تحریر۔روہیل اکبر فوجی عدالتوں کی ضرورت نہ پڑتی اگر ہمارے ادارے اپنی اپنی سمت اور دائرہ کارکے اندررہتے ہوئے کام کرتے مگر بدقسمتی سے ہمارے اداروں کے اندر بیٹھے ہوئے مفاد پرست افسران نے اپنی ترجیحات بدل لی پسند اور ناپسند کے بعد رشتہ داریاں اور پھر دوستیاں ان سب چیزوں نے پاکستان کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے قانون پر اگر عمل ہورہا ہے تو صرف بے چارے غریب اور لاچار پر ہورہا ہے جنہوں نے ملک کا اربوں روپے کا نقصان کیا قرضے ہڑپ کیے بیرون ملک جائیدادیں خریدیں وہ کل بھی سکھی تھے
آج بھی خیریت سے ہیں بلکہ انکے ارد گرد درجنوں سیکیورٹی کے اہلکار تعینات ہیں انکے سر میں درد بھی ہو تو وہ اپنا علاج کروانے باہر بھاگتے ہیں جبکہ یہاں غریب علاج اور دوائی کے بغیر مر بھی رہا ہو تو کسی کو کوئی پروا نہیں غریب انسان کسی نہ کسی طریقے سے پیسے اکٹھے کر بھی لے تو اسے کوئی ضمانت نہیں ہوتی کہ وہ جو دوائی کھا رہا ہے وہ ایک نمبر ہے یا دس نمبر کیونکہ ہمارے شہروں میں بیٹھے ہوئے انسان دشمن عطائیوں نے علاج کے نام پر شہریوں کو لوٹنے کا ٹھیکہ بھی لے رکھا ہے جبکہ ان عطائیوں کو جعلی ادویات فراہم کرنے والے جگہ جگہ اپنی ذاتی فیکٹریاں لگائے ان عطائیوں کو جعلی اور گھٹیا ادویات فراہم کررہے ہیں
اکثر عطائی ڈاکٹر انسانوں کو وہ ٹیکے لگاتے ہیں جو جانوروں کے لیے تیار کیے جاتے ہیں کیا ہمارے شہروں میں بیٹھے محکمہ صحت کے اہلکاروں کو معلوم نہیں ہے کہ کس گلی کس محلہ اور کس دیہات میں کتنے عطائی کھلے عام اپنی پریکٹس کر رہے ہیں کسی بھی شہر کے ایک عام شہری کو بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسکے گلی محلے میں کون کیا کررہا ہے مگر حکومتی اہلکار جوہر ماہ غریب عوام کا لاکھوں روپے ہضم کرجاتے ہیں انکو توفیق نہیں ہوتی کہ وہ جرائم کی ان نرسریوں کو ختم کرسکیں کیا اس کام کے لیے بھی ہمیں فوج کی ضرورت پڑے گی کہ وہ آکر ہمیں ان جعل سازوں سے بچائیں کیونکہ ہمارے عدالتی نظام کی خرابیوں کے باعث فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں آچکا ہے جہاں ملک دشمن اور انسانیت کے نام پر دھبہ بننے والے افراد کو سخت سزائیں دی جائیں گی فوجی عدالتوں کے بعد اب ملک کے دوسرے تمام محکموں کو بھی اپنا قبلہ درست کرلینا چاہیے جہاں جہاں خامیاں موجود ہیں
انکو دور کرکے عوام کے حقوق کا تحفظ کیا جائے بلخصوص ہمارے صحت کے شعبہ میں بہت سا کام ہونے والا ہے ہمارے سرکاری ہسپتالوں میں بہت سی ڈاکٹروں کی سیٹیں خالی پڑی ہوئی ہیں انہیں فوری طور پر مکمل کیا جائے ملک میں عطائی ڈاکٹروں اور انکو تحفظ فراہم کرنے والوں کا محاسبہ کیا جائے اور ایسے ایجنٹوں کے خلاف بھی سخت آپریشن کیا جائے جو ادویات کے نام پر زہران عطائیوں کے زریعے بانٹ رہے ہیں کرپشن اور لوٹ مار نے جس طرح ہمارے دوسرے محکموں کو کھوکھلا کررکھا ہے اسی طرح محکمہ صحت میں بھی لوٹ مار کا بازار گرم ہے شہروں میں بیٹھے ہوئے ڈرگ انسپکٹر وں کے زیر سایہ نشہ کی گولیاں اور انجیکشن سرعام فروخت ہورہے ہیں
