سمیت دیگر اقلیتوں کو مسلمانوں کے برابر حقوق کیسے دئے جا سکتے ہیں اس مکالمہ کے شرکاء میں دینی مدارس سے تعلق رکھنے والے وہ نوجوان ہیں جنہوں نے حال ہی میں اپنی دینی تعلیم مقرر کی اور یہ اب معاشرے میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں مکالمہ میں کیا کچھ ہوا اس کی تفصیل تو ایک الگ بحث ہے لیکن میرا توجہ اس ایک نکتہ کی طرف ہے جو ایک معلم کی جانب سے اوپر والے منظر کی صفائی میں بیان ہوا ۔ فرماتے ہیں کہ کچھ عرصہ پہلے میانمار میں جانے کا اتفاق ہوا جہاں بدھ مت کے پیروکاروں سے ہم نے سوال کیا کہ بدھ مت کو دنیا بھر میں امن کا مذہب سمجھا جاتا ہے تو پھر مسلمانوں کے ساتھ ایسا بدترین سلوک کیوں کیا جا رہا ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ آپ کی بات بجا ہے ہمارا مذہب ہمیں امن شانتی اور انسانیت کے احترام کا درس دیتا ہے
تاہم کچھ عرصہ پہلے افغانستان میں بامیان کے علاقے میں ہمارے بڑوں کے مجسموں کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کی وجہ سے ہماری قوم مسلمانوں سے بیزار ہو چکی ہے اور آج جو کچھ ہو رہا ہے اس کا ردعمل ہے ۔ مجھے حیرانی اس توجیح پر نہیں بلکہ معلم کے اس یقین پر ہو رہی تھی جو وہ ان کی صفائی دیتے ہوئے کہہ رہے تھے اور ساتھ ہی انہوں نے متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ برما کے مسلمانوں کو اپنا ملک چھوڑ کر کہیں اور نہیں جانا چاہیے بلکہ اپنے ملک میں ہی رہ کر حالات کی بہتری کا انتظار کرنا چاہیے ۔میں حیرا ن تھا کہ اگر یہ توجیح قابل قبول ہے تو پھر عراق افغانستان میں ہزاروں مسلمانوں کے قتل کے ردعمل میں پاکستان میں تو کسی بھی عیسائی کو نہ چھوڑا جاتا ۔ یورپ کے عیسائی ممالک میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے باعث اور نقاب ، مساجد کے میناروں پر پابندی کی وجہ سے ملک سے چرچ کا نام و نشان مٹا دیا جاتا،
عیسائی پادریوں کی جانب سے امریکہ میں قرآن جلانے اوراخبارات میں مسلمانوں کی جانوں سے عزیز نبی کریم کے گستاخانہ خاکے شائع کرنے کے ردعمل کے طور پر پاکستان سے عیسائیوں کا نام و نشان تک مٹا دیا جا تا لیکن دنیا نے دیکھا کہ پاکستان کے ہر شہر میں احتجاجی مظاہرے تو ہوئے لیکن کسی چرچ کو نقصان نہیں پہنچایا گیا مجموعی حیثیت میں بپھرے ہوئے مظاہرین نے کسی عیسائی بستی کا رخ نہیں کیا ۔لیکن برما میں مسلمانوں کے ساتھ یہ سلوک تو بامیان میں بدھ مت کے مجسمے گرائے جانے سے پہلے بھی ہوتا رہا ہے ۔تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ بدھ مت کے پیروکار ماضی میں بھی مسلمانوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرتے آئے ہیں۔
Islam
پندرہویںصدی عیسوی میں خلیفہ ہارون الرشید کے دور میں یہاں چند تاجروں کے ذریعے اسلام کی روشنی پہنچی اور پھر برما میں دیکھتے ہی دیکھتے ایک بڑی تعداد نے اسلام قبول کر لیا برما میں بدھ بھکشوئوں کی حکومت نے اسلام کو اپنے لئے خطرہ محسوس کرتے ہوئے اس خطے پر قبضہ کر کے اس کا نام میانمار رکھ دیا 1824ء میں برطانیہ نے اس پر قبضہ کر لیا اور پھر 1938ء میں اسے آزاد کیا گیا لیکن اس کے باوجود مسلمان امن کے مذہب کے داعی بدھ بھکشوئوں کے رحم و کرم پر زندگی گزار رہے ہیں اور اس نام نہاد آزادی کے باوجود لاکھوں مسلمان اپنی اصل شناخت سے محروم ہیں ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ”مسلم مٹائو” پالیسی کا آغاز کیا گیا اور مسلمانوں کو مجبور کیا گیا کہ وہ اس علاقے سے ہجرت کر جائیں ان کے ساتھ جانوروں سے بھی ذیادہ بد تر سلوک کرنے کی وجہ سے پانچ لاکھ کے قریب مسلمان ہمسایہ ملک کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے
لیکن بدقسمتی دیکھئے کہ ہمسایہ ملک نے بھی ان کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تحریک پاکستان کے وقت بھی برما کے روہنگیا مسلمانوں نے پاکستان میں شامل ہونے کی کوشش کی لیکن ان کا یہ مطالبہ رد کر دیا گیا 1962ء میں فوجی حکومت کے دوران مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے کا آغاز ہوا جب ان پر تمام سرکاری اداروں کے دروازے بند کر دیے گئے اور پہلے سے موجود سرکاری ملازمتوں پر فائز مسلمانوں کو برخاست کر دیا گیا 1980ء میں ان پر حج سمیت دیگر مذہبی اجتماعات میں شرکت پر پابندی عائد کر دی گئی اور اسی وقت انہیں برما کا شہری تسلیم کرنے سے انکار کر دیا گیا اقوام متحدہ کے مطابق روہنگیا مسلمان دنیا کی سب سے ذیادہ ستائی جانے والی قوموں میں سے ایک ہیں۔2011ء کے بعد مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ وہ اس ملک سے نکل جائیں یا پھر مہاجر کیمپوں کا رخ کریں
