او آئی سی کا اعلان، پاکستان کی سفارتی کامیابی

OIC

OIC

تحریر : منذر حبیب

اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) نے اسلام آباد میں مقبوضہ کشمیر اور بھارت کے مسلمانوں کے تحفظ کے حوالے سے خصوصی اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی درخواست پر سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے یقین دہانی کروائی ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی کشیدہ صورتحال اور بھارت میں مسلمانوں پر مظالم کیخلاف یہ اجلاس بلایا جائے گا اور اس کی میزبانی پاکستان کرے گا۔ میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ او آئی سی کا کشمیر پر خصوصی اجلاس وزرائے خارجہ کی سطح کا ہو گا اور سعودی عرب کی جانب سے طلب کیا جائے گا۔سعودی وزیر خارجہ کے حالیہ دورہ پاکستان کے بعد اس اعلان کو پاکستان کی بڑی سفارتی کامیابی قرار دیا جارہا ہے۔ او آئی سی کی طرف سے پاکستان میں اجلاس بلانے کے فیصلہ کو اس لحاظ سے بھی اہمیت دی جارہی ہے کہ اس کا فیصلہ ایسے موقع پر کیا گیا ہے جب حال ہی میں ملائشیا میں ایک نئی اسلامی کانفرنس کا اہتما م کیا گیا جس میں پاکستان، سعودی عرب، مصر ، انڈونیشیا، متحدہ عرب امارات اور بعض دیگر ملکوں نے یہ موقف اختیار کرتے ہوئے شرکت نہیں کی تھی کہ وہ امت مسلمہ کو تقسیم کرنے والے کسی نئے پلیٹ فارم کا حصہ نہیں بن سکتے۔

اسلامی تعاون تنظیم کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ او آئی سی دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی آواز ہے اور یہ تنظیم اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کے ساتھ بھی مشاورتی عمل میں منسلک ہے تاکہ دنیا بھر میں مسلمانوں کے مفادات کا تحفظ اور رکن ممالک کے اختلافات کو دور کیا جاسکے۔ اس کے علاوہ تنظیم نے اسلامی اقدار کے دفاع ،غلط تصورات کی درستگی اور مسلمانوں کے خلاف نسلی امتیاز ختم کرنے کے لیے بے شمار اقدامات اٹھائے ہیں۔مملکت سعودی عرب میں 1970 میں پہلی اسلامی وزراء خارجہ کانفرنس منعقد ہوئی جس میں فیصلہ کیا گیا کہ اسلامی تعاون تنظیم کا جنرل سیکرٹریٹ قائم کیا جائے گا جس کا صدر دفتر جدہ میں ہوگا اور اس سیکرٹریٹ کے صدر اسلامی تعاون تنظیم کے سیکرٹری جنرل ہوں گے۔

ڈاکٹر یوسف بن احمد عثیمین اسلامی تعاون تنظیم کے گیارہویں سیکرٹری جنرل ہیں جنہوں نے یہ عہدہ نومبر 2016 میں سنبھالا۔ 1972 میں اسلامی وزراء خارجہ کانفرنس کے تیسرے اجلاس کے دوران اسلامی تعاون تنظیم کا چارٹر اپنایا گیا اور تنظیم کے بنیادی مقاصد اور اصول وضع کیے گئے جن کا سب سے بڑا مقصد رکن ممالک کے درمیان تعاون اور یکجہتی کو فروغ دینا ہے۔ اسلامی تعاون تنظیم، عالم اسلام کی اجتماعی آواز ہے، اور رکن ممالک کے لیے سرکاری چھتری ہے،۔اس تنظیم کا مقصد مسلمانوں کے مفادات کا تحفظ کرنا، مسلمانوں کو یک آواز رکھنا، اور قوموں کے تعلقات کو مضبوط کرنا ہے۔ او آئی سی کی تاسیس اس تاریخی سربراہی کانفرنس کی قرارداد کے نتیجے میں ہوئی جومراکش کے دار الحکومت رباط میں 25 ستمبر 1969 میں مقبوضہ بیت المقدس میں مسجد اقصی کو آگ لگانے کے مجرمانہ عمل کے رد عمل کے طور پر منعقد کی گئی تھی۔ پچھلی چار دہائیوں کے دوران رکن ممالک کی تعداد 30 سے بڑھ کر 57 ہوگئی، بعد ازاں تنظیم کے چارٹر میں کچھ تبدیلیاں کی گئیں تاکہ عالمی پیشرفت سے مطابقت رکھی جا سکے۔

خادم الحرمین شریفین ہمیشہ عرب اور اسلامی ممالک کے درمیان دوستی، اخوت اور یکجہتی کی فضا قائم رکھنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں، تاکہ مسلمانوں کی صفیں متحد رہیں اور ان کے درمیان اختلافات نہ پیدا ہوں۔مسلم دنیا کے مسائل کے حل کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کا مقصد مسلمانوں کے درمیان اخوت اور بھائی چارے کی فضا کو قائم رکھنا اور باہمی تعلقات کو کدورتوں سے پاک رکھنا ہے تاکہ اسلامی یکجہتی کو مضبوط کیا جا سکے۔ مملکت سعودی عرب کی طرف سے مسلم دنیا میں پائے جانے والے اختلافات ختم کرنے اور امت مسلمہ کو درپیش مختلف چیلنجز سے نمٹنے کے لیے عظیم کاوشیں کی جاتی رہی ہیں۔ رواں ماہ ملائشیا کانفرنس کے موقع پر اوآئی سی پر بعض لوگوں کی طرف سے سخت تنقید کی گئی لیکن بات یہ ہے کہ ہے۔

اصلاح کی گنجائش تو ہر جگہ موجود ہوتی ہے، جہاں کہیں کمزوری محسوس ہوتی ہے اسے ٹھیک کرنا چاہیے بجائے اس کے کہ ایک نیا فورم تشکیل دے کر مسلم امہ کے اتحاد میں مزید دراڑڈالتے ہوئے انتشار کی فضا پیدا کر دی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ ملائشیا کانفرنس میں صرف تین ملکوں کے سربراہان شریک ہوئے اور بیس ملکوں نے اپنے نمائندے بھیج کر حاضری ڈالی۔ پاکستانی وزیراعظم عمران خان کا مذکورہ کانفرنس میں شرکت نہ کرنا درست فیصلہ تھا۔ حکومت سے اختلافات اپنی جگہ لیکن وزیراعظم کے اس فیصلہ کو صرف پاکستان اور سعودی عرب ہی نہیں دیگر اسلامی ملکوں میں بھی تحسین کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے اور سمجھا جارہا ہے کہ پاکستان واقعتا مسلم ملکوں میں اتحادویکجہتی پیدا کرنے اور انہیں اختلافات سے بچانے کیلئے سنجیدہ کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔

مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کئے جانے کے بعد سے مسلسل کرفیو اور لاک ڈائون کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ اس وقت بدترین غذائی بحران پیدا ہو چکا ہے۔ گھروںمیں محصور رہنے سے کشمیریوں کی بڑی تعداد بیمار ہے اور طبی امداد اور ادویات نہ ملنے سے ہزاروں کشمیریوں کی زندگیاں دائو پر لگ گئی ہیں۔ ادویات نہ ہونے سے ہسپتالوں میں اہم آپریشن منسوخ کر دیے گئے ہیں۔ انٹرنیٹ اور پری پیڈ سروسز مکمل طور پر معطل ہیں جس سے طلبائ، ڈاکٹرز، تاجروں، صحافیوں اور دیگر شعبہ جات سے وابستہ افراد کوبہت زیادہ مشکلات کا سامنا ہے۔ بھارتی فوج اور حکومت کشمیریوں کو تحریک آزادی سے دور کرنے کیلئے مظالم ڈھانے کے سبھی ہتھکنڈے آزما رہی ہے لیکن کشمیری صبرو استقامت کا پہاڑ بن کر بھارتی دہشت گردی کا مقابلہ کر رہے ہیں اور میدانوں میں برسر پیکار ہیں۔

مقبوضہ کشمیر کی طرح بھارت کی صورتحال بھی سخت خراب ہے۔ شہریت ترمیمی بل کی منظوری کے بعد بھارت کی مختلف ریاستوں میں ہنگامے پھوٹ پڑے ہیں۔ ہندوستانی مسلمانوں، مختلف اقلیتوں اور اپوزیشن پارٹیوں کی طرف سے احتجاج کیا جارہا ہے تو دوسری جانب حالات یہ ہے کہ ہندوانتہاپسند تنظیمیں بھارتی مسلمانوں کا بڑے پیمانے پر قتل عام کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ایک بار پھر گجرات قتل عام کی تاریخ دہرانے کی سازشیں کی جارہی ہیں۔ ہندوانتہاپسند سرکاری سرپرستی میں مسلمانوں کے گھروں میں گھس کر حملے کر رہے ہیں اور خواتین کی عزتوں سے کھلواڑ کیا جارہا ہے۔ انتہاپسندوں کی درندگی اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ بھارت میں تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے انصاف پسند لوگ اس کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں مگر مودی سرکار کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی اور وہ مسلمانوں کو انڈیا سے بے دخل کرنے کی ہندوتواسوچ اور پالیسی پر عمل کرنے کے درپے ہے۔ ایسی صورتحال میں اقوام متحدہ کے بعد مسلمانوں کے دوسرے بڑے ادارے او آئی سی کی طرف سے کشمیر اور بھارت کے مظلوم مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے ظلم و بربریت کے خلاف پاکستان میں او آئی سی کا اجلاس بلانے کے ان شاء اللہ دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔

اسلامی کانفرنس تنظیم (او آئی سی ) کی بلاشبہ اسلام اور مسلمانوں کے لئے بہت زیادہ خدمات ہیں ۔ جو لوگ اس ادارے پر تنقید کرتے ہیں انہیں مسلمانوں کے اس عالمی ادارے کی خدمات کو یکسر نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ مسلم ممالک میں کوئی نیا بلاک بنانے کی کوششیں کسی طور درست نہیں ہیں اس لئے او آئی سی کو متحرک کرنا اور کشمیر، فلسطین اور امت مسلمہ کو درپیش دیگر مسائل حل کرنے کیلئے کاوشیں کرنا خوش آئند اقدام ہے۔ اسی سے اسلامی یکجہتی کو فروغ ملے گا اور مسلم دنیا بھی مزید تقسیم سے بچ سکے گی۔ او آئی سی اجلاس کے نتیجہ میں کشمیری و بھارتی مسلمانوں پر مظالم کے خلاف بھی عالمی سطح پر زوردار آواز بلند کی جاسکے گی اور بھارت کی مودی سرکار کو نہتے مسلمانوں پر بدترین مظالم ڈھانے سے روکنے کیلئے دبائو بڑھایا جا سکے گا۔

تحریر : منذر حبیب