Imran Khan
ہمارے پولیس اسٹیشنوں کی سرپرستی میں جواء اور نشہ کی محفلیں سرعام سجتی ہیں پہلے تو رات کو ڈاکو اور چور اپنا کام کیا کرتے تھے اب دن کے اجالے میں بھی وارداتیں رکنے کا نام نہیں لے رہی پہلے اسلام آباد جیسا خوبصورت شہر ان چوروں اور ڈاکوؤں سے محفوظ تھا اب یہاں بھی لاہور اور کراچی کی طرح لوٹ مار کا بازارگرم ہے اور حکمران ہیں وہ اپنی انا کی جنگ سے باہر نکلنے کو تیار نہیں لاہور کے حلقہ 122 پر اب سیاست شروع ہو چکی ہے ایک طرف سردار ایاز صادق کے حامی ہیں تو دوسری طرف عمران خان بدستور اپنی ضد پر قائم ہے اس حلقے سے جیت کر ایک تو اسلام آباد کے ایوانوں میں گم ہو گیا ہے تو دوسرا بنی گالا کے محل میں رہ گئی
بات عوام کی ان کی زندگیوں میں نہ پہلے کوئی تبدیلی آئی تھی نہ اب کچھ تبدیل ہوا ہے پہلے بھی عوام کے لیے حالات خراب اور ملکی خزانہ خالی تھا وہی صورتحال اب بھی برقرار ہے اگر دیکھا جائے تو سب کچھ جوں کا توں ہے پچھلے پانچ سال بھی لوگوں نے بغیر بجلی ،گیس اور امن کے گذارے اب بھی سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں بارشوں میں ابلتے ہوئے سیوریج ہیں بجلی ،گیس اور امن پہلے تھا نہ اب ہے کراچی جیسا مصروف شہر جو دن بدن تنگ اور چھوٹا ہوتا جارہا ہے جہاں پورے ملک کے بے روزگار لوگ قسمت آزمائی کے لیے آتے ہیں یہاں پر بھی حالات کسی کے قابو میں نہیں ہیں کبھی فوج کو بلا لیا جاتا ہے تو کبھی رینجر کو دعوت دی جاتی ہے
ہمارے اپنے ادارے سیاسی طور پر تباہ کردیے گئے ہیں اگر کوئی فرد اپنے ادارے میں رہتے ہوئے اچھا کام کرنا بھی چاہے تو اسے وہاں پر موجود بیٹھا ہوا مافیا اچھا کام کرنے نہیں دیگا اس لیے اس کرپشن زدہ نظام کا حصہ بن جائیگا یا پھر اس سے بغاوت کردیگاپاکستان میں بغاوت کرنے والے نہ ہونے کے برابر ہیں جبکہ موجودہ نظام کا حصہ بننے والے زیادہ افراد ہوتے ہیں کیونکہ یہاں پر حکومت کی طرف سے تو کسی قسم کی کوئی مدد نہیں کی جاتی اپنی مدد آپ کے تحت ہی ہر کام کرنا پڑتا ہے
ہمارے ہاں انصاف کا نظام بھی اتنا سست ہے کہ بعض اوقات مدعی پارٹیاں عدالتوں کی بجائے اپنا حساب کتاب خود ہی چکا دیتی ہیں اسی لیے تو کبھی لاہور جیسے شہر میں پانچ سالہ معصوم بچے کو درندگی کا نشانہ بنا کر پھانسی دیدی جاتی ہے تو کبھی 2 سال کی معصوم کلی کو مسل دیا جاتا ہے اگر ہمارا نظام انصاف مضبوط ہوتا تو کسی میں جرم کرنے کی اتنی جرئات ہی نہ ہوتی کرپشن زدہ معاشرہ اور اداروں کا آپریشن کرنے کے لیے ہر شہر میں بلا تفریق فوجی عدالت قائم کردی جائے جو ایک محدود مدت میں میں فیصلہ سنا دے تاکہ افسردہ قوم کو کوئی تو کوشخبری ملے ۔