تحریر : ظفر اقبال حسن ایسا پہلی بار نہیں ہوا بلکہ یہ جرات رندانہ دوسری بار ہوئی اس فنکار نے سوچا ہو گا قارئین اور سنسر والے اس کی پہلی جسارتِ سرقہ فراموش کر چکے ہو نگے مگر سنسر والے بھی قیامت کی نظر رکھتے ہیں انہو ں نے اس فنکار کی چر بہ سازی پھر پکڑ لی یہ سنسر والے بھی عجیب ہیں بھلا کوئی فنکاروں کے ساتھ اس طر ح کا سلوک کرتا ہے قارئین کو شاید یاد ہو گا تین چار سال پہلے اسی فنکار نے کسی دوسرے کا اسکرپٹ اڑا کراپنے نام سے شائع کر دیا جس پر عزیزان ڈاکٹر قمر فاروق اور مرزا ندیم بیگ نے اس صریحاََ چر بہ سازی پر سخت گرفت کی اور پھر قصہ چائے قضیاں تک جا پہنچا اب کی بار خیر گزری کہ معا ملہ چند پڑ ھنے والو ں تک ہی محدود رہا۔ کچھ بھی ہو یہ صریحاََ صحافتی بد دیا نتی ہو تی ہے کہ کسی کی کاوش اپنے نام سے منسوب کر دی جائے۔
ایسا وہ کرتے ہیں جو حادثاتی ، زبر دستی ، یا پھر اچانکی صحافی بنے ہو ں جن کو دیار غیر میں کو ئی کام دھندہ نہ ملے یا جو کام کر نے سے گھبراتے ہو ں وہی ایسی حر کتو ں کے مر تکب ہو تے ہیں ہمارے اس فنکار کا تعلق چو نکہ شو بز کی ایک شا خ اسٹیج سے بھی رہا ہے اس لئے انہیں شاید یاد ہو گا۔ ملکہ ترنم نور جہاں کی قیام پاکستان کے بعد پہلی پنجابی فلم چن وے تھی اس بلاک بسٹر فلم میں یہا ں ملکہ ترنم نور جہا ں نے ہیروئن کا کردار ادا کیا وہیں اسکرین پر بطور ہدایت کار بھی ان کانام لکھا گیا یو ں وہ بر صغیر کی پہلی خاتون ہدایت کارہ قرار پائیں ۔جبکہ حقیقت یہ تھی کہ ہدایات ان کے اس وقت کے شوہر سید شوکت حسین رضوی نے دی تھیں ،مگر کریڈٹ ملکہ ترم کو مل گیا اس طرح سینکڑوں فلمیں تھیں جن میں کئی غیر معروف اور گمنام شاعرو ں کے نغمے، گیت ، غزلیں نامور اور جانے پہچانے نامو ں کے ساتھ پیش کئے گئے مگر یہا ن بھی جو حقیقی لوگ تھے انہو ں نے اس اقدام کو پسند نہ کیا جیسا کہ فلم دو رنگیلے کی موسیقی کا کریڈٹ مر حوم رنگیلا کو دیا جا تا ہے۔
جبکہ اس کی موسیقی کمال احمد مر حوم نے دی تھی جو رنگیلا کی تمام فلمو ں کے موسیقار رہے ہیں اس میں کو ئی شک نہیں کہ ہمارا یہ فنکار دوست بڑے اعلیٰ پائے کا اداکار ہے،بلکہ بارسلونا کی حد تک شاید اس کا مقابلہ کو ئی نہ کر سکے مگر ضروری نہیں یہ فنکار اچھا قلم کار بھی ہو اس کے لئے مطالعہ مشاہدہ اور تجربہ بہت ضروری ہوتا ہے۔ راقم کو یاد ہے کہ 1976ء میں جب ہم دسویں کلاس میں پڑ ھتے تھے ہم نے ایک افسانہ لکھا اور نظر ثانی کے لئے اپنے اردو کے استاد جناب سمیع صاحب کو دے دیا اگلے دن انہو ں نے دو لائنیں لکھ کر لو ٹا دیا کہ ابھی اخبارات، رسائل اور کتب پڑھو اس کے بعد ہم نے 1980ء میں یہ جرات کی اور دی کھاریا ں کالج میگزین میں دو افسانے لکھ دئیے ایک اردو میں ’’تیرا میرا ساتھ رہے اور دوسرا پنجابی میں شنو جھلی یہی نہیں ایک پنجابی غزل بھی لکھ ماری مگر ایسی جرات کر نے سے پہلے ہم نے اپنے استاد کا کہا ضرور مانا تھا اور اخبارات سے دل لگا لیا تھا۔
Madam Noor Jehan
رسائل بھی زیرِ مطالعہ رہے اور اچھی کتب پر بھی ہماری نظر رہی جو بعد ازاں ہمارے صحافتی کیرئیر میں ممد ومعاون رہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ آج کل کا فی عر صہ ہوا بارسلونا میں نئے صھافیو ں کی آمد کا سلسلہ رک سا گیا ہے اب کوئی کیوں اس فیلڈ میں آئے گا جب سنسر والے ہاتھ دھو کر پیچھے پڑ جائیں گے بارسلونا میں صحافت تو آخری چوائس ہے جب کوئی کام دھندہ نہ ملے تو اس بیچاری صحافت پر قناعت کرنا پڑتی ہے مگر اس کے لئے وھیلے اور فارغ صحافیوں کو بڑی قربانیان دینا پڑتی ہیں روٹی ٹکر تو مل جا تا ہے مگر بہت بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے کہیں عزتِ نفس مجبور ہوتی ہے تو کہیں حالات کا جبر برداشت کرنا پڑتا ہے کڑوی کیسلی اور غیر پارلیمانی زبان سننے کو ملتی ہے۔
غالباََ یہی وجہ ہے کہ ذرا سی بھی غیرت اور حمیت رکھنے والا اب اس فیلڈ میں نہیں آ رہا بلکہ پہلے سے موجود بھی کئی ساتھ اپنی صحافیانہ سرگرمیاں ختم کر کے اپنی ویب سائٹس تک بند کر چکے ہیں۔ ہمارا مشورہ ہے نئے آنے والوں اور پرانے فرسودہ راستوں پر چلنے والے صحافیوں کیلئے کہ وہ پہلے خود کو خود کفیل بنائیں مالی اور معاشی طور پر مضبوط ہو کر ایک تیاری کے ساتھ اس فیلڈ میں آئیں اور آنے سے پہلے مطالعہ ضرور کریں اپنے سے سینئر اور ملکی اور غیر ملکی صحافیوں کا طرزِ تحریر اور ان کی لفاظی کو دیکھیں ،حالاتِ حاضرہ پر نظر رکھیں تاریخ سے فائدہ اٹھائیں بلکہ اپنی تحریروں میں تبدیلی لائیں تاریخی موضوعات بھی چنیں، حالاتِ حاضرہ، فنونِ لطیفہ پر بھی لکھیں ، تنقید بھی لکھیں ،توصیف بھی لکھیں ،مگر سرقہ، چربہ، چوری مت کریں بری بات ہے بچے ایسا کر نے والے کو پتہ ہے لو گ کیا کہتے ہیں دعویٰ تو تمہارا ایم اے صحافت کا ہے مگر حر کات پرائمری پاس والی کرتے ہو اتنے بڑے ادارے میں تمہارا گھس بیٹھنا تمہاری صحافتی صلاحیتو ں یا تعلیمی قابلیت کی وجہ سے نہیں کل کسی اور نے تگڑی سفارش اور ترازو تو لنے کیلئے اٹھا لیا تو پھر بوڑھ کے نیچے آجاؤ گے ۔اس لئے بہتر ہے ابھی سے خود پر انحصار کر نا سیکھ لو کب تک ادھر ادھر اور خصوصاََ عزیزی مرزا ندیم بیگ کی خبروں پر ہاتھ صاف کرو گے ہم نے پہلے بھی کہا ضروری نہیں اچھا فنکار اچھا قلم کار بھی ہو۔