جہاں پہلے ہی چار لاکھ سے زائد مسلمان نہایت ہی کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور جدیدیت کے اس دور میں جب دنیا گلوبل ولیج بن چکی ہے روہنگیا مسلمان ان کیمپوں میں ضروریات زندگی کے لئے دن رات ترستے ہیںحالیہ مسلم نسل کشی مہم کا آغاز مئی2012ء میں اس وقت ہوا جب فوج کے ہاتھوں گیارہ بے گناہ مسلمانوں کو شہید کیا گیا سرکاری سرپرستی میں شروع ہونے والی اس مہم میں بدھوں نے ایک ایک بس کو نشانہ بنایا جس میں مسلمان سوار تھے اور اسی دوران یہ افواہیں پھیلانا شروع کر دی گئیں کہ حکومت نے مسلمانوں کو برما سے نکالنے کا آغاز کر دیا ہے اور جو رضاکارانہ طور پر اپنے گھر بار چھوڑ کر جائے گا اسے سہولیات بھی دی جائیں گی جس کے ساتھ ہی مسلمانوں کی بستیوں پر انتظامیہ کی سرپرستی میں شدت پسند بدھوں نے حملہ کر دیا
Fire
ایمنسٹی انٹر نیشنل کے مطابق ایک ہفتے میں 2000گھروں کو جلایا گیا ، ایک لاکھ مسلمان اس مہم کے نتیجے میں بے گھر ہو چکے ہیں اور 20,000سے زائد کو قتل جبکہ ہزاروں خواتین کی عصمت دری کی گئی اوران بستیوں میں زندہ جل جانے والوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے یہ سب کچھ ایک ایسے مذہب کے پیروکاروں کی طرف سے کیا گیا جس کے بانی کا کہنا تھا ”بارش کے موسم میں کوئی بھکشو گھر سے باہر نہ نکلے مبادا اس کے پائوں تلے برستا کے کیڑے نہ آ جائیں ” ایسا کیوں ہے اس کی سیدھی وجہ تو یہ ہے کہ دنیا میں ستاون سے زائد اسلامی ملک اپنی اصل شناخت کھو چکے ہیں اگر آپ ان کے وسائل کا اندازہ لگائیں تو صرف سعودی عرب کے پاس آئل کے ذخائر دنیا کے کل ذخائر کا 25.4%ہے، ایران ، عراق ، کویت اور دیگراسلامی ممالک اس کے علاوہ ہیں صرف مشرق وسطیٰ میں قدرتی گیس کا ذخیرہ دنیا کے مقابلے میں 40%ہے
ازبکستان اور کرغستان کا شمار ان بڑے ممالک میں ہوتا ہیں جہاں سونے کے ذخائر موجود ہیں تاجکستان میں المونیم کے سب سے ذیادہ ذخائر پائے جاتے ہیں اگر مسلم دنیا کے زرعی ذخائر کا تخمینہ لگایا جائے تو مجموعی طور پر دنیا میں سب سے ذیادہ ذخائر انہی کے پاس ہوں گے ہیومن ریسورس کا سب سے بڑا ذخیرہ بھی مسلم دنیا کے پاس ہے آج جہاں مختلف ممالک پریشان ہیں کہ ان کی آبادی تیزی سے کم ہو رہی ہے لیکن مسلم دنیا میں یہ آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے ان کے پاس افرادی قوت کی کوئی کمی نہیں ہے دنیا میں سب سے ذیادہ رقبہ مسلم ممالک کے پاس ہے دنیا میں آٹھ بڑے ممالک ایٹمی قوت کے مالک ہیں اور ان آٹھ میں سے ایک مسلم ملک پاکستان بھی ہے لیکن ان سب کے باوجود یہ سب اتحاد و یکجہتی سے بہت دور ہیں ان ممالک کے حکمران اور عوام میں ایک بہت بڑا خلا ہے یہ لوگ کئی فرقوں میں بٹ چکے ہیں
ہر فرقہ دوسرے فرقے کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے یہ اسلام کے اس آفاقی پیغام کو بھول چکے ہیں جو ان سب کو ایک لڑی میں پروتا ہے اور جس کی وجہ سے مشرق میں کسی ایک کے پائوں میں کانٹا چبھنے پر مغرب کا مسلمان پریشان ہو جائے لہٰذا دنیا کی دوسری قوموں نے ان کی خامیوں کی بنیاد پر انہیں نشانہ بنانا شروع کر دیا او آئی سی ، اسلامی کانفرنس سمیت اسلامی ملکوں پر مشتمل تمام تنظیمیں اپنی ہی قوم کے مسائل حل کرنے میں ناکام نظر آئیں کیہنکہ ان کے حکمرانوں کی ڈور دوسروں کے ہاتھ میں ہے اور یہی وجہ ہے کہ کبھی برما میں ان کی نسل کشی کی جاتی ہے تو کبھی کشمیر میں ان کا قتل عام ہوتا ہے اسرائیل ایسا چھوٹا ملک بھی وسائل سے مالا مال عرب ریاستوں کو آنکھیں دکھاتا ہے اور یہ سب اس کے آگے بے بس نظر آتے ہیں اقوام متحدہ میں ان کی کوئی نہیں سنتا ، اور سنے بھی کیوں ؟؟علامہ اقبال نے تو بہت پہلے کہہ دیا تھا کی ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات