آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا

Panama

Panama

تحریر : سید توقیر حسین
عرض کی تھی کہ گندے کپڑے بازار میں نہ دھوئیں، لیکن برا ہو، برصغیر کی سیاست کے انداز کا کہ یہ کسی کے پلے نہ پڑی اور اب ”ہور چْوپو”والی بات ہو گئی، خود الزام لگانے والے بھی زدمیں آ گئے، عمران خان کو تسلیم کرنا پڑا کہ انہوں نے 1983ء میں آف شور کمپنی بنائی کہ ان کے اکاؤٹنٹ نے مشورہ دیا کہ اس طرح جائیداد خریدتے وقت ٹیکس نہیں دینا پڑے گا۔ اب عمران خان کا موقف ہے کہ انہوں نے یہ سب کاؤنٹی کرکٹ کھیل کر کمایا اور اس پر انگلینڈ میں انکم ٹیکس ادا کیا چونکہ وہ برطانوی شہریت نہیں رکھتے اس لئے انہوں نے قانون اور قواعد کے تحت آف شور کمپنی بنا کر فلیٹ خریدا اور یہی فلیٹ فروخت کرکے رقوم پاکستان منتقل کیں جو بنک کے ذریعے ہوئیں۔ عمران خان کے اس موقف کو تسلیم اور نہ ماننے والوں کی تعداد بھی کم نہیں ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اتنا عرصہ پاناما پاناما ہوتا رہا۔ عمران خان انتہا پسندانہ مطالبات کرتے رہے اس کے باوجود انہوں نے کل تک تو آف شور کمپنی کا ذکر نہیں کیا تھا، اب کیا تو تسلیم کیا کہ انہوں نے ٹیکس بچانے کے لئے کمپنی بنائی۔ اب اگر یہی موقف دوسرے اختیار کریں جو عمران اور ان کے ساتھیوں جہانگیر ترین اور علیم خان نے اختیار کیا تو عمران خان کو دوسروں کے ایسے موقف کو تسلیم کرنے میں گریز کیوں ہے۔

درحقیقت پاناما نے پاکستانیوں کی حقیقت کھول کر رکھ دی اقتدار میں شامل لوگ اور حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے کہتے نہیں تھکتے کہ پاکستان کی اقتصادی اور معاشی حالت ٹھیک نہیں اور حالات یہ ہیں کہ خود پاکستانیوں کی اتنی دولت باہر پڑی ہے جو تمام قرضے ادا کرکے بھی فاضل ہے اس میں وزیرخزانہ اسحاق ڈار اور وزیراعظم محمد نوازشریف بھی شامل ہیں چاہے اب ان کے بیٹوں کے نام ہے تو یہ بیٹے خاندان سے خارج ہیں؟ ایسا نہیں ہے، حالات کے مطابق سب کو جواب دہ ہونا ہے، وہ کوئی بھی ہو یہ قومی سوال ہے ، اسے الزام تراشی کا ذریعہ نہ بنائیں۔ بہتر عمل اور طریقہ وہی ہے جو سید خورشید شاہ نے بتایا کہ پارلیمنٹ کو اہمیت دیں، دنیا بھر میں یہی ہوا، یہ صرف وزیراعظم یا مسلم لیگ (ن) کے لئے نہیں تمام جماعتوں کے لئے ہے۔ سیاست اور سیاست دان بدنام ہو رہے ہیں، ایک دوسرے کے خلاف پوائنٹ سکورنگ کے الزام لگاتے ہیں، خود نہیں رکتے، سب کو گریز کرنا ہوگا ورنہ فرزند راولپنڈی اور حضرت مولانا فضل الرحمن کی موجیں ہی موجیں!