مگر اچھا قلم کار اچھا فنکار ضرور بن سکتا ہے بشیر نیاز ، ناصر ادیب ، علی سفیان آفاقی ،شباب کیرانوی ،یسین گورایہ اچھے صحافی تھے اچھے قلم کار تھے،اچھی فلمیں بھی پروڈیوس کر گئے اسد جعفری کئی دھائیو ں تک جنگ اور اخبارِ جہا ں کے لئے صحافت کرتے رہے100سے زائد فلمیں بھی کر گئے مگر کوئی اداکار صحافت میں آکر تیر نہ مار سکا کسی سے متاثر ہونا کسی کے انداز کو کاپی کر نا کوئی بری بات نہیں مگر کسی کی کا پی بنا لینا بری بات ہے آخر یہ بچپنا کب تک چلے گا اب تو بڑے ہو جاؤ مطالعہ کی عادت ڈالو یقیناًاب وہ نہیں ہو سکے گی سیکھنے کی عادت ڈالو مگراب یہ بھی ممکن نہیں کیو نکہ تمہیں صبح وشام روٹی سالن کی تگ ودو کر نا ہو تی ہے اور اس کا صرف اور صرف چند سیکنڈ کی فوٹیج ہے مگر چند سیکنڈ کی فوٹیج ہرگز ہرگز صحافت نہیں کہلاتی کیو نکہ یہ کام تو اب بچہ بچہ موبائل فون سے بھی کر لیتا ہے لوگو ں نے اپنے انٹر نیٹ ٹی وی بنا لئے ہیں ایک دن آئے گا یہ ڈرامہ بھی تمہارا فلاپ ہو جا ئے گا دس فیر کتھے جائیں گا ؟آج جو لوگ چند لمحوں کی فو ٹیج کیلئے تمہاری جیب گرم کرتے ہیں ذرا پسِ پردہان کے تاثرات بھی خود کے بارے میں سن لیاکرو صحافت کر نی ہے تو خود کو اس نہج پر لے جاؤ غلط کو غلط لکھو سکو پریشر برداشت کر سکو۔
Journalism Pakistan
اگر کوئی تمہارے منہ کو آئے تو اس کے دانت کھٹے کر سکو، اگر کسی کی صلاحیتوں کی تعریف کرو تو بھی بے لوث کرو بدلے میں نان چھولے نہ مانگو اور یہ اس طرح ممکن ہو سکتا ہے کہ جو لوگ تم سے کام لیتے ہیں ان سے کام مانگو لنگر نہ مانگو کام کو ئی چھو ٹا یا بڑا نہیں ہو تا مزدوری کر نا کو ئی عار کی بات نہیں محنت میں عظمت ہے ۔وقار ہے عزت وتکریم ہے چلو چوکیدارہ کو تم برا سمجھتے ہو کوئی اور کام کر لو ہو ٹلز میں بر تن صاف کر کے، روڈ کنسٹریشن کر کے، پبلسٹی کی ریڑھی کھینچ کر تم عزت سے رو ٹی کما سکتے ہو اور فخر سے اپنے بچو ں کو کہہ سکتے ہو میں نے تم لو گو ں کے لئے اپنا خون پسینہ ایک کیا ہے بدلے میں تمہیں وہ را حت ملے گی جس سے آج تک تم محروم ہو ۔خود کو عقل کل سمجھنا چھوڑ دو یہ ٹی وی کا لو گو اور مائیک آج تمہارے پاس ہے تو کل کسی اور کے پاس ہو گا یہا ں سدا قیام کس کا رہا ہے ابھی ہماری فیلڈ کی طرف نئے اور سیاسی و سماجی حیثیت رکھنے والے شوقین لوگو ں کا رجحان نہیں ہوا ورنہ اگر تم سفارش کروا سکتے ہو تو میرے بچے کوئی اور بھی یہ حر کت کر سکتا ہے ہم پہلے بھی تمہیں اچھی اچھی باتیں اور متیں دیتے رہے ہیں آج بھی دے رہے ہیں اتنا گھمنڈ ٹھیک نہیں کہ تم کہتے پھرو اگر تقریب میں مجھے بلانا ہے تو سوسو روپے والی ویب سائٹ والو ں کو بلانا چھوڑ دو اتنا غرور اتنا گھمنڈ ذرا اس لوگو اور مائیک سے پہلے والی زندگی پر غور فرما لو ،ہم عرض کریں گے تو شکایت ہو گی۔
اور پھر اپنا صحافتی کیرئیر تو ملاحظہ کرو کون سا تم نے تعمیری کام کیا کن معاشرتی ناسورو ں کے بارے میں تم نے لکھا ہے کون سے نئے نئے باب رقم کئے ہیں کیا کیا مقصدیت اور مو ضوعیت سے بھر پور لکھا ہے ارے تہی دست تہی دامن ہو اسٹیج پر چٹکلے سنانا اور چند جگتیں لکھنا اور بات ہے ظلم نا انصافی ،کرپشن ،وطن دشمنو ں کے خلاف لکھنا اور بات ہے اس کے لئے عم عقل اور جرات چاہیئے دو لائینیں لکھ کر معافی مانگ کر پرانی تنخواہ پر کام کرنا بری بات ہے چند سیکنڈ کی فو ٹیج کے بدلے مراعات لینا چند سکے حاصل کر لینا بری بات ہے اگر کسی کے نیک اور اچھے کامو ں کی تعریف کرو تو بھی بلا معا وضہ کرو اچھی بات ہے مگر شاید اس سے پیٹ کا دوزخ نہیں بھر ے گا اس کے لئے تو پھر محنت کرنا پڑے گی کام کرنا پڑے گا مگر کون
خبر شائع کرنا، خبر نشر کر نا ہماری ڈیو ٹی ہے اس کا کو ئی معا وضہ نہیں ہو تا بلکہ خبر دینے والے کو پیسے دینے پڑتے ہیں یہ ہمارے پروفیشن میں لازم ہے ۔اخبارات والے نیوز ایجنسیو ں سے خبریں لیتے ہیں ان کو پیسے دیتے ہیں اپنے رپورٹرز سے خبریں لیتے ہیں ان کو پیسے دیتے ہیں کب کو ئی مالک کہتا ہے کہ خبرو ں کے پیسے لو، اگر مالکان کو پتہ چل جا ئے کہ فلا ں نمائندہ ہمارا نام بیچ کر کھا رہا ہے تو ہم سب کو پتہ ہے کہ پھر کیا ہو تا ہے۔ یہ سب کچھ ہم بڑا بھائی ہو نے کے نا طے لکھ رہے ہیں اپنی زندگی کا کو ئی مقصد بناؤ ، تعمیری سوچ اپناؤ ، قلم سے رشتہ جو ڑنا ہے تو مطالعہ کی عادت اپناؤ تھوڑا لکھو اپنا لکھو جن لو گو ں کی تحریروں اور خبروں پر ہاتھ صاف کرتے ہو ان سے معا فی مانگو اپنی جنگ اپنے قلم سے لڑو جن لو گو ں سے آج تک اکتسابِ فیض حاصل کرتے رہے ہو ان کا شکریہ ادا کرو خود اپنا پلا ٹ سوچو اپنی سٹوریز لکھو ،اپنے ذخیرہ الفا ظ کو بڑ ھاؤ ارے کوشش تو کرو یو ں پکی پکائی پر ہاتھ تو صاف نہ کرو کو شش کر نے سے کیا نہیں ہو سکتا پاکستان اور امتِ مسلمہ کو دنیا جہا ں کے مسائل کا سامنا ہے مشرقِ وسطی سے لے کر وسط ایشیاء تک امریکہ سے لے کر اسٹریلیا تک، یورپ سے لے کر افریقہ تک ،سینکڑوں موضوعات تم کو مل جا ئیں گے مگر اس میں محنت لگے گی اور وہ ضرور کرنا۔