تحریر : محمد ارشد قریشی ہمارے معاشرے کا یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ جب بھی کوئی درد ناک واقع رونما ہوتا ہے تو ہر طرف بہت احتجاج نظر آتا ہے لیکن آہستہ آہستہ یا تو ہم اسے یکسر بھول جاتے ہیں یا پھر کوئی نیا رونما ہونے والا واقعہ گذرے واقعے کا اثر زائل کر دیتا ہے۔ جرگے پنچائیت، محلہ کمیٹیاں قارئین کے لیئے یہ کوئی نئے نام نہیں اور قارئین یہ بھی اچھے طرح جانتے ہیں کہ ان پنچائیت میں کون لوگ شامل ہوتے ہیں اور پنچائیت کا سر پنچ کسے مقرر کیا جاتا ہے۔ میں اپنے اصل موضوع کی جانب آنے سے پہلے قارئین کی توجہ اس جانب مبذول کرانا ضروری سمجھتا ہوں کہ آخر جرگوں، پنچائیتوں یا پھر محلہ کمیٹیوں کے قیام کی ضرورت ہی کیوں پیش آتی ہے اس کی کئی وجوہات میں سے ایک اہم وجہہ قانون اور انصاف کی کمی ہے آخر کیا وجہہ ہے کہ تھانوں اور عدالتوں کی موجودگی میں لوگ اپنے فیصلے پنچائیت میں لے جاتے ہیں اگر انصاف کا عمل تیز تر اور قانون کی گرفت مضبوط تر ہو تو پھر نہ ہی کسی جرگے، کمیٹی یا پنچائیت کی ضرورت ہو اور نہ ہی کوئی ریاستی اداروں کو چلینج کرنی کی جرت کرے۔
پنچائیت کمیٹی جہاں بھی قائم کی جاتی ہیں تو اس کا سرپنچ علاقے کی نہایت معزز شخصیت کو مقرر کیا جاتا ہے اور پنچائیت کے اراکین بھی علاقے کے معزز لوگ ہوتے ہیں جن پر علاقے کے لوگوں کا اعتماد ہوتا ہے جو علاقے کے لوگوں کی عزت و آبرو کا امان کرنے والے ہوتے ہیں لیکن افسوس کہ کئی علاقوں میں بننے والی نام نہاد پنچائیتوں میں ایسے لوگ شامل ہوتے ہیں جو ایسے فیصلے دیتے ہیں جو نہ صرف دین اسلام سے متضاد ہوتے ہیں بلکہ دور جہالیت کی عکاسی کرتے ہیں اور عالمی سطح پر مادر وطن کی بدنامی کا باعث بھی بنتے ہیں۔اب یہ حکومت وقت کا کام ہے کہ وطن عزیز کے جن علاقوں میں ایسی پنچائیت کمیٹیاں قائم کی جائیں ان میں شامل لوگوں کے بارے میں مکمل آگاہی حاصل کرے کہ آیا ان میں کسی بھی فیصلے کرنے کی صلاحیت بھی ہے کہ نہیں ان کی علاقے میں ساکھ کیا ہے۔
بہرحال میرا یہ موضوع نہیں! میرا موضوع گذشتہ دنوں ملتان کے علاقے راجہ پور میں ہونے والا افسوس ناک واقعہ ہے جس میں ایک 12 سالہ لڑکی کو اغوا کرکے اسے زیادتی کا نشانہ بنایا گیا متاثرہ خاندان نے علاقے میں موجود ؤومن پولیس اسٹیشن ہونے کے باوجود اپنی شکایت پنچائیت میں پہنچائی جس کے نتیجے میں اس نام نہاد پنچائیت نے متاثرہ لڑکی کے بھائی کو ملزم کی بہن سے زیادتی کا حکم دیا یہ کس طرح کا فیصلہ تھا جس نے پوری قوم کا سر شرم سے جھکا دیا ! ایک حوا کی بیٹی کی عزت تار تار کردی گئی بجائے اس کے کہ اس معصوم کی عصمت دری کرنے والے کو قانون کے حوالے کیا جاتا ایک اور حوا کی بیٹی کی عزت تا ر تار کرنے کا حکم دے دیا گیا یہ کس طرح کی جہالت ہے ایک لڑکی جو پہلے ہی برباد کی جاچکی اس کو انصاف دینے کے لیئے دوسری لڑکی کو برباد کردیا جائے ایک جرم کی سزا دوسرا جرم! یہاں یہ بات بھی نہایت افسوسناک ہے کہ پہلا واقعہ 16 جولائی کو پیش آیا اس کے بعد پنچائیت کا فیصلہ 18 جولائی کو دیا گیا جس کے نتیجے میں ایک اور جرم ہوا ان تین دنوں میں قانون کہاں تھا علاقے میں ہونے والے اس گھناؤنے جرم سے قانون کیونکر بے خبر رہا جب کہ پنچائیت کے فیصلے سے متاثرلڑکی کی والدہ نے علاقے کے ؤومن پولیس اسٹیشن میں درخواست جمع کرائی کہ اس کی بیٹی کو زبردستی اغوا کرکے زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے،یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ پنچائیت کے فیصلے سے اگر علاقہ مکین مطمعن ہوتے تو وہ کسی صورت پولیس اسٹیشن میں رپورٹ درج نہ کراتے اس سے اس بات کا قوی امکان ہے کہ پنچائیت کے فیصلے کو متاثرہ خاندان نے یکسر مسترد کردیا تھا اور دوسرا درد ناک واقعہ اسی پنچائیت کے حکم سے رونما ہوا، میں یہاں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ ایسی پنچائیت مجرمان کی سرپرست اور سہولت کار ہیں۔
قارئین کرام! جب یہ واقعہ میرے علم میں آیا تو میرے زہن میں گذشتہ سال نومبر میں گجرات کے علاقے جلال پور جٹاں میں ہونے والا واقعہ گھومنے لگا جو اس واقع سے قدر مشترک تھا جس میں ایسی ہی نام نہاد پنچائیت نے ایک معصوم حوا کی بیٹی کی عصمت دری کرنے والے کے ساتھ یہ انصاف کیا کہ حوا کی ایک اور بیٹی کی عصمت دری کرنے کا حکم دیا اس واقع میں بھی جرم آدم کے بیٹوں نے کیا جب کہ سزا حوا کی بیٹیوں کو دی گئی۔اگر جلال پور جٹاں والے واقعے کے بعد اس واقے کے مجرمان کو سخت سے سخت سزا دی جاتی اور ایسی نام نہاد پنچائیت کمیٹیوں کی لیئے موثر قانون سازی کرلی جاتی تو ملتان کا واقعہ قطعی رونما نہیں ہوتا۔ بھلا ہو سوشل میڈیا کا جسے اب ایک گڑ کہا جارہا ہے کم از کم یہ گڑ معاشرے میں موجود غلاظت کو تواگل رہا ہے اور کچھ پارساؤں کو اس غلاظت سے اٹھنے والا تعفن کسی طور برداشت نہیں ہورہا،اب دیکھنا یہ ہے کہ سوشل میڈیا کا یہ گٹر جو معاشرتی غلاظت اگل رہا ہے اسے کوئی صاف کرے گا یا پھر اب بھی انتظار کیا جائیگا کہ اس غلاظت سے اٹھنے والا تعفن اس معاشرے کو مکمل مفلوج کر دے۔