Maulana Fazlur Rehman

Maulana Fazlur Rehman

محترم مولانا فضل الرحمن کی اہمیت اور ان کے انداز گفتگو اور برجستگی کا اندازہ لگا لیں اور ذہانت کے قائل ہو جائیں، خبر چھپی اور نشر ہوئی کہ مولانا فضل الرحمن نے سابق صدر آصف علی زرداری سے بات کی اور ان کو مفاہمت کا عمل جاری رکھنے کے لئے کہا اور یہ بات وزیراعظم کے ایماء پر کی گئی، مولانا نے کیسی خوبصورت تردید کی، بات نہیں ہوئی، لیکن تجویز بری نہیں اور اس میں قباحت بھی نہیں، یعنی وہ مصالحت کے لئے تیار ہیں، تاہم سید خورشید شاہ کی جمعہ والی پریس کانفرنس ضرور ملاحظہ کر لیں جس میں وہ یقین دہانیاں کراتے نظر آ رہے ہیں، وزیراعظم شادی میں شرکت کے لئے ترکی گئے اور آج واپس بھی آ جائیں گے اب یہ یقینی ہے کہ پیر کو قومی اسمبلی میں بیان دیں گے۔ عرض یہ ہے کہ بہتر صورت پیدا کریں۔ احتساب بل کی بنا پر مستقل احتساب کمشن کا اعلان کرکے مدت کا تعین کر دیں اور سپریم کورٹ کے خط کی روشنی میں حزب اختلاف سے مل کر طے کر لیں کہ احتساب کا عمل کہاں سے شروع ہو کر کہاں تک جائے گا سیاست اور سیاست دانوں کو بدنامی سے بچائیں، جمہوری طرز عمل اختیار کریں، سبھی کوئی ایک نہیں!

ادھر ایک بڑی دلچسپ صورت حال پیدا ہوئی۔ سابق سینئر وزیر (پنجاب) اور پیپلزپارٹی فیصل آباد ڈویڑن کے سابق صدر راجہ ریاض 35سال تک پیپلزپارٹی کے ساتھ گزارنے کے بعد اسے داغ مفارقت دے کر تحریک انصاف کی طرف چلے گئے۔ ایسے ”رتبے” والے کے چلے جانے سے افسوس اور دکھ ہونا چاہیے، لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ کارکنوں نے بھنگڑے ڈال کر خوشی منائی اور مٹھائیاں تقسیم کیں، اگر ان کے حق میں بھی کارکنوں کی آواز اٹھتی تو کہا جاتا کہ یہ مخالف دھڑا ہے لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا، راجہ ریاض کے خلاف تو یہ بھی الزام تھا کہ انہوں نے اپنے دیرینہ دوست اور ساتھی رانا آفتاب احمد خان کی پیٹھ میں چھرا گھونپا اور ان کو دوبار انتخابات میں شکست کا سامنا کرناپڑا کہ پارٹی میں ہوتے ہوئے حلقہ ملحق ہونے کی وجہ سے انہوں نے ووٹ دوسری طرف ڈلوائے۔ رانا آفتاب نے تو ہارنے کی وجہ سے پیپلزپارٹی پنجاب اور اوورسیز کی صدارت سے استعفا دے دیا تھا۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری لاہور میں ہیں، گزشتہ تین دنوں میں جہاں انہوں نے حیدر گیلانی کی بازیابی پر مخدوم یوسف رضا گیلانی نے گھر جا کر مبارکباد دی وہاں انہوں نے بلاول ہاؤس میں تنظیمی کمیٹیوں کے اراکین اور دوسرے پارٹی رہنماؤں سے ملاقاتیں کرکے تبادلہ خیال کیا تاہم یہ اندازہ نہیں ہوا کہ وہ کیا رخ اختیار کر رہے ہیں کیونکہ پارٹی کے دیرینہ اور سینئر اراکین سے ملنے والے پروگرام پر عمل نہیں ہوا۔ ان کو چاہیے کہ وہ اس طرف قدم بڑھائیں اور عام کارکنوں کو بلا کر ان سے بھی بات کریں۔

Syed Tauqeer Hussain Zaidi

Syed Tauqeer Hussain Zaidi

تحریر : سید توقیر حسین