اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے دو ٹوئیٹس کے ذریعے قوم کو آگاہ کیا ہے کہ پاکستان کی 34 ہزار کنال دیہی اور 17 ہزار کنال شہری زمین منجمد سرمایہ بنی ہوئی ہے۔ سرکار کی نوے فیصد شہری زمین اور عمارتوں کی مالیت تین سو ارب روپے ہے۔ انھوں نے یہ بھی لکھا کہ پاکستان کو قرضوں پر یومیہ پانچ ارب روپے سود ادا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس طرح انھوں نے اشارہ دیا کہ شاید حکومت سرکاری زمینیں اور عمارتیں فروخت کر کے قرضے چکانا چاہتی ہے۔
سابق وفاقی وزیر احسن اقبال نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چندہ لینے اور سرکاری زمین فروخت کر کے ملک چلانے کے منصوبے مضحکہ خیز ہیں۔ ملک اس طرح نہیں چلتے۔ اس کے لیے معیشت پر توجہ دینا پڑتی ہے تاکہ شرح نمو میں اضافہ ہو اور وہ محاصل بڑھیں جن سے وسائل فراہم ہوتے ہیں۔ برآمدات میں کمی اور درآمدات میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ براہ راست غیر ملکی سرمایہ ملک میں لانا پڑتا ہے جس سے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھتے ہیں اور روزگار کے مواقع میں اضافہ ہوتا ہے۔
ملک مشکل میں ہے، آپ کے پاس کوئی حل ہے تو حکومت کو کیوں نہیں بتاتے؟ احسن اقبال نے اس سوال کے جواب میں کہا کہ ہم مشورے دے سکتے ہیں بشترطیکہ وہ سننے کو آمادہ ہوں۔ لیکن اس وقت وہ افلاطون بنے ہوئے ہیں۔ انھیں حقائق کا کچھ علم نہیں۔ جیسے کوئی بچہ کھلونے سے کھیلتے کھیلتے اس کا نقصان کرسکتا ہے، خدشہ ہے کہ یہ معیشت کو نقصان نہ پہنچا بیٹھیں۔
دنیا ٹی وی کے بزنس ایڈیٹر حارث ضمیر کا کہنا ہے کہ کتابی طور پر یہ کہنا آسان ہے کہ کتنی سرکاری زمین ہے اور اسے فروخت کر کے کتنی رقم حاصل کی جاسکتی ہے۔ لیکن ماضی میں اس کا انجام کبھی اچھا نہیں ہوا۔ پاکستان اسٹیل کی19 ہزار ایکڑ زمین ہے۔ اسے جب بھی فروخت کیا گیا، اس کے خلاف مقدمہ قائم ہوا اور آج تک زمین ٹرانسفر نہیں ہو سکی اور وہاں کوئی منصوبہ شروع نہیں کیا جا سکا۔
اگر عمران خان سرکاری زمین بیچنا چاہتے ہیں تو اس میں کافی وقت لگ جائے گا۔ پاکستان پبلک ریگولیٹری اتھارٹی کے تحت اشتہار دینا پڑے گا، کون سی زمین ہے، کہاں ہے، اس پر کون قابض ہے، ہر صوبے کی اراضی کا الگ الگ تخمینہ لگانا پڑے گا، متعلقہ اداروں سے بات کرنا پڑے گی۔ اگر بہت جلدی سب کچھ ہو جائے تب بھی ایک سال لگ جائے گا۔
معاشی تجزیہ کار محمد سہیل کہتے ہیں کہ یہ بات پہلے بھی بہت بار کی جا چکی ہے لیکن جب اسے عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی جائے تو کافی پیچیدگیاں سامنے آتی ہیں۔ کہیں لینڈ ٹائٹل کا مسئلہ ہوتا ہے، کہیں پارلیمان کی منظوری چاہیے، کہیں ایک سے زیادہ محکمے ملوث ہوتے ہیں۔
محمد سہیل نے کہا کہ حکومت کے مالی مسائل فوری حل کا تقاضا کر رہے ہیں۔ اسے قرضے ادا کرنے کے لیے فوری طور پر ڈالروں کی ضرورت ہے چاہے وہ آئی ایم ایف دے، امریکہ دے، چین دے یا کوئی اور ملک دے۔ سرکاری زمین فروخت کرنا طویل المدت منصوبہ ہے اور میرے خیال میں تو ناممکن ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ماضی میں سرکاری زمین اونے پونے فروخت کیے جانے سے بڑے اسکینڈل بن چکے ہیں۔ مستقبل میں اس سے بچنے کے لیے وفاقی حکومت کو نئی حکمت عملی بنانے کے علاوہ قانون سازی بھی کرنا پڑے گی۔