تحریر : حافظ شاہد پرویز پانامہ لیکس کا شور گزشتہ روز بھی آرمی چیف اور وزیراعظم کی ملاقات کے بعد تھمنے کی جانب نظر آنا شروع ہو رہا ہے۔ کیونکہ پانامہ لیکس کے جاری کردہ ناموں کی لسٹ صرف ایک سیاسی جماعت نہیں بلکہ تمام سیاسی جماعتوں کاروباری شخصیات اور دیگر مکاتب فکر کے لوگوں کے نام آتے ہیں بلکہ کچھ ایسے افراد کے نام بھی پانامہ لیکس کے معاملے میں آئے کے جن کے بارے میں اس کا خیال کرنا بھی شاید کسی نے نہ سوچا ہوگا۔ وقت کے ساتھ ساتھ قوموں معاشرے اور افراد میں بہتری کی گنجائش آتی رہتی ہے گزشتہ ڈیڑھ سال سے پہلے کے پاکستان میں شعور اجاگر کئے جانے والی اس کمپین کے جس میں لوگوں کو کرپشن کی مخالفت کرنے کی اور کرپٹ اور خاص طور پر دہشت گرد عناصر کو جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے دھکیلنے کے ساتھ ساتھ پھانسی دینے جیسے عوامل سے جہاں پر دہشت گردی میں کمی واقع ہوئی ہے تو وہیں پر اس کی مخالفت کرنے والے ذہنوں میں بھی مسلسل اضافہ ہوا ہے۔
اگر بیرون ملک کاروبار اور دیگر کمپنیوں کے حوالہ سے پاکستانیوں کو جائزہ لیا جائے تو ایک محتاط اندازے کے مطابق دیار غیر میں پاکستانیوں کی کمپنیاں ہونا کوئی منفرد اور انفرادی عمل نہیں ہے۔ پاکستان میں بیروزگاری کے تسلسل میں اضافے کے باعث اٹھارہ سے چالیس سال کی درمیانی عمر کے آج کے نوجوان تیس فیصد سے زائد کی تعداد میں روزی روٹی کے حصول کیلئے سعودی عرب دبئی کینیڈا برطانیہ امریکہ اور دنیا کے دیگر ممالک میں رہائش پذیر ہیں۔جبکہ یہاں تک کے بیرون ملک میں رہائش پذیرپاکستانی اب نژاد بن کر لندن کے مئیر امریکہ کی اسمبلیوں کے ممبران یورپ میں بڑے بڑے عہدوں پر بیٹھ کر اپنی خدمات بھی فراہم کررہے ہیں۔
اس چھوٹے سے دیہات کے جس کی مجموعی آبادی کی ریشو پانچ سو ہے ان پانچ سو افراد کی بستی میں سے آپ کو دو یا تین لوگ ضرور ملیں گے جو کہ بیرون ملک میں اپنی کمپنیاں رکھتے ہیں اور ان افراد کے ماضی میں اگر جھانکا جائے تو اس وقت ایسے افراد کے پاس بیرون ملک جانے کیلئے ٹکٹ کی رقم بھی موجود نہیں تھی لیکن نہ صرف انہوں نے وہاں پر اپنے کاروبار بنائے کمپنیاں بنائیں بلکہ پاکستان میں بھی بیرون ملک بھیجی گئی کمائی سے محل میرج ہال پیٹرول پمپ اور ملز وغیرہ کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔
Corruption
یورپ میں بسنے والے پاکستانی کے جو صرف عرصہ دس سال وہاں روزگار کمانے کیلئے گیا ہو آج پاکستان کے اندر اربوں روپے کے مالک بن چکے ہیں ایسے افراد کے بارے میں یہ سوال اٹھانا کیسے ممکن اور درست تصور کیا جاسکتا ہے کہ وہ فرد پاکستان سے لوٹی ہوئی رقم لے جا کر دیار غیر میں بستے ہوئے کمپنی بنا سکے۔ تو دوسری جانب اگر آف شور کمپینیوں کی بات کی جائے تو ایسے ممالک کہ جہاں پہ خفیہ کاروباروں کی اجازت کو قانونی شکل دی گئی ہے تو ان کے بارے میں شور شرابا کرنا کوئی درست عمل نہیں ہے مملکت پاکستان کو مضبوط اور مستحکم کرنے کیلئے آرمی چیف اور موجودہ حکومت کی جانب سے شروع کی گئی ایک کاوش کہ جس میں سب سے پہلے عام آدمی کی جان و مال کا تحفظ یقینی بنانے کیلئے کومبنگ آپریشن کے ذریعے اقدامات اٹھائے گئے اور ایسے افراد کو کیفر کردار تک پہنچایا گیا کہ جو افراتفری پھیلا کر شہریوں میں عدم تحفظ کی فضا پیدا کررہے تھے۔
ریاست کے استحکام اور بالا دستی کا پہلا قدم تھا اس کے بعد ریاست کے اندر بسنے والے افراد کے کاروبار کو تحفظ کرنا حکومت وقت کی اہم ذمہ داری ہے جبکہ کاروبار کے ساتھ ساتھ چھوٹے طبقے کے افراد کو روزگار کمانے کیلئے قرضوں کی فراہمی کو یقینی بنانے کے علاوہ ہمیں اپنی ریاست کو اتنا مضبوط اور مستحکم بنانا ہوگا۔
ہ امریکہ برطانیہ چین یا آئس لینڈ کے لوگ پاکستان کے اندر اپنا پیسہ لے کر آئیں جس کیلئے بڑی محنت اور کوشش کے ساتھ عدم استحکام کی فضا کو ختم کرکے ہمیں ایک باوقار قوم معاشرہ اور ریاست تشکیل دینے کی ضرورت ہے جس کے بعد سب سے پہلے اپنے شہریوں کو اعتماد کا یقین دلانے کے بعد پابند کرسکتے ہیں کہ وہ پاکستان میں کاروبار کریں اوربالادستی کو دیکھ کر دیگر ممالک کے لوگ بھی پاکستان میں سرمایہ کاری کریں گے